عمران شناور
محفلین
شبِ تاریک چپ تھی در و دیوار چپ تھے
نمودِ صبحِ نو کے سبھی آثار چپ تھے
تماشا دیکھتے تھے ہمارے ضبطِ غم کا
مسلط ایک ڈر تھا لبِ اظہار چپ تھے
ہوائیں چیختی تھیں فضائیں گونجتی تھیں
قبیلہ بٹ رہا تھا مگر سردار چپ تھے
گراتا کون بڑھ کر بھلا دیوارِ ظلمت
اجالوں کے پیمبر پسِ دیوار چپ تھے
متاعِ آبرو کو بچا سکتے تھے لیکن
محافظ سرنگوں تھے تو پہرے دار چپ تھے
نہیں ہے اس سے بڑھ کر کوئی توہین فن کی
خریدے جا رہے تھے مگر فنکار چپ تھے
زمانہ چاہتا تھا کہانی کا تسلسل
مگر پردے کے پیچھے سبھی کردار چپ تھے
سرور ارمان