شب برات کی اہمیت و فضیلت احادیث کی روشنی میں

گل زیب انجم

محفلین
ذرا یہاں ایک نظر ڈالیں اور اپنی رائے بتائیں:
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=61278
آپ کے دانشمندانہ ذہین کے مطابق اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور سید الحدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث شریف ضیعف ہو سکتی ہیں نعوذبااللہ یہ لکهنا تو دور کی بات سوچنا بھی زمرہ کفر ہے. پلیز اپنی اصلاح فرمائیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑیں یہی آپ کے لیے اور میرے لیے بہتر ہے. جیسا کہ میں نے گزشتہ روز یہ عرض کیا تھا کہ ہم وضو نہ کرنے کے کتنے بہانے ڈھونڈ نکالتے ہیں بہتر ہے کہ وضو ہی کر لیں تا کہ کچھ ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہ پڑے. میرے بھائی شاید آپ نے پڑھا ہو کے جب ابن کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو اس نے مسلم لوگوں کو بڑی ایزی آفرز دی تھیں' ان افرز میں ایک اسپیشل آفر یہ بھی تھی کہ تم نماز میں دو سجدوں کے بجائے ایک سجدہ کر سکتے ہو زکوٰۃ ایک بوجھ ہے جس کی تمیں مکمل چهوٹ ہے. اس وقت میرے بھائی ہم جیسے سہل لوگوں نے ہی اس کو نبی مان کر اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے لگے. اگر وہ سہل نہ ہوتے تو کبھی بھی ایک زائد سجدے کی وجہ سے مرتد نہ ہوتے۔
 

حسیب

محفلین
برادرم کیا آپ کو اس حدیث میں کوئی شک نظر آتا ہے
-2حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا ومولیٰ ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔

(ابن ماجہ صفحہ100‘شعب الایمان للبیہقی‘جلد3‘صفحہ378‘مشکوۃجلد1صفحہ278)
پهر اماں عاشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔

(مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)
ان میں سے آپ کو کس پر شک ہے راوی پر یا حدیث پر۔
ہم بجائے اس کے کہ وضو کر کے دو رکعت نفل ادا کر لیں وضو سے بچنے کے لئے وضو نہ کرنے کے ہزاروں نہیں لاکھوں بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں.
اللہ ہمیں شک و شبے سے اور حجتوں سے بچائے
برادر میرے خیال میں ہماری بحث کا موضوع یہ چل رہا تھا کہ لیلہ المبارکہ سے مراد شب برات ہے یا لیلہ القدر
میرے خیال میں بہتر یہی ہے کہ ہم پہلے اس موضوع پر بات مکمل کر لیں
یہ احادیث سورۃ الدخان کی آیت کی تفسیر میں نہیں ہیں۔
 

حسیب

محفلین
آپ کے دانشمندانہ ذہین کے مطابق اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور سید الحدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث شریف ضیعف ہو سکتی ہیں نعوذبااللہ یہ لکهنا تو دور کی بات سوچنا بھی زمرہ کفر ہے. پلیز اپنی اصلاح فرمائیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑیں یہی آپ کے لیے اور میرے لیے بہتر ہے. جیسا کہ میں نے گزشتہ روز یہ عرض کیا تھا کہ ہم وضو نہ کرنے کے کتنے بہانے ڈھونڈ نکالتے ہیں بہتر ہے کہ وضو ہی کر لیں تا کہ کچھ ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہ پڑے. میرے بھائی شاید آپ نے پڑھا ہو کے جب ابن کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو اس نے مسلم لوگوں کو بڑی ایزی آفرز دی تھیں' ان افرز میں ایک اسپیشل آفر یہ بھی تھی کہ تم نماز میں دو سجدوں کے بجائے ایک سجدہ کر سکتے ہو زکوٰۃ ایک بوجھ ہے جس کی تمیں مکمل چهوٹ ہے. اس وقت میرے بھائی ہم جیسے سہل لوگوں نے ہی اس کو نبی مان کر اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے لگے. اگر وہ سہل نہ ہوتے تو کبھی بھی ایک زائد سجدے کی وجہ سے مرتد نہ ہوتے۔
یہاں آپ کو کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے کسی حدیث کو ضعیف کہنے سے مراد کسی صحابی رضی اللہ عنہ پر ہرگز انگلی اٹھانا نہیں ہوتا بلکہ اس کی کچھ اور وجوہات ہوتی ہیں
 

حسیب

محفلین
-2حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا ومولیٰ ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔

ہم بجائے اس کے کہ وضو کر کے دو رکعت نفل ادا کر لیں وضو سے بچنے کے لئے وضو نہ کرنے کے ہزاروں نہیں لاکھوں بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں.
اللہ ہمیں شک و شبے سے اور حجتوں سے بچائے
آپ کی آخری بات بالکل درست ہے کہ ہم لوگ بہانے ڈھونڈتے ہیں ورنہ شب برات کا انتظار کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی
یہی انعامات ہر رات کو میسر آ جاتے ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر آتے ہیں جب آخری ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے پس وہ فرماتا ہے کوئی ہے مجھ سے دعا کرنے والا میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی ہے مانگنے والا میں اسے دوں، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے بخش دوں۔
(سنن ابی داو‘د، جلد سوئم کتاب السنۃ،:4733)
رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاکر کہتے ہے :
(مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ؟مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ؟مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ۔وفی روایۃ لمسلم۔ فَلاَ یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ) [بخاری : ۱۱۴۵ ، ۶۳۲۱ ، ۷۴۹۴ ، مسلم : ۷۵۸]
’’کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردوں ؟ ۔اور مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : پھر وہ بدستور اسی طرح رہتے ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے۔‘‘
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(إِنَّ فِیْ اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لاَ یُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اﷲَ خَیْرًا مِّنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلاَّ أَعْطَاہُ إِیَّاہُ وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَۃٍ)
’’بے شک ہر رات کو ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں کوئی بندہ ٔ مسلماں اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی عطا کردیتا ہے۔‘‘ [مسلم : ۷۵۷ ]
 

گل زیب انجم

محفلین
آپ کی آخری بات بالکل درست ہے کہ ہم لوگ بہانے ڈھونڈتے ہیں ورنہ شب برات کا انتظار کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی
یہی انعامات ہر رات کو میسر آ جاتے ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر آتے ہیں جب آخری ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے پس وہ فرماتا ہے کوئی ہے مجھ سے دعا کرنے والا میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی ہے مانگنے والا میں اسے دوں، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے بخش دوں۔
(سنن ابی داو‘د، جلد سوئم کتاب السنۃ،:4733)
رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاکر کہتے ہے :
(مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ؟مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ؟مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ۔وفی روایۃ لمسلم۔ فَلاَ یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ) [بخاری : ۱۱۴۵ ، ۶۳۲۱ ، ۷۴۹۴ ، مسلم : ۷۵۸]
’’کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردوں ؟ ۔اور مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : پھر وہ بدستور اسی طرح رہتے ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے۔‘‘
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(إِنَّ فِیْ اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لاَ یُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اﷲَ خَیْرًا مِّنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلاَّ أَعْطَاہُ إِیَّاہُ وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَۃٍ)
’’بے شک ہر رات کو ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں کوئی بندہ ٔ مسلماں اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی عطا کردیتا ہے۔‘‘ [مسلم : ۷۵۷ ]
برادرم السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اس میں شک نہیں کہ اللہ تبارک تعالٰی ہر جگہ ہر وقت موجود ہے اور ہر وقت سننے والا ہے. لیکن جیسا کے مثل مشہور ہے کہ 24 گھنٹوں میں ایک گهڑی ایسی ہوتی ہے جو قبولیت دعا کی ہوتی ہے جب کے اللہ بےنیاز ہے وہ 24 گھنٹے ہی قبولیت بخشتا رہے تو اس کے خزانہ قبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا. آپ اپنی ہی تحریر کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو ایک سطر ایسی ملے گی جس میں رب العزت کا رات کے آخری پہر آسمان دنیا پر تشریف فرما ہونے کا ذکر ملتا ہے. جبکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے پهر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہی ایک پہر ہوتا ہے جب اللہ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں. پیارے بھائی یہ وہ باتیں ہیں جو ہماری عقل ناقص سے بالاتر ہیں. یہاں سے ہمیں کچھ مخصوص راتوں دنوں گهڑیوں گھنٹوں کا درس ملتا ہے. جبکہ سارے دن اللہ کے ہیں لیکن جمعہ سیدالایام ہے آپ کو دوسرے دنوں کی بانسبت جمعہ کی فضیلت زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ راتیں کچھ عبادات کے لیے کسی نا کسی وجہ سے مخصوص ہیں ۔ اور پھر وہ عمل جو سرکار دو عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کیا اس کا کرنا ہمارے لیے باعث نجات ہے اور اس عمل کو جان بوجھ کر ترک کرنا ہمارے لیے نہ صرف گناہ بلکہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے.
آپ کو اسی سلسلے میں کچھ احادیث مبارکہ کچھ آیات کریمہ اور کچھ صحابہ کرام کے قول نقل کرتا ہوں امید آپ کی تشنگی علم کو کچه راحت ملے گی اگر پهر بھی کچھ باقی رہے تو حاضر خدمت ہوں.

