شانِ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا

حضورﷺ کی عیادت کے لئے خاتون جنت کی آمد
اورسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے وصال کی شان
-
٭ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں۔
’’جس مرض میں سرکار نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت کی بات ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یاد فرمایا، جب وہ تشریف لے آئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کان میں کوئی راز کی بات کہی۔ آپ رونے لگ گئیں، پھر سرکار نے دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات کہی تو ہنسنے لگ گئیں‘‘۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس رونے اور ہنسنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا :

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ مجھے بتایا کہ اسی مرض میں آپ کا وصال ہوجائے گا۔ جدائی کے تصور سے میں رونے لگ گئی، پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ راز کی بات بتائی کہ اہل بیت میں سے، میں سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچوں گی۔ یہ خوشخبری پا کر میں ہنسنے لگ گئی اور خوش ہوگئی‘‘۔
_
کہنے کی بات یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ کو موت کی خبر دی کہ اہل بیت میں سب سے پہلے تمہاری موت واقع ہوگی، مگر سیدہ رضی اللہ عنہانے گھبرانے اور پریشان ہونے کی بجائے خوشی کا اظہار فرمایا اور ہنسنے لگیں۔ وجہ یہی تھی کہ یہ موت جدائی کے لمحات ختم کرنے والی اور وصال محبوب کا ذریعہ تھی۔

بعد کے واقعات شاہد ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدہ رضی اللہ عنہا بے حد افسردہ اور غمگین رہیں، مگر یہ تصور ان کی ڈھارس بندھاتا تھا کہ اہل بیت کرام میں سب سے پہلے ان ہی کی باری ہے، اس لئے وہ موت ہی کے انتظار میں رہتی تھیں اور ایک ایک دن گن گن کر گزار رہی تھیں بمشکل چھ ماہ گزار سکیں، جوں جوں وقت قریب آتا گیا، آپ کی خوشی بڑھتی گئی اور ہمہ وقت وجد و کیف اور سرور کی کیفیت طاری رہنے لگی، آخر وہ روزِ سعید بھی آگیا جس کا شدت سے انتظار تھا۔
-
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے وصال کی شان:

٭حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا نے حضرت سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے وصال کی تفصیلات اس طرح بیان فرمائی ہیں :
-
’’جس مرض میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا وصال ہوا اس مرض میں، میں ہی ان کی تیمار داری کیا کرتی تھی ایک دن میں نے ان کو بڑی ہی شاندار اور بہترین حالت میں پایا، اس دن حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے کسی کام کے لئے باہر چلے گئے تھے، حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا نے مجھے فرمایا :

امی جان! میرے لئے غسل کا پانی تیار کردیں، چنانچہ ان کی خواہش اور ہدایت کے مطابق میں نے غسل کا پانی تیار کردیا۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے غسل فرمایا : پھر مجھے حکم دیا، اے امی جان! میرے نئے کپڑے مجھے دے دیں۔ میں نے حکم کے مطابق نئے کپڑے دے دیئے، انہوں نے زیب تن فرمالئے۔

پھر حکم دیا : امی جان! میرا بستر گھر کے درمیان کردیں۔ میں نے تعمیل کی۔ آپ رضی اللہ عنہا لیٹ گئیں اور رخ مبارک قبلہ کی طرف پھیر لیا اور اپنا ہاتھ مبارک رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیا۔ پھر فرمایا :

اے امی جان! میں اب اس دنیا سے رخصت ہورہی ہوں، میں نے غسل آخرت کرلیا ہے اس لئے مجھے کوئی نہ کھولے چنانچہ اسی جگہ آپ کی روح مبارک پرواز کرگئی۔ جب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان کو ساری تفصیل بتا دی‘‘۔

حضرت سیدہ خاتون جنت نے شاداں، فرحاں، عالم وجد و شوق میں ہنستے مسکراتے جان شیریں، جان آفرین کے سپرد کی۔ کیونکہ پتہ تھا محبوب ابا جان نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جارہی ہیں، اس لئے موت انہیں محبوب اور بے حد عزیز تھی۔
-
(صحيح بخاری، حديث نمبر : 3511)
(اللؤ لؤ والمرجان، حديث نمبر : 1593)
 
Top