محترمہ نور صاحبہ۔ آپ شاید محفل پر کچھ روز قبل ہی آئی ہیں۔ آپ کو خوش آمدید۔ اس سے پہلے آپ کی کسی تخلیق پر تبصرہ نہیں کیا ہے تو آپ کے مزاج سے قطعاً نا واقف ہوں۔ کچھ باتیں لکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ کسی گستاخی کی صورت میں در گزر کیجئے گا۔
جو ناز تھا کبَھی وُہ ہوتا ہے چُور چُور اَب
نفرت مِرا مُقدر چاہوں میں پیار کیسا۔؟
÷÷مطلع غائب ہے یا آپ نے یہاں لکھنا پسند نہیں فرمایا۔ بہر حال۔ زمین یعنی ردیف و قافیہ کا انتخاب اچھا ہے۔
ناز کا چور چور ہو جانا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ ناز کس چیز پر ہے؟ اگر تو پیار پر ناز ہے تو اس شعر کی بندش ایسی ہے کہ مفہوم کے قاری تک انتقال میں خاصی سستی کا سامنا ہے۔ شعر کی بندش مزید اچھی ہوسکتی ہے۔
یہ کاٹ دار آنکھیں پَیکر تراشتی ہیں
ُالفت کی مُعتبر ہیں اِن میں شرار کیسا۔؟
÷÷کاٹ دار آنکھیں خوب کہا۔ لیکن دونوں مصرعوں میں باہمی ربط جاندار نہیں ہے۔ کاٹ دار آنکھیں ہونا، اور شرار نہ ہونا کا تناسب ایسا نہیں کہ مکمل شعر کو جوڑ رکھے۔ الفت کی معتبر ہونا بھی سمجھ نہیں آیا۔ شاید میری ناقص عقلی کا ثبوت ہے۔
اب لگتا راز کوئی فُرقت وفا کی بابت۔۔۔ !
کُہنہ حِساب گر تھا اب ُرخِ یار کیسا !
÷÷روانی انتہائی متاثر ہے۔ پہلا مصرع تو انتہائی کوششوں کے باوجود مبہم ہے کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔ لگتا میں الف کا گرنا ناروا ہے، جبکہ ایسا کوئی اضطرار بھی نہیں۔ کہنہ حساب گر کی ترکیب بھی سمجھنے سے قاصر رہا ہوں۔ رخ میں خ مشدد نہیں ہے۔ بحر میں آپ نے رُخِّ مشدد کردیا ہے۔
جو کعبہ میرا قِبلہ تُوحید میرا ایماں۔۔!
ہیں بُت تِرے بہت سے تو پاس دار کیسا۔۔!
÷÷توحید پر پیش لگانے کی ضرورت نہ تھی کہ یہ مفتوح ہے۔ ت پر زبر کے ساتھ۔ پہلے مصرعے میں لفظ "جو" کا محل میرے حساب سے تو نہیں ہے۔ شاید بحر پوری کرنے کی خاطر ٖڈال دیا گیا ہے۔ شعر بہر حال اچھا ہے۔ پہلا مصرع دوبارہ کہیں۔ کچھ اس طرح بہتر ہوسکتا ہے:
کعبہ ہی میرا قبلہ، تَوحید میرا ایماں
۔۔مزید بہتر ہوسکتا ہے، آپ کوشش فرمائیں۔
میرے خَیال رقصِ بِسمل کی طرح ہوتے۔۔۔ !
دَم مستی جان بر ہوں تودرد خوار کیسا۔۔۔ ؟
÷÷شکستِ ناروا!!!
دوسرے مصرعے میں غالباً آپ نے دم مستی نہیں دمِ مستی کہنا تھا۔ یا میں غلط معانی نکال رہا ہوں۔ شعر درست ہے۔
اے ماہ دل گِرفتہ تو مّہر کے سَبب ہے ۔؟
گَر وَصل روز مّدِ جّز بار بار کیسا۔؟
÷÷ شعر سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کوئی اشارہ ملے تو کچھ کہہ سکوں۔
پامال دل کے ارماں کرکے ہوا پشیماں
افسوس پہ مٹے غم تو اضطرار کیسا
÷÷اچھا ہے۔ دوسرے مصرعے میں پہ کو "سے" کرلیں۔
اَب چھائے ہوئے بادل باقی کیا مُسافت۔۔؟
تھاما اَجل نے جاتے غم کا قرار کیسا۔۔؟
÷÷ہوئے کو 2-2 باندھنا اچھا نہیں۔ اسے درست کریں۔ کیا کو آپ نے ک یا یعنی 1-2 باندھا ہے یہ 2 کے برابر ہے۔
مفہوم بھی واضح نہیں۔
پرَور وَفا کیا ہو ساری شبیہ مٹی۔۔!
