انیس الرحمن
محفلین
شاہی شاعر
میم ندیم
پچھلے زمانے میں جس شاعر کی رسائی شاہی دربار تک ہو جاتی تھی اور بادشاہ سلامت کو اس کا کلام پسند آ جاتا اس شاعر کو شاعرِ اعظم کا خطاب مل جاتا تھا، یعنی وہ درباری شاعر بن جاتا تھا۔ اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی تھیں۔بادشاہ کی شان میں ایک قصیدہ پیش کر دیا، اس پر خلعت عطا کردی گئی، اشرفیوں کی تھیلی ملی اور اس کے علاوہ ماہانہ یا سالانہ معقول رقم الگ۔
ایک شاعر کی رسائی ان کی خوش بختی سے ایک شاہی دربار تک ہوئی اور وہ شاہی شاعر بن گئے۔ اب ان شاعر صاحب کو یہ فکر ہوئی کہ کسی دوسرے شاعر کی دال ان کے سامنے نہیں گلنی چاہیے، ورنہ ہو سکتا ہے کہ کسی دن ان سے شاہی شاعر کا خطاب چھن کر کسی دوسرے شاعر کو مل جائے، کیوں کہ بادشاہوں کا مزاج ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی وقت کسی بھی بات پر خوش ہیں تو دوسرے وقت اسی بات پر ناراض، اور ذرا سی دیر میں بولنے والے کا پتا صاف۔
چنانچہ جب بھی کوئی نیا شاعر بادشاہ کے حضور تازہ کلام پیش کرتا تو شاہی شاعر صاحب فوراً اٹھتے اور کہتے، "جہاں پناہ! گستاخی معاف، یہ شاعر نہ صرف چور ہیں، بلکہ سینہ زور بھی ہیں۔ میرا ہی چرایا ہوا کلام میرے ہی سامنے سناتے ہیں اور میرے سامنے ہی محفل میں داد بٹورتے ہیں۔"
اصل چکّر یہ تھا کہ ان شاعر صاحب کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ جو چیز ایک بار سن لیتے فوراً یاد کر لیتے۔ اب نیا آنے والا شاعر شرم اور غصّے سے ہکا بکا رہ جاتا اور شاہی شاعر ثبوت کے طور پر وہ کلام جیسے کا تیسا محفل میں دہرا دیتے۔
یہی نہیں ان کا غلام بھی اٹھ جاتا، کورنش بجا لاتا اور عرض کرتا، "ظل الہی! میرے آقا سچ فرماتے ہیں، یہ کلام میں نے ان کو بارہا پڑھتے سنا ہے، بلکہ یہ غزل مجھے تو اتنی پسند ہے کہ میں نے اس کو زبانی یاد کر لیا ہے۔ اگر اجازت ہو تو سنا بھی سکتا ہوں۔"
اور وہ غلام فرفر ساری غزل سنا ڈالتا۔ پھر ان کا دوسرا غلام اٹھتا اور وہ بھی اسی قسم کے جملے دہراتا اور غزل آنکھیں بند کر کے سنا ڈالتا۔ بےچارے نے شاعر کو بڑی ذلّت اٹھانی پڑتی اور وہ عزت بچا کر بھاگ نکلتا۔
اسی طرح بہت دنوں تک شاہی شاعر کا کام چلتا رہا، یہاں تک کہ اس کے پاس بادشاہ کی عنایت سے بہت سا مال جمع ہو گیا۔ اب شاہی شاعر نے اعلان کرا دیا کہ جو شاعر بادشاہ کو اپنا تازہ کلام سنائے گا، بادشاہ کو کلام پسند آنے کی صورت میں وہ خود اس کے کلام کو سونے میں تول دیں گے اور بادشاہ سے جو انعام ملے گا سو الگ اور اگر بادشاہ کو کلام پسند نہ آیا یا کلام چوری کا ثابت ہو گیا تو سنانے والے شاعر کا دیوان شاہی شاعر جلوا دیں گے۔ اب کسی شاعر کی ہمّت نہ پڑتی تھی جو اپنا کلام بادشاہ کو سنائے۔
ایک دن ایک شاعر اپنے غلاموں کے سروں پر اپنے کلام کی جلدیں رکھوائے ہوئے آئے۔ دربار میں بادشاہ سلامت تشریف فرما تھے۔ شاعر نے اپنا تعارف کرایا اور اپنا کلام پڑھنے کی اجازت چاہی، جو ان کو فوراً مل گئی۔
شاعر کا کلام بہت دلکش اور بلند تھا۔ شعر سناتے سناتے شاعر خاموش ہو گیا تو بادشاہ نے کہا، "بھئی رک کیوں گئے؟ بہت عمدہ غزل کہی ہے۔ سنائیے۔"
"عالم پناہ! ابھی حکم کی تعمیل کرتا ہوں، ذرا ایک بات کا فیصلہ چاہتا ہوں۔ میں نے صرف آدھی غزل پیش کی ہے۔ اگر کسی کو یہ دعوا ہے کہ یہ چوری کی ہے تو وہ میری غزل کا باقی حصّہ بھی سنا دے، ورنہ بعد میں دعوا جھوٹا ہوگا۔"
یہ سن کر شاہی شاعر بہت سٹ پٹائے۔ بادشاہ سلامت نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور بولے، "میرا خیال ہے یہاں کسی کو اس بات کا دعوا نہیں ہے کہ یہ کلام میرا ہے۔ آپ شوق سے سنائیے۔"
چنانچہ شاعر نے غزل پوری کردی۔ بادشاہ سلامت اور درباریوں نے خوب داد دی۔ مجبوراً شاہی شاعر کو بھی وہ کلام اس شاعر کا ذاتی تسلیم کرنا پڑا اور اس شاعر کے دیوان کو سونے میں تلوانے کی حامی بھرنی پڑی، مگر جب اس نئے آنے والے شاعر نے اپنے دیوان کی پانچ جلدوں پر سے جزدان کو الگ کیا تو شاہی شاعر کو تارے نظر آ گئے۔
وہاں پانچ بھاری بھاری پتھر کی سلیں تھیں۔ جن پر پوری غزل لکھی گئی تھی۔ بادشاہ سلامت کو اس مذاق سے بہت لطف حاصل ہوا۔ اب نئے شاعر نے شاعرِ اعظم کی چالاکی بیان کی کہ ان کا حافظہ بہت اچھا ہے، ایک بار سنے ہوئے کلام کو جوں کا توں دہرا سکتے ہیں۔ ان کے دونوں غلاموں کی صفت یہ ہے کہ ایک تو دو بار سنے ہوئے کلام کو فوراً یاد کر لیتا ہے اور دوسرا تین بار سنے ہوئے کلام کو۔ اسی نسخے سے شاعرِ اعظم کاروبار چلا رہے تھے۔
بادشاہ نے پہلے والے شاعر کو نکال دیا اور نئے شاعر کو شاہی شاعر بنا دیا۔ یہی نہیں پہلے کے شاہی شاعر کو ان پانچ بھاری بھاری سلوں کے برابر سونے بھی دینا پڑا۔ یوں بےچارے شاعرِ اعظم کی ساری کمائی انہی کی شرط کے نذر ہو گئی اور وہ شاعرِ اعظم سے شاعرِ مختصر ہو کر رہ گئے۔
٭٭٭