حسان خان
لائبریرین
میر انیس کا یہ بند دیکھیے، جس میں وہ عون و محمد کی سِتائش کر رہے ہیں، اور پھر اِس کے مصرعِ سوم پر توجُّہ مرکوز کیجیے:
اللہ اللہ اسدِ حق کے نواسوں کا جلال
چاند سے چہروں پہ بل کھائے ہوئے زُلفوں کے بال
نیمچے کاندھوں پہ رکّھے ہوئے، مانندِ ہلال
گرچہ بچپن تھا، پہ رُستم کو سمجھتے تھے وہ زال
صف سے گھوڑوں کو بڑھا کر جو پلٹ جاتے تھے
مورچے لشکرِ کُفّار کے ہٹ جاتے تھے
(میر انیس)
شاہنامۂ فردوسی کے عظیم تہرین پہلوان و قہرَمان رُستم کے پدر کا نام 'زال' تھا۔ فارسی میں زال اُس شخص کو کہتے ہیں جس کے چہرے اور سر پر بال سفید ہوں، یا پھر یہ کسی شخصِ پِیر کے لیے استعمال ہوتا تھا (خصوصاً پِیرزَنوں کے لیے)۔ شاعری میں چونکہ دُنیا کو ایک زنِ پِیر کے طور پر تصوُّر کیا جاتا ہے، اِس لیے اُس کو بھی کئی بار 'زال' کہہ کر پُکارا گیا ہے۔ رُستم کے پدر کا نام 'زال' اِس لیے رکھا گیا تھا، کیونکہ جب وہ دنیا میں آیا تھا تو اُس کے جسم کے سارے بال سفید تھے۔ (لیکن صرف اُس کے بال سفید تھے، ورنہ وہ خود بھی جوانی میں ایک تنومند پہلوان تھا۔)
میر انیس اُس مصرعے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بچّے اگرچہ ہنوز اپنی کُودکی و طِفلی کے زمانے میں تھے، لیکن اُن کی دلیری و شجاعت کا عالَم یہ تھا کہ وہ رُستم جیسے قوی تن جنگجو کو بھی ایک پِیرمَرد سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔
× قہرَمان = ہِیرو
× پِیر = بوڑھا/بوڑھی
× پِیرمَرد = بوڑھا، بوڑھا مرد
× پِیرزَن = بوڑھی، بوڑھی عورت
چونکہ 'رُستم' اور 'زال' کے درمیان ایک نسبت ہے، لہٰذا مختلف شاعروں نے 'صنعتِ تناسُب' کا استعمال کرتے ہوئے کئی جگہوں پر دونوں کو ایک ہی بیت میں استعمال کیا ہے۔ اردو شاعری سے دو مثالیں دیکھیے:
زالِ دُنیا کو جن نے چھوڑ دیا
وہی نزدیک اپنے رُستم ہے
(میر تقی میر)
ضعیف و قوی دونوں رہتے نہیں
نہ یاں زال ٹھہرا نہ رُستم رہا
(میر تقی میر)
مندرجۂ بالا ابیات اِس حقیقت کی بھی تائید کرتی ہیں، کہ کلاسیکی اُردو شُعَراء شاہنامۂ فردوسی کا مطالعہ کرتے تھے اور اُس کی داستانوں سے بخوبی واقف تھے۔
اللہ اللہ اسدِ حق کے نواسوں کا جلال
چاند سے چہروں پہ بل کھائے ہوئے زُلفوں کے بال
نیمچے کاندھوں پہ رکّھے ہوئے، مانندِ ہلال
گرچہ بچپن تھا، پہ رُستم کو سمجھتے تھے وہ زال
صف سے گھوڑوں کو بڑھا کر جو پلٹ جاتے تھے
مورچے لشکرِ کُفّار کے ہٹ جاتے تھے
(میر انیس)
شاہنامۂ فردوسی کے عظیم تہرین پہلوان و قہرَمان رُستم کے پدر کا نام 'زال' تھا۔ فارسی میں زال اُس شخص کو کہتے ہیں جس کے چہرے اور سر پر بال سفید ہوں، یا پھر یہ کسی شخصِ پِیر کے لیے استعمال ہوتا تھا (خصوصاً پِیرزَنوں کے لیے)۔ شاعری میں چونکہ دُنیا کو ایک زنِ پِیر کے طور پر تصوُّر کیا جاتا ہے، اِس لیے اُس کو بھی کئی بار 'زال' کہہ کر پُکارا گیا ہے۔ رُستم کے پدر کا نام 'زال' اِس لیے رکھا گیا تھا، کیونکہ جب وہ دنیا میں آیا تھا تو اُس کے جسم کے سارے بال سفید تھے۔ (لیکن صرف اُس کے بال سفید تھے، ورنہ وہ خود بھی جوانی میں ایک تنومند پہلوان تھا۔)
میر انیس اُس مصرعے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بچّے اگرچہ ہنوز اپنی کُودکی و طِفلی کے زمانے میں تھے، لیکن اُن کی دلیری و شجاعت کا عالَم یہ تھا کہ وہ رُستم جیسے قوی تن جنگجو کو بھی ایک پِیرمَرد سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔
× قہرَمان = ہِیرو
× پِیر = بوڑھا/بوڑھی
× پِیرمَرد = بوڑھا، بوڑھا مرد
× پِیرزَن = بوڑھی، بوڑھی عورت
چونکہ 'رُستم' اور 'زال' کے درمیان ایک نسبت ہے، لہٰذا مختلف شاعروں نے 'صنعتِ تناسُب' کا استعمال کرتے ہوئے کئی جگہوں پر دونوں کو ایک ہی بیت میں استعمال کیا ہے۔ اردو شاعری سے دو مثالیں دیکھیے:
زالِ دُنیا کو جن نے چھوڑ دیا
وہی نزدیک اپنے رُستم ہے
(میر تقی میر)
ضعیف و قوی دونوں رہتے نہیں
نہ یاں زال ٹھہرا نہ رُستم رہا
(میر تقی میر)
مندرجۂ بالا ابیات اِس حقیقت کی بھی تائید کرتی ہیں، کہ کلاسیکی اُردو شُعَراء شاہنامۂ فردوسی کا مطالعہ کرتے تھے اور اُس کی داستانوں سے بخوبی واقف تھے۔
آخری تدوین: