جون ایلیا شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہمراہ چلیں

یاسر شاہ

محفلین
غزل
جون ایلیا

شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہمراہ چلیں
آج وہاں قوالی ہو گی جون چلو درگاہ چلیں


اپنی گلیاں اپنے رمنے اپنے جنگل اپنی ہوا
چلتے چلتے وجد میں آئیں راہوں میں بے راہ چلیں


جانے بستی میں جنگل ہو یا جنگل میں بستی ہو
ہے کیسی کچھ نا آگاہی آؤ چلو ناگاہ چلیں


کوچ اپنا اس شہر طرف ہے نامی ہم جس شہر کے ہیں
کپڑے پھاڑیں خاک بہ سر ہوں اور بہ عزّو جاہ چلیں


راہ میں اس کی چلنا ہے تو عیش کرا دیں قدموں کو
چلتے جائیں ، چلتے جائیں یعنی خاطر خواہ چلیں


جون ایلیا​
 

یاسر شاہ

محفلین
سیما جی جزاک اللہ خیر ۔
عجیب سکر اور وارفتگی کے عالم میں جون نے یہ غزل لکھی ہے کہ پڑھنے والا بھی سر دھنتا ہے۔

آپ نے جو شعر چنا ہے وہ میرا بھی پسندیدہ ہے۔دین کے کسی مشکل تقاضے کے وقت بعض لوگ بڑے الول جلول سے ہو جاتے ہیں جیسے انھیں پیلیا ہو گیا ہو۔اس موقع پہ یہ شعر اکسیر کا کام دیتا ہے:
راہ میں اس کی چلنا ہے تو عیش کرا دیں قدموں کو
چلتے جائیں ، چلتے جائیں یعنی خاطر خواہ چلیں
 

سیما علی

لائبریرین
کے کسی مشکل تقاضے کے وقت بعض لوگ بڑے الول جلول سے ہو جاتے ہیں جیسے انھیں پیلیا ہو گیا ہو۔اس موقع پہ یہ شعر اکسیر کا کام دیتا ہے:
راہ میں اس کی چلنا ہے تو عیش کرا دیں قدموں کو
چلتے جائیں ، چلتے جائیں یعنی خاطر خواہ چلیں
صد فی صد درست کہا آپ اللول جلول موزوں لفظ ہے ۔۔۔۔🌹🌹
 
Top