خاکے کیا فنا اب نقش و نگار کیسا۔۔؟
÷÷مفہوم نہیں پاسکا اس شعر کا۔
اچھی نہیں توقع بے رحم لوگ سارے۔۔۔ !
مَطلب کی یاری پِہ جگ کا اعتبار کیسا۔۔؟
÷÷درست ہے۔
اے نُورؔ دل بجھا اب ہر سمت تیرگی ہے ۔۔۔ !
گُل ہیں چراغ سارے اب اِنتظار کیسا ۔۔؟
÷÷ یہاں بھی دوسرے مصرعے میں گل کا چراغ ہونا سمجھ نہیں آیا۔ معذرت۔
کوشش اچھی ہے۔ جاری رکھیں۔ ایک بار نہیں تو بار بار۔ شاعر تو بنتے بنتے بنتا ہے۔ جو باتیں عرض کی ہیں ان پر غور کرنا یا انہیں رد کرنا مکمل آپ کا اختیار ہے۔ تخلیق کے حوالے سے کسی ناشائستہ بات کے لیے معذرت۔
والسلام۔
@مزمل
مہربا نی ۔۔یہ اصلاح:
گر زندگی میں شامیں غم مختیار کیسا
تھاما اجل نے اے غم تو مختیار کیسا
زندگی میں شامیں ۔۔۔ غم کی بے انتہا مراد لیا گیا ہے ۔۔ جب غم کی شدت ہو اس پر سوال بھی ہو سکتا ہے کہ اے غم تو بڑا اختیار رکھتا ہے جو مجھے زخموں سے نڈھال کردیا ہے ۔ اس غم کو انتہا کو ختم اجل کا فرشتہ یعنی موت ہے جب موت آتی ہے تو پھر سوال غم کی انتہا تو موت ہے ۔تری تو حکمرانی تو گئی اب ۔ مطلع میں مختیار کی جگہ اختیار کر سکتی تھی مگر شعر کی ماہیت بدل جانی تھی اور مزہ نہ آتا ۔
اسکی تشریح یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ غم زندگی کا سورج غروب ہے درد بے حد اور موت تو اک حد ہے موت کے بعد اک اور غم کا سمندر ہے ۔ غم پہ کسی خوشی اور غم حکمراں ہوتا ہی ظالم ہے ۔ موت کے بعد بھی ظلم ۔۔ظلم پہ ظلم
جو ناز تھا کبَھی وُہ ہوتا ہے چُور چُور اَب
اپنائیت میں نفرت مانگوں میں پیار کیسا
آپ کی بات بجا ہے ۔ میں نے اس شعر کے 5-5 مصرعے بنائے تھے ۔ ان میں سے ایک تھا اپنائیت میں نفرت ۔۔۔ جب پیار میں نفرت ہو گی تو میں پیار بھی کیوں مانگوں گی ۔
فرقت وفا کی بابت ہے راز اور پنہاں
جب انتقام دیرینہ اس میں بار کیسا
اس شعر کے بھی 3-4 ورژن موجود تھے ۔ اس میں مجھے یہ مناسب لگا تو یہاں یہ لگا دیا ہے ۔۔ جدائی کی قسم وفا کی خاطر ،۔۔۔ اس قسم میں دم نہیں لگتا ہے بلکہ محب کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔ اصل راز تو مجھے پیار کا دھوکا دینا تھا ۔ جدا ہو کر اور یہ دھوکا شاید ترا کوئی پرانا بدلہ ہے ۔ اور کینہ تھا تو محبت کیسی تو یہ بوجھ /بار اتار دے ۔ راز کھول دے کہ جدا ہونا مصلحت نہ ہے بلکہ یہ بدلہ ہے
یہ کاٹ دار آنکھیں الفت کی معتبر ہیں
پیکر تراشتی کرتی ہیں حصار کیسا
اس شعر میں اک طنز ہے ۔ وہ یہ تری نظروں کا کام تو بدن تراشنا ہے ۔۔ مجھے سراہنا چاہیے (طنز)اسکو ۔ مجھے شرار لفظ خود بھی موضوع نہیں لگ رہا تھا مگر میں نے سوچا شعر باندھا جا سکتا ہے ۔ اصل میں جو کہنا مقصود تھا وہ میں نے اب کہا ہے
کعبہ ہی میرا قبلہ، تَوحید میرا ایماں
ہیں بُت تِرے بہت سے تو پاس دار کیسا
پامال دل کے ارماں کرکے ہوا پشیماں
افسوس سے مٹے غم تو اضطرار کیسا
اے ماہ دل گِرفتہ تو مّہر کے سَبب ہے
گَر وَصل روز مّدِ جّز بار بار کیسا۔
ماہ کو میں نے محب بنا دیا اور مہر سورج کو محبوب ۔۔۔ ماہ بہت زیادہ پریشان ہے کہ مہر آتا ہے ملاقات ہوتی ہے ۔ دن ڈ ھلتا ہے سورغ غروب ہوتا ہے ۔ غروب کے بعد پسِ پردہ چلا جاتا ہے ۔ چاند آتا ہے وصل کا انتظار کرتا ہے نہیں ہو پاتا ۔ یوں عرصہ بھی گزر جاتا ہے ۔وصل تب ہوتا ہے جب مہر ڈھلتا ہے اور ماہ نظر آتا ہے یہ کچھ سیکنڈذ یا کچھ منٹ کا وقت ہوتا اور ملاپ کی گھڑی بڑی بھی ایسی جس میں ملاپ نہ ہوا بس دید ہو پائی ۔۔۔۔ وصل تو روز ہوتا ہے ۔ اور گزرتا وقت اشتہا بڑھا دیتا ہے ۔ اس سبب اک ٹرم ہے مدو جزر یا اسکو "صوت "کو اچھا بنانے کے لیے میں نے مدو میں '' و'' ہٹا کر مد پر '' زیر '' اور تشدید'' ڈال دی جس اس کی سننے میں اچھا اثر پڑتا ہے ۔ مدوجزر وہ کشش ہے جس سے مہر ماہ کو اپنی طرف بلاتا ہے اور سمندری طوفان بھی آتا ہے۔۔۔
اور مدو۔۔مدد۔دو۔جزر۔۔۔ لفظ اسکو پڑھیں ۔۔ اچھا محسوس زیادہ ہو گا جب میں ''ر' اخفا کر دوں گی ۔ اور ''ز'' پہ تشدید ڈال دوں گی اور مدو کی تشدید ختم کرکے ''د' کے نیچے ''زیر'' ڈال دوں
ہر نقش عکس تھا اس دل میں مٹا دیا ہے
رنگوں میں اب کہاں تو احساس یار کیسا
میرے خَیال رقصِ بِسمل کی طرح ہوتے۔۔۔
حالت میں جان بر ہوں تودرد خوار کیسا
آپ کو پھر اس شعر پر اعتراض نہ ہوا جب شعر کی ترکیب یوں تھی ۔۔""تھا جو نازکبھی ۔۔۔ ہوتا ہے چور چور اب ""مجھے اعتراض بجا نہیں لگا
شاعر کے پاس لائیسنس ہوتا ہے وہ نئی بحر بنا سکتا ہے نئی ترکیب بنا سکتا ہے ۔ اور پھر یہ علیحدہ اعتراض ہوتا ہے کی شعر کی اس طرز لکھے نثر محسوس ہو ۔ اب کوئی رول ہے تو میں اس کو توڑ دوں کیا ہوگا رول بنائے ہی توڑنے کے لیئے جاتے ہیں ۔ ایک تو اصول کی سقیل و دقیق وضا حت چاہیے تاکہ میں قائل ہو پاؤں جہاں مجھے لگا میں غلط میں نے ترکیب بدل ڈالی ۔میں پھر بھی نئی ہوں میں نے پہلی غزل لکھی ہے
اچھی نہیں توقع بے رحم لوگ سارے۔
مَطلب کی یاری پِہ جگ کا اعتبار کیسا۔
اے نُورؔ دل بجھا اب ہر سمت تیرگی ہے
گُل ہیں چراغ سارے اب اِنتظار کیسا
چراغ بجھ گئے ہیں سارے۔ دل بھی بجا ۔۔ اندھیرا ہو سارا تو انتظار کیسا
الف عین
محمد یعقوب آسی
سید ذیشان