تاریخی اہمیت:-
لاہور جس کا شمار پاکستان کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے جغرافیائی لحاظ سے 19،00،22 طول بلد اور 31،00،50 عرض بلد پر واقع ہے تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی لحاظ سے ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس کی طویل تاریخ ماضی کے سحر میں گُم ہے اور اس کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں صرف اور صرف روایات اور قیاس ملتے ہیں مگر عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ راجہ رام چندر جی ( 1200ق م ۔ 800ق م ) کے دو بیٹے تھے ایک کا نام “ قصوہ “ تھا جس نے قصور کی بنیاد رکھی اور دوسرے کا نام “ لوہ “ تھا جس نے لاہور بسایا۔ شروع مین اس شہر کا نام “ لہور “ تھا جو آہستہ آہستہ لاہور بن گیا۔ اس تاریخی روایت سے اس کا قدیم ہونا ازخود واضح ہو جاتا ہے۔
لاہور کا ذکر ہمیں کسی بھی قدیم غیر اسلامی کتاب میں نہیں ملتا۔ صرف عہدِاسلامی کی کتاب “ حدود العالم “ میں ملتا ہے جو تقریباً 994ء کی تصنیف ہے اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم میں لاہور ملتان کے ماتحت تھا اور ملتان کا حاکم “ قریشی“ کہلاتا تھا۔ الغرض تاریخ میں لاہور کی موجودگی کا واضح ثبوت سبکتگین اور اس کے بیٹے محمود غزنوی کے حملوں کے دوران ملتا ہے جب اس نے شمالی ہند فتح کیا۔ جس کی نشاندھی محکمہ آثارِ قدیمہ نے بھی 1959ء میں قلعہ لاہور میں جدید خطوط پر کھدائی کرنے کے بعد کی۔ کھدائی سے ملنے والے آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس قلعے کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی لیکن عہدِ غزنوی 976ء سے لیکر ابراہیم لودھی 1526ء تک آنے والی حکومتوں میں لاہور کو ایک نمایاں مقام حاصل رہا۔ اس سلسلے میں سلطان محمود غزنوی نے 1021ء کو لاہور فتح کرنے کے بعد ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا۔ بریصغیر کے پہلے مسلم سلطان قطب الدین ایبک کی تاجپوشی قلعہ لاہور میں ہی ہوئی اور اسی شہر میں وہ چوگان کھیلتا ہوا جان بحق ہوا۔ اس طرح جب تغلق سلطنت زوال کے دھانے پر پہنچی تو شیخا کھوکھر لاہور پر قابض ہوگیا مگر 1421ء میں سید مبارک شاہ نے شیخا کھوکھر کے بیٹے جسرت کھوکھر کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کرلیا۔ اگرچہ اولین مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے ہاتھوں لاہور شہر کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا مگر بعد کے مغل شہنشاہوں نے لاہور کی کافی پزیرائی کی۔
شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دینے کے بعد ہیبت خان نیازی کو حاکم لاہور مقرر کیا جس نے قلعہ لاہور میں رہائش اختیار کی لیکن زیادہ دیر قیام نہ کرسکا اور دوبارہ ہمایوں عنانِ حکومت پر قابض ہوگیا۔ ہمایوں کی اچانک موت پر اس کے بیٹے جلال الدین اکبر کی تاجپوشی کلانور میں ہوئی تو اس وقت اکبر کی عمر 12 سال تھی وہ 1557ء، 1571ء اور 1586ء کو لاہور آئے اور باقاعدہ طور پر پختہ اینٹوں کے ساتھ قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت کی اور لاہور کو دارالسلطنت بنایا۔ اکبر کی وفات کے بعد اسکا بیٹا نورالدین جہانگیر عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد 1606ء میں لاہور آیا اور ایک سال تک قلعہ میں قیام کیا۔ یہاں قیام کے دوران بہت سی عمارات تعمیر کروانے کا حکم صادر فرمایا۔ جہانگیر کے بعد اس کے بیٹے شاہجہاں نے اپنی حکومت کے پہلے ہی سال میں شاہی قلعہ لاہور میں خوبصورت عمارات تعمیر کروانے کا حکم جاری کیا۔ صوبہ دار وزیر خان کے زیرِ انتظام تمام نئی عمارات کی تعمیر مکمل ہوئی اور 1638ء میں شاہجہاں قلعہ میں کچھ عرصے کے لیے قیام پذیر ہوئے۔ شاہجہاں کے بعد اس کا بیٹا اورنگزیب عالمگیر عنان حکومت کا مالک بنا اور 1658ء کو لاہور تشریف لایا اور قلعہ کا جائزہ لیا اور ضروری احکا مات جاری کیے۔ بادشاہی مسجد اور عالمگیری دروازہ انہی احکا مات کی عکاسی کرتے ہیں۔
اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد ان کے جان نشینوں میں باہمی چپقلش اور محاذ آرائی شروع ہوگئی جس کی وجہ سے مختلف فتنوں نے سر اٹھایا اور مغل خاندان کا کوئی بھی حکمران دوبارہ لاہور نہ آسکا تو مختلف علاقوں میں مختلف حکمراں بن گئے۔ پنجاب پر سکھ قابض ہوگئے سکھوں میں راجہ رنجیت سنگھ 1799ء میں لاہور پر قابض ہوا اور ایک بہت بڑا جشن “جشن قلعہ لاہور “ کے نام سے منعقد کروایا اور اسی جگہ پر رہائش پذیر ہوا۔
1839ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا کھڑک سنگھ ایک سال حکومت کرنے کے بعد مر گیا۔ اس کے جانشین بھی سیاسی چپقلش اور انتشار کا شکار ہوگئے اور آپس میں لڑائی جھگڑے شروع کر دیئے جس کی وجہ سے قلعہ کی کئی عمارتوں کو کافی نقصان پہنچا۔ سب سے آخر میں دلیپ سنگھ نے حکومت سنبھالنے کی کوشش کی مگر دوسری طرف رانی جنداں (رنجیت سنگھ کی بیوی ) اور کچھ سکھوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجہ میں انگریز فوج قلعہ پر قابض ہوگئی اور 1849ء کو راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر کے سکھ حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا گیا اور مکمل طور پر لاہور انگریزوں کے کنٹرول میں چلا گیا۔
1849ء سے 1927ء تک شاہی قلعہ انگریز کا مسکن رہا۔ انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق اس میں کافی تبدیلیاں کیں اور مختلف عمارتوں کو گرا کر فوجیوں کی آسانیوں کے لیے گرجا گھر، شراب خانے، دفاتر اور کئی اسلحہ خانے بنائے۔ جس سے تاریخی ورثہ کو کافی نقصان پہنچا۔ بالاخر 1927ء میں محکمہ آثارِقدیمہ نے اس قلعہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کو اصل حالت کے مطابق بنانے کی کوشش شروع کردی۔