گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ریختہ صفحہ 101
انھوں نے نواب کو آمادہ کر کے اسے بلایا ہو۔
اماں: اور رات کو وہ آئے بھی تو نہیں۔ (پھر استاد جی سے) جانا خانصاحب ذرا نواب کے پاس اور کہنا کہ تمہیں کھڑے کھڑے ان کی اماں نے بلایا ہے، ایسا ہی ضروری کام ہے، مگر خبردار ایک حرف نہ بتانا۔
اماں نے میری تسلی و تشفی کی اور کہا کہ " نواب کو ایسے آڑے ہاتھوں لوں گی کہ یاد رکھے گا، ابھی پرسوں کی بات ہے کہ جوہری کے لڑکے نے تین سو روپے اور فرمائشوں کا پیغام بھیجا تھا" میں چپکی تو ہو رہی، مگر اس کا کھٹکا ضرور تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ اپنے غصّہ میں مجھے نواب سے بالکل جدا کر دیں۔ میں نے چاہا بھی کہ ابھی وہ اس معاملہ میں دخل نہ دیں مگر وہ کب مانتی تھیں۔ اُلٹی مجھ پر بگڑنے لگیں اور اسی بدمزگی کی حالت میں مرزا صاحب بھی رخصت ہوئے۔
اماں اور نواب کی دو دو چونچیں
نواب صاحب: سرکار کہاں ہیں۔ خیر صلاح تو ہے، اس وقت مجھے کیوں یاد کیا۔؟
اماں؟ (اماں دالان میں آ کر بڑی برہمی کی آواز سے) نواب صاحب میں نے آپ کو اس وجہ سے تکلیف دی ہے کہ اب ہم آپ کے لائق نہیں رہے، آپ کی اجازت ہو جائے تو اس شہر سے کالا منہ کریں۔
نواب صاحب: بات تو کہو ہوا کیا؟ اور ننھی جان کہاں ہیں؟
اماں: اندر سر لپیٹے پڑی ہے۔ اسی مردار نے تو یہ ڈھیلی ڈوری چھوڑی تھی، اب آپ بھگتے گی۔ ہم تو یہاں کل کھڑے پانی بھی نہ پئیں گے۔ ۔۔۔۔۔ (گالی دے کر) سے بھنیلا کیا تھا اور اس سے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے ملوایا، ابھی تو کیا ہے، آگے آگے اور سر پر ہاتھ دھر کر روئے گی۔
ریختہ صفحہ 102
گالیوں اور لعنت ملامت کی اس بوچھاڑ سے ادھر تو میں سہم گئی ادھر نواب ششدر رہ گئے وہ اب بھی نہ سمجھے اور سادگی سے پوچھنے لگے۔
نواب: سرکار خدا کے واسطے اس قدر اپنی زبان کیوں خراب کرتی ہو، مجھے بتاؤ تو کیا ہوا ہے۔
اماں: نواب صاحب اصل یہ ہے کہ ہم میں ان باتوں کی تاب نہیں ہے۔ بھلا رات کو خورشید آپ کے ہاں کیوں آئی تھی؟
نواب اول تو سٹپٹائے، پھر لڑکھڑاتی ہوئی آواز اور رُکتی ہوئی زبان سے کہا
نواب: پھر اس میں میرا کیا قصور ہے، کسی دوست کی خاطر کرنی بھی گناہ ہے؟
اماں: اگر ہم بھی اسی طرح لوگوں کی خاطر کرتے، تو آج ہمیں بھی یوں پچھتانا نہ پڑتا۔ اور وہ آپ کے کون سے دوست ہیں جن کی خاطر یہ گلچھرے اڑے۔ اللہ و غنی۔ ہم تو صرف آپ کے سبب ننھی کو ڈپٹی صاحب سے نہ ملنے دیا۔۔۔۔ جوہری کے لڑکے سے اپنے ہزاروں روپے کا نقصان گوارہ کیا، اور آپ کو لوگوں کی یہ خاطر منظور تھی کہ اس مالزادی کو بلایا، اور مجرا سُنا۔ خبر نہیں کیا کیا ہوا اور یہ خطا وار یونہی رہ گئی۔ بس نواب صاحب آپ کی ہماری نبھ چکی۔
سرکار میں ایمان سے کہتا ہوں بالکل مجبور ہو گیا تھا، رات کو میر صاحب ان تھانہ دار کو یہیں لے آئےجو خورشید کو چاہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے ایسا دبایا کہ اسے بلانا ہی پڑا۔
بھلا نواب صاحب آپ خدا نخواستہ ان کے نوکر نہیں، ۔۔۔۔۔ نہیں۔ پھر تو انھوں نےیہ تو منع نہ کر دیا ہو گا کہ ننھی کو نہ بلانا۔
جوں ہی اماں کا یہ فقرہ میرے کان میں پہنچا، مجھ سے ضبط نہ ہو سکا چیخیں مار کر
ریختہ صفحہ 103
رونے لگی۔ اماں، نواب صاحب، استاد جی غرض سب لوگ وہیں آ گئے جہاں میں تھی۔ نواب نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور قسمیں کھائیں کہ اب پھر کبھی ایسا نہ ہو گا۔ اور اپنی قیمتی ہیرے کی انگوٹھی میری انگلی میں پہنائی کہ لو گہنا گاڑی لے لو۔ اماں تو اس سے ملائم ہو گئیں۔ مگر میں نے اتنا اور کہا کہ آپ میر صاحب کو کبھی اپنے ہاں نہ گھسنے دیجئیے گا، انھوں نے یہ بھی مان لیا اور قرآن درمیان ہو کر ملاپ ہو گیا۔
جب اماں اور لوگ اٹھ کر چلے گئے تو نواب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ تمہاری اماں کن ڈپٹی صاحب کو کہتی تھیں کہ ہم نے آپ کی خاطر اسے ان سے ملنے نہ دیا۔ کہیں ہمارے وہی دوست تو نہیں۔ کیا تم سے بھی رجوع کی تھی؟ آج کل درگیا کے ساتھ امرتسر میں چین اڑاتے ہیں۔ اب مجھے کاٹو تو بدن میں خون نہیں، دم بخود ہو گئی۔ کہتی تو کیا کہتی، آخر یہ سمجھ میں آئی کہ انھیں فریب سے ٹالو، مڑک کر بولی، توبہ آپ میرے سر کیوں ہوتے ہیں۔ جنھوں نے کہا ہے انھیں سے پوچھو۔ انھیں بلاؤں۔ نواب بیچارے میرے خفا ہونے سے ڈر گئے۔ اور کہا خدا کے واسطے انھیں نہ بلاؤ۔ اچھا جانے دو۔ میں اس سے در گذرا۔ اس شکر رنجی کے بعد نواب مجھ سے بہت زیادہ محبت سے ملنے لگے۔ میر صاحب نے ہمارے ہاں آنا تو چھوڑ ہی دیا تھا۔ نواب کے ہاں سے بھی ان کی جڑ کٹ گئی۔ اور پھر سنا کہ وہ دہلی سے گئے۔ مرزا صاحب آٹھویں دسویں ہو جاتے تھے۔اور ڈپٹی صاحب کا تھوڑا بہت حال سنا جاتے تھے۔ ان کی آمدورفت کا حال ہمارے نواب صاحب کو بھی معلوم تھا۔ مگر وہ انھیں اچھی طرح جانتے تھے اور کبھی اعتراض نہ کرتے تھے۔
اور کئی برس کا مختصر حال
اب تک جو کچھ فن و فریب نواب یا کسی اور کے ساتھ ہوتا تھا، وہ اماں کی طرف
ریختہ صفحہ 104
ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کے بعد میرا دل بھی باوجود ایسی گہری محبت کے کچھ ایسا ہو گیا کہ یہ سمجھنے لگی کہ جو کچھ نواب سے مل جائے وہ اپنا ہے۔ میر صاحب کے برتاؤ نے مجھے بدظن کر دیا کہ میرا دل کسی کے ساتھ سچائی سے ملنے کو نہ چاہتا تھا۔ نواب کے برتاؤ میں حالانکہ وہ بہت محبت کا تھا ٌپھر بھی ایک بات ایسی تھی کہ خورشید کا دھڑکا میرے دل پر سے کبھی نہ ہٹتا تھا اور یہی معلوم ہوتا رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے چھوڑ کر خورشید سے تعلق پیدا کر لیں گے۔ اس نے ( خورشید نے) ہمارے ہاں آنا تو چھوڑ ہی دیا تھا مگر کہیں اتفاق سے برات مجرا میں ملتی تھی تو مجھے اس کی صورت زہر لگتی تھی۔ ڈپٹی صاحب کا خیال کرتی تھی تو بڑا تعجب آتا تھا کہ عین ان دنوں میں وہ دُرگیا پر اس قدر مائل تھے اور جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ امرتسر چلی گئی۔ میرے حال پر انھوں نے اس طرح ٹوٹ کر عنایت کی۔ ان سب باتوں نے مجھے اچھی طرح یقین دلا دیا کہ مردوں کو سچی محبت نہیں ہوتی۔ اور جو کسبیاں اپنے ملنے والوں سے سچی محبت سے ملتی ہوں گی، وہ ضرور نقصان اٹھاتی ہوں گی۔ رفتہ رفتہ میرا یقین اس بات پر بالکل جم گیا اور میں نے گویا اس قماش کی ایک نئی زندگی شروع کی کہ جو لوگ میرے مکان پر آتے تھے، ان سے بالکل جھوٹ اور بے اصل کی باتیں کرتی تھی، دل سے بنا بنا کر ایسے فقرے کہتی تھی کہ جن سے ان کا دل لوٹ پوٹ ہو جائے۔فرمائش کرنے کی ہزاروں تدبیریں سوچا کرتی تھی۔ اور جوں جوں مجھے ان باتوں میں کامیابی ہوتی تھی میرا دل بڑھتا تھا اور نئی نئی تدبیریں سوجھتی تھیں۔ برس ڈیڑھ برس میں سب باتوں میں مشاق ہو گئی۔ ایک کمال میں نے یہ حاصل کر لیا کہ جتنے آدمی ہنسنے بولنے اٹھنے بیٹھنے یا گانا وانا سننے میرے پاس آتے تھے، ان سب سے جدا جدا میں ایسی ترکیب ڈال لیتی تھی کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مجھ سے ہی محبت ہے اور میں اس کا رازدار ہوں۔ ٹوٹا
ریختہ صفحہ105
پھوٹا لکھنا پڑھنا تو آتا ہی تھا، خط پرچے بھی ضرورت اور موقع کے وقت چلتے تھے لیکن پہلی شرط یہ ہوتی تھی کہ کبھی کسی سے ذکر نہ کیجئے گا، میری فرمائشیں ایسی چوری چھپے پوری ہوتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ اسی عرصہ میں مرزا صاحب کے توسل سے میری خط و کتابت ڈپٹی صاحب سے شروع ہو گئی۔ ایک چال دے کر میں نے ان سے پچاس ساٹھ روپے کی چیزیں منگوا لیں اور وہ دہلی آئے تو پھر میں ان سے مل لی۔ مگر نواب صاحب کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ عین جس بات کا مجھے اتنا رنج ہوا تھا اب اس کا فخر بلکہ غرور ہو گیا۔ اصل یہ ہے کہ نواب کی طرف سے خورشید کا کھٹکا لگ جانے کے بعد سے مجھے نواب کی وہ دلی پابندی نہ رہی تھی۔ ڈپٹی صاحب کا قصّہ اس طرح پر ہے کہ میرے ان خطوں میں چھیڑ چھاڑ تو جاری تھی ہی۔ وہ مجھے نواب کی نسبت اور میں انھیں درگیا کی نسبت فقرے لکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ ان کا خط آیا کہ میں ہفتہ عشرہ میں دو دن کے لئے تنہا دہلی آنے والا ہوں، دُرگیا یہیں رہے گی۔ اگر ممکن ہو تو ملاقات کر لینا۔ اب تک اکثر اوقات میں انھیں مرزا صاحب سے ہی خط لکھوا کر بھیجتی تھی مگر اس کا جواب میں نے خود لکھا اور سب چھیڑ چھاڑ چھوڑ کر صاف صاف لکھا کہ " مجھے وہاں سے فلاں فلاں چیزوں کی ضرورت ہے آپ ضرور لیتے آئیے گا، اور دہلی میں رات کی گاڑی سے اترئیے گا اور وہ بھی ذرا نا وقت ہو۔ اتنے اشارے میں وہ سمجھ گئے اور مجھے جواب دیا کہ میں فلاں روز فلاں وقت اور سیدھا تمہارے ہی گھر آؤں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ نواب سے مجرے کا بہانہ کر کے چھٹی لے لی تھی۔ ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی۔ میرے ان ہتھکنڈوں سے اماں بھی خوش رہنے لگیں۔ اور استاد جی بھی جب کبھی میرا ذکر کرتے تو بڑی خوشی سے کہتے تھے کہ ما شا اللہ ننھی جان کو سمجھ آ گئی ہے۔ سوائے مرزا صاحب کی جن کی واقعی میں پاک منشی کے سبب ذرا عزت کرتی تھی اور کسی کو میں نے بے فرمائش کے نہ چھوڑا
انھوں نے نواب کو آمادہ کر کے اسے بلایا ہو۔
اماں: اور رات کو وہ آئے بھی تو نہیں۔ (پھر استاد جی سے) جانا خانصاحب ذرا نواب کے پاس اور کہنا کہ تمہیں کھڑے کھڑے ان کی اماں نے بلایا ہے، ایسا ہی ضروری کام ہے، مگر خبردار ایک حرف نہ بتانا۔
اماں نے میری تسلی و تشفی کی اور کہا کہ " نواب کو ایسے آڑے ہاتھوں لوں گی کہ یاد رکھے گا، ابھی پرسوں کی بات ہے کہ جوہری کے لڑکے نے تین سو روپے اور فرمائشوں کا پیغام بھیجا تھا" میں چپکی تو ہو رہی، مگر اس کا کھٹکا ضرور تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ اپنے غصّہ میں مجھے نواب سے بالکل جدا کر دیں۔ میں نے چاہا بھی کہ ابھی وہ اس معاملہ میں دخل نہ دیں مگر وہ کب مانتی تھیں۔ اُلٹی مجھ پر بگڑنے لگیں اور اسی بدمزگی کی حالت میں مرزا صاحب بھی رخصت ہوئے۔
اماں اور نواب کی دو دو چونچیں
نواب صاحب: سرکار کہاں ہیں۔ خیر صلاح تو ہے، اس وقت مجھے کیوں یاد کیا۔؟
اماں؟ (اماں دالان میں آ کر بڑی برہمی کی آواز سے) نواب صاحب میں نے آپ کو اس وجہ سے تکلیف دی ہے کہ اب ہم آپ کے لائق نہیں رہے، آپ کی اجازت ہو جائے تو اس شہر سے کالا منہ کریں۔
نواب صاحب: بات تو کہو ہوا کیا؟ اور ننھی جان کہاں ہیں؟
اماں: اندر سر لپیٹے پڑی ہے۔ اسی مردار نے تو یہ ڈھیلی ڈوری چھوڑی تھی، اب آپ بھگتے گی۔ ہم تو یہاں کل کھڑے پانی بھی نہ پئیں گے۔ ۔۔۔۔۔ (گالی دے کر) سے بھنیلا کیا تھا اور اس سے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے ملوایا، ابھی تو کیا ہے، آگے آگے اور سر پر ہاتھ دھر کر روئے گی۔
ریختہ صفحہ 102
گالیوں اور لعنت ملامت کی اس بوچھاڑ سے ادھر تو میں سہم گئی ادھر نواب ششدر رہ گئے وہ اب بھی نہ سمجھے اور سادگی سے پوچھنے لگے۔
نواب: سرکار خدا کے واسطے اس قدر اپنی زبان کیوں خراب کرتی ہو، مجھے بتاؤ تو کیا ہوا ہے۔
اماں: نواب صاحب اصل یہ ہے کہ ہم میں ان باتوں کی تاب نہیں ہے۔ بھلا رات کو خورشید آپ کے ہاں کیوں آئی تھی؟
نواب اول تو سٹپٹائے، پھر لڑکھڑاتی ہوئی آواز اور رُکتی ہوئی زبان سے کہا
نواب: پھر اس میں میرا کیا قصور ہے، کسی دوست کی خاطر کرنی بھی گناہ ہے؟
اماں: اگر ہم بھی اسی طرح لوگوں کی خاطر کرتے، تو آج ہمیں بھی یوں پچھتانا نہ پڑتا۔ اور وہ آپ کے کون سے دوست ہیں جن کی خاطر یہ گلچھرے اڑے۔ اللہ و غنی۔ ہم تو صرف آپ کے سبب ننھی کو ڈپٹی صاحب سے نہ ملنے دیا۔۔۔۔ جوہری کے لڑکے سے اپنے ہزاروں روپے کا نقصان گوارہ کیا، اور آپ کو لوگوں کی یہ خاطر منظور تھی کہ اس مالزادی کو بلایا، اور مجرا سُنا۔ خبر نہیں کیا کیا ہوا اور یہ خطا وار یونہی رہ گئی۔ بس نواب صاحب آپ کی ہماری نبھ چکی۔
سرکار میں ایمان سے کہتا ہوں بالکل مجبور ہو گیا تھا، رات کو میر صاحب ان تھانہ دار کو یہیں لے آئےجو خورشید کو چاہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے ایسا دبایا کہ اسے بلانا ہی پڑا۔
بھلا نواب صاحب آپ خدا نخواستہ ان کے نوکر نہیں، ۔۔۔۔۔ نہیں۔ پھر تو انھوں نےیہ تو منع نہ کر دیا ہو گا کہ ننھی کو نہ بلانا۔