امام رازی نے لکھا ہے کہ



عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يُقَدِّرُ الْمَقَادِيرَ فِي لَيْلَةِ الْبَرَاءَةِ، فَإِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ يُسَلِّمُهَا إِلَى أَرْبَابِهَا۔
 

گل زیب انجم

محفلین
برادرم السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اس میں شک نہیں کہ اللہ تبارک تعالٰی ہر جگہ ہر وقت موجود ہے اور ہر وقت سننے والا ہے. لیکن جیسا کے مثل مشہور ہے کہ 24 گھنٹوں میں ایک گهڑی ایسی ہوتی ہے جو قبولیت دعا کی ہوتی ہے جب کے اللہ بےنیاز ہے وہ 24 گھنٹے ہی قبولیت بخشتا رہے تو اس کے خزانہ قبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا. آپ اپنی ہی تحریر کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو ایک سطر ایسی ملے گی جس میں رب العزت کا رات کے آخری پہر آسمان دنیا پر تشریف فرما ہونے کا ذکر ملتا ہے. جبکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے پهر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہی ایک پہر ہوتا ہے جب اللہ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں. پیارے بھائی یہ وہ باتیں ہیں جو ہماری عقل ناقص سے بالاتر ہیں. یہاں سے ہمیں کچھ مخصوص راتوں دنوں گهڑیوں گھنٹوں کا درس ملتا ہے. جبکہ سارے دن اللہ کے ہیں لیکن جمعہ سیدالایام ہے آپ کو دوسرے دنوں کی بانسبت جمعہ کی فضیلت زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ راتیں کچھ عبادات کے لیے کسی نا کسی وجہ سے مخصوص ہیں ۔ اور پھر وہ عمل جو سرکار دو عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کیا اس کا کرنا ہمارے لیے باعث نجات ہے اور اس عمل کو جان بوجھ کر ترک کرنا ہمارے لیے نہ صرف گناہ بلکہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے.
آپ کو اسی سلسلے میں کچھ احادیث مبارکہ کچھ آیات کریمہ اور کچھ صحابہ کرام کے قول نقل کرتا ہوں امید آپ کی تشنگی علم کو کچه راحت ملے گی اگر پهر بھی کچھ باقی رہے تو حاضر خدمت ہوں.

امام رازی نے لکھا ہے کہ



عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يُقَدِّرُ الْمَقَادِيرَ فِي لَيْلَةِ الْبَرَاءَةِ، فَإِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ يُسَلِّمُهَا إِلَى أَرْبَابِهَا۔




اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو بعض چیزوں پر فضیلت سے نوازا ہے جیسا کہ مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، وادئ مکہ کو تمام وادیوں پر، بئرِ زمزم کو تمام کنوؤں پر، مسجدِ حرام کو تمام مساجد پر، سفرِ معراج کو تمام سفروں پر، ایک مؤمن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مؤمنوں پر، صحابی کو تمام ولیوں پر، نبی کو تمام صحابہ پر، اور رسول کو تمام نبیوں پر اور رسولوں میں تاجدارِ کائنات سرور لولاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص فضیلت اور مقام و مرتبہ پر فائز ہے اور بقول شاعر:
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اللہ رب العزت نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے، یومِ جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوںپر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شبِ برات کو دیگر راتوں پر۔ احادیثِ مبارکہ سے اس بابرکت رات کی جو فضیلت و خصوصیت ثابت ہے اس سے مسلمانوں کے اندر اس رات اتباع و اطاعت اور کثرتِ عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
شبِ برات کی وجہ تسمیہ
احادیث مبارکہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی 15ویں رات کو شب برات قرار دیا گیا ہے۔اس رات کو براۃ سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا کردیتا ہے۔
امتِ مسلمہ کے جمیع مکاتبِ فکر کے فقہاء و علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو مسئلہ بھی قرآن و سنت دونوں یا صرف قرآن یا سنت سے ثابت ہوجائے اس پر عمل واجب ہوتا ہے۔وہ احادیث جو اس رات کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں بہت سے صحابہ کرامث سے مروی ہیں ان میں حضرات سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، عوف بن مالک، ابو موسیٰ اشعری اور عثمان بن ابی العاصث کے نام شامل ہیں۔
شب برات پر احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام ث کی سطح تک تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے لہذا اتنے صحابہ کا کسی مسئلہ پر احادیث روایت کرنا ان کی حجیت اور قطعیت کو ثابت کرتا ہے۔
سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے معمولات میں سے تھا۔ لیکن بعض لوگ اس رات عبادت، ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل محافل منعقد کرنے کو بدعت ضلالۃ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے جو سراسر احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ذیل میں شبِ برات کی فضیلت اور اس میں اہتمامِ عبادت کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے۔
1۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَنْزِلُ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ اوْ مُشَاحِنٍ لِاخِيْهِ.

’’جب ماہ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اﷲ تبارک وتعالی آسمانِ دنیا پر (اپنے حسب حال) نزول فرماتا ہے پس وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔‘‘
( بزار المسند،1: 206، رقم: 80)
امام بزار اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد امام ابوبکر احمد بن عمرو المعروف بزار کی تاریخِ وفات 292ھ ہے۔ ان کے اس قول سے معلوم ہوا کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت و خصوصیت تسلیم کرنا اور اس کو بیان کرنا اہل علم کا ابتدائی اَدوار سے طریقہ رہا ہے۔ لہذا موجودہ دور میں کوئی شخص بھی اگر شبِ برات کی غیر معمولی فضیلت کا انکار کرتا ہے تو درحقیقت وہ احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ناواقفیت کی بناء پر ایسا کر رہا ہوتا ہے۔
2۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ اﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَائِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: الَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَاغْفِرَ لَهُ؟ الَا مُسْتَرْزِقٌ فَارْزُقَهُ؟ الَا مُبْتَلًی فَاعَافِيَهُ؟ الَا کَذَا؟ الَا کَذَا؟ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ.

’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھا کرو، بے شک اﷲ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کوئی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟ یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، 1: 444، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فی ليلة النصف من شعبان، رقم: 1388)
اس حدیثِ مبارک سے شبِ برات اور دیگر عام راتوں میں فرق واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ باقی راتوں میں بھی اﷲ رب العزت آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے مگر وہ رات کا آخری حصہ ہوتا ہے جبکہ اس مبارک رات میں اﷲ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت ہی آسمانِ دنیا پر نزول فرما لیتا ہے۔ پھر شبِ برات میں اﷲ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر نوازشات اور انعامات کا عالم تو دیکھیں کہ ایک ایک چیز کا ذکر کر کے خود ہمارا خالق ہمیں اپنی طرف متوجہ فرماتا ہے۔ گناہوں سے چھٹکارا، کشائشِ رزق، بلاؤں اور آفتوں سے نجات وغیرہ کون سی ایسی مصیبت اور بَلا رہ جاتی ہو گی جس کا تذکرہ خود وحدہ لا شریک ذات اپنی زبانِ الوہیت سے نہ کرتی ہو گی۔ مگر بندے کو اپنی درماندگی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے:
جھولی ہی میری تنگ ہے تیرے یہاں کمی نہیں
3۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (بستر مبارک پر) نہ پایا پس میںآپ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ آسمان کی طرف اپنا سر اٹھائے ہوئے جنت البقیع میں تشریف فرما ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِاکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ کَلْبٍ.

