طارق شاہ
محفلین
غزل
شان الحق حقیؔ
اے دِل! تِرے خیال کی دنیا کہاں سے لائیں
اِن وحشتوں کے واسطے صحرا کہاں سے لائیں
حسرت تو ہے یہی کہ ہو دُنیا سے دِل کو مَیل
ہو جس سے دِل کو مَیل وہ دُنیا کہاں سے لائیں
رَوشن تھے جو کبھی وہ نظارے کِدھر گئے
برپا تھا جو کبھی وہ تماشا کہاں سے لائیں
کیا اُس نگاہِ حوصلہ افزا کو دیں جواب
گُم کر دِیا جسے وہ تمنّا کہاں سے لائیں
ہے لطُفِ دوست حرفِ تقاضا کا مُنتظر
اے بے بسی! مجالِ تقاضا کہاں سے لائیں
حقیؔ بُہت سے کارِ جنُوں دشتِ زیست میں
آسودگانِ راہ وہ سودا کہاں سے لائیں
شان الحق حقیؔ
2005 -- 1917
--0--
شان الحق حقیؔ
اے دِل! تِرے خیال کی دنیا کہاں سے لائیں
اِن وحشتوں کے واسطے صحرا کہاں سے لائیں
حسرت تو ہے یہی کہ ہو دُنیا سے دِل کو مَیل
ہو جس سے دِل کو مَیل وہ دُنیا کہاں سے لائیں
رَوشن تھے جو کبھی وہ نظارے کِدھر گئے
برپا تھا جو کبھی وہ تماشا کہاں سے لائیں
کیا اُس نگاہِ حوصلہ افزا کو دیں جواب
گُم کر دِیا جسے وہ تمنّا کہاں سے لائیں
ہے لطُفِ دوست حرفِ تقاضا کا مُنتظر
اے بے بسی! مجالِ تقاضا کہاں سے لائیں
حقیؔ بُہت سے کارِ جنُوں دشتِ زیست میں
آسودگانِ راہ وہ سودا کہاں سے لائیں
شان الحق حقیؔ
2005 -- 1917
--0--