جوں ہی اماں کا یہ فقرہ میرے کان میں پہنچا، مجھ سے ضبط نہ ہو سکا چیخیں مار کر
ریختہ صفحہ 103
رونے لگی۔ اماں، نواب صاحب، استاد جی غرض سب لوگ وہیں آ گئے جہاں میں تھی۔ نواب نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور قسمیں کھائیں کہ اب پھر کبھی ایسا نہ ہو گا۔ اور اپنی قیمتی ہیرے کی انگوٹھی میری انگلی میں پہنائی کہ لو گہنا گاڑی لے لو۔ اماں تو اس سے ملائم ہو گئیں۔ مگر میں نے اتنا اور کہا کہ آپ میر صاحب کو کبھی اپنے ہاں نہ گھسنے دیجئیے گا، انھوں نے یہ بھی مان لیا اور قرآن درمیان ہو کر ملاپ ہو گیا۔
جب اماں اور لوگ اٹھ کر چلے گئے تو نواب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ تمہاری اماں کن ڈپٹی صاحب کو کہتی تھیں کہ ہم نے آپ کی خاطر اسے ان سے ملنے نہ دیا۔ کہیں ہمارے وہی دوست تو نہیں۔ کیا تم سے بھی رجوع کی تھی؟ آج کل درگیا کے ساتھ امرتسر میں چین اڑاتے ہیں۔ اب مجھے کاٹو تو بدن میں خون نہیں، دم بخود ہو گئی۔ کہتی تو کیا کہتی، آخر یہ سمجھ میں آئی کہ انھیں فریب سے ٹالو، مڑک کر بولی، توبہ آپ میرے سر کیوں ہوتے ہیں۔ جنھوں نے کہا ہے انھیں سے پوچھو۔ انھیں بلاؤں۔ نواب بیچارے میرے خفا ہونے سے ڈر گئے۔ اور کہا خدا کے واسطے انھیں نہ بلاؤ۔ اچھا جانے دو۔ میں اس سے در گذرا۔ اس شکر رنجی کے بعد نواب مجھ سے بہت زیادہ محبت سے ملنے لگے۔ میر صاحب نے ہمارے ہاں آنا تو چھوڑ ہی دیا تھا۔ نواب کے ہاں سے بھی ان کی جڑ کٹ گئی۔ اور پھر سنا کہ وہ دہلی سے گئے۔ مرزا صاحب آٹھویں دسویں ہو جاتے تھے۔اور ڈپٹی صاحب کا تھوڑا بہت حال سنا جاتے تھے۔ ان کی آمدورفت کا حال ہمارے نواب صاحب کو بھی معلوم تھا۔ مگر وہ انھیں اچھی طرح جانتے تھے اور کبھی اعتراض نہ کرتے تھے۔
اور کئی برس کا مختصر حال
اب تک جو کچھ فن و فریب نواب یا کسی اور کے ساتھ ہوتا تھا، وہ اماں کی طرف
ریختہ صفحہ 104
ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کے بعد میرا دل بھی باوجود ایسی گہری محبت کے کچھ ایسا ہو گیا کہ یہ سمجھنے لگی کہ جو کچھ نواب سے مل جائے وہ اپنا ہے۔ میر صاحب کے برتاؤ نے مجھے بدظن کر دیا کہ میرا دل کسی کے ساتھ سچائی سے ملنے کو نہ چاہتا تھا۔ نواب کے برتاؤ میں حالانکہ وہ بہت محبت کا تھا ٌپھر بھی ایک بات ایسی تھی کہ خورشید کا دھڑکا میرے دل پر سے کبھی نہ ہٹتا تھا اور یہی معلوم ہوتا رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے چھوڑ کر خورشید سے تعلق پیدا کر لیں گے۔ اس نے ( خورشید نے) ہمارے ہاں آنا تو چھوڑ ہی دیا تھا مگر کہیں اتفاق سے برات مجرا میں ملتی تھی تو مجھے اس کی صورت زہر لگتی تھی۔ ڈپٹی صاحب کا خیال کرتی تھی تو بڑا تعجب آتا تھا کہ عین ان دنوں میں وہ دُرگیا پر اس قدر مائل تھے اور جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ امرتسر چلی گئی۔ میرے حال پر انھوں نے اس طرح ٹوٹ کر عنایت کی۔ ان سب باتوں نے مجھے اچھی طرح یقین دلا دیا کہ مردوں کو سچی محبت نہیں ہوتی۔ اور جو کسبیاں اپنے ملنے والوں سے سچی محبت سے ملتی ہوں گی، وہ ضرور نقصان اٹھاتی ہوں گی۔ رفتہ رفتہ میرا یقین اس بات پر بالکل جم گیا اور میں نے گویا اس قماش کی ایک نئی زندگی شروع کی کہ جو لوگ میرے مکان پر آتے تھے، ان سے بالکل جھوٹ اور بے اصل کی باتیں کرتی تھی، دل سے بنا بنا کر ایسے فقرے کہتی تھی کہ جن سے ان کا دل لوٹ پوٹ ہو جائے۔فرمائش کرنے کی ہزاروں تدبیریں سوچا کرتی تھی۔ اور جوں جوں مجھے ان باتوں میں کامیابی ہوتی تھی میرا دل بڑھتا تھا اور نئی نئی تدبیریں سوجھتی تھیں۔ برس ڈیڑھ برس میں سب باتوں میں مشاق ہو گئی۔ ایک کمال میں نے یہ حاصل کر لیا کہ جتنے آدمی ہنسنے بولنے اٹھنے بیٹھنے یا گانا وانا سننے میرے پاس آتے تھے، ان سب سے جدا جدا میں ایسی ترکیب ڈال لیتی تھی کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مجھ سے ہی محبت ہے اور میں اس کا رازدار ہوں۔ ٹوٹا
ریختہ صفحہ105
پھوٹا لکھنا پڑھنا تو آتا ہی تھا، خط پرچے بھی ضرورت اور موقع کے وقت چلتے تھے لیکن پہلی شرط یہ ہوتی تھی کہ کبھی کسی سے ذکر نہ کیجئے گا، میری فرمائشیں ایسی چوری چھپے پوری ہوتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ اسی عرصہ میں مرزا صاحب کے توسل سے میری خط و کتابت ڈپٹی صاحب سے شروع ہو گئی۔ ایک چال دے کر میں نے ان سے پچاس ساٹھ روپے کی چیزیں منگوا لیں اور وہ دہلی آئے تو پھر میں ان سے مل لی۔ مگر نواب صاحب کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ عین جس بات کا مجھے اتنا رنج ہوا تھا اب اس کا فخر بلکہ غرور ہو گیا۔ اصل یہ ہے کہ نواب کی طرف سے خورشید کا کھٹکا لگ جانے کے بعد سے مجھے نواب کی وہ دلی پابندی نہ رہی تھی۔ ڈپٹی صاحب کا قصّہ اس طرح پر ہے کہ میرے ان خطوں میں چھیڑ چھاڑ تو جاری تھی ہی۔ وہ مجھے نواب کی نسبت اور میں انھیں درگیا کی نسبت فقرے لکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ ان کا خط آیا کہ میں ہفتہ عشرہ میں دو دن کے لئے تنہا دہلی آنے والا ہوں، دُرگیا یہیں رہے گی۔ اگر ممکن ہو تو ملاقات کر لینا۔ اب تک اکثر اوقات میں انھیں مرزا صاحب سے ہی خط لکھوا کر بھیجتی تھی مگر اس کا جواب میں نے خود لکھا اور سب چھیڑ چھاڑ چھوڑ کر صاف صاف لکھا کہ " مجھے وہاں سے فلاں فلاں چیزوں کی ضرورت ہے آپ ضرور لیتے آئیے گا، اور دہلی میں رات کی گاڑی سے اترئیے گا اور وہ بھی ذرا نا وقت ہو۔ اتنے اشارے میں وہ سمجھ گئے اور مجھے جواب دیا کہ میں فلاں روز فلاں وقت اور سیدھا تمہارے ہی گھر آؤں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ نواب سے مجرے کا بہانہ کر کے چھٹی لے لی تھی۔ ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی۔ میرے ان ہتھکنڈوں سے اماں بھی خوش رہنے لگیں۔ اور استاد جی بھی جب کبھی میرا ذکر کرتے تو بڑی خوشی سے کہتے تھے کہ ما شا اللہ ننھی جان کو سمجھ آ گئی ہے۔ سوائے مرزا صاحب کی جن کی واقعی میں پاک منشی کے سبب ذرا عزت کرتی تھی اور کسی کو میں نے بے فرمائش کے نہ چھوڑا