طارق شاہ
محفلین
غزل
شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو !
یُوں بِھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو
چُپ ہُوں، کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا
مانگوں دُعا جو میرے خُدا کو خبر نہ ہو
کر شوق سے شِکایتِ محرُومئ وَفا
لیکن مِرے غرُورِ وَفا کو خبر نہ ہو
اِک رَوز اِس طرح بھی مِرے بازوؤں میں آ
میرے ادب کو، تیری حیا کو خبر نہ ہو
ایسی بھی کیا بُلندیِ معیارِ فصلِ گُل
یُوں گُل کِھلیں، کہ مَوجِ صَبا کو خبر نہ ہو
آزادیِ خطا بھی توہے آدمی کی شان
بھٹکوُں تو میرے راہنما کو خبر نہ ہو
نذرانۂ حیات سلیقے سے کر قبُول
اے موت! میرے ذَوقِ بَقا کو خبر نہ ہو
احمد ندیؔم قاسمی