’’یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ (اپنی شان کے لائق) شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس وہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 6: 238)
اس حدیثِ پاک کی روشنی میںاوّلاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے شبِ برات میں جاگنا، قبرستان جانا اور عبادت و دعا میں مشغول ہونا ثابت ہوا۔
ثانیاً عرب میں بنو کلب کے قبیلہ کے پاس بے شمار بکریاں ہوتی تھیں اور ان کی خوبی یہ تھی کہ عام بکریوں کے مقابل ان کے کافی زیادہ بال ہوتے تھے۔ لہذا اس رات اﷲ تعالیٰ اپنے کروڑوں بندوں کو مغفرت کا مژدہ سناتا ہے۔
4۔ حضرت معاذ بن جبل ص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 176، رقم: 6353)
يَطَّلِعُ اﷲُ إِلٰی خَلْقِهِ فِی لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيْعِ خَلْقِهِ إلَّا لِمُشْرِکٍ اوْ مُشَاحِنٍ.

’’ماہ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ مشرک اور بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے۔‘‘
( ابن حبان، الصحيح، 12: 481، رقم: 5665)
5۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنی ص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يَطْلُعُ اﷲُ عَلٰی عِبَادِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِلْمُؤمِنِيْنَ وَيُمْهِلُ الْکَافِرِيْنَ، وَيَدَعُ اهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ حَتَّی يَدَعُوْهُ.

’’ اللہ رب العزت شعبان کی پندرہویں رات کو اپنے بندوں پر مطلع ہوتا ہے، پس وہ مومنوں کی مغفرت فرماتا ہے اور کافروں کو مہلت دیتا ہے اور وہ اہل حسد کو ان کے حسد میں چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دیں۔‘‘
( طبرانی، المعجم الکبير، 22: 223، رقم: 590)
6۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَإِذَا مُنَادٍ: هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغْفِرَ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاعْطِيَهُ؟ فَ۔لَا يَسْالُ احَدٌ إَلَّا اعْطِيَ إِلَّا زَانِيَةٌ بِفَرْجِهَا اوْ مُشْرِکٌ.

(بيهقی، شعب ا لإيمان، 3: 383، رقم: 3836)
’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو منادی ندا دیتا ہے: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ پس زانی اور مشرک کے سوا ہر سوال کرنے والے کو عطا کر دیا جاتا ہے۔‘‘
شبِ برات میں رب کی رحمت سے محروم بندے
یاد رہے کہ بندوں پر دو طرح کے حقوق ہیں:
1۔حقوق اﷲ
2۔ حقوق العباد
ان احادیث میں اﷲ رب العزت نے اپنے حقِ خاص ’توحید‘ اور بندوں کے بندوں پر حقِ خاص ’اخوت و بھائی چارہ‘ کے تحفظ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شرک ایسا جرم ہے جس کے علاوہ ہر گناہ کی بخشش ہو سکتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اﷲَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُشْرَکَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَشَآءُ وَمَنْ يُشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدِ افْتَرٰی اِثْمًا عَظِيْمًاo

(النساء: 48)
’’بے شک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس نے واقعتاً زبردست گناہ کا بہتان باندھا‘‘
شرک اﷲ کی بارگاہ میں ناقابلِ معافی جرم ہے لہذا بندے کو ہر حال میں اﷲ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔
باقی چار اعمالِ شنیعہ کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے۔ ان کی مذمت میں قرآن و حدیث میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔ کینہ و حسد انسان کے نفسِ امّارہ کے باعث ہوتے ہیں جو ہر دم انسان کو بڑائی اور تکبر پر اکساتا ہے۔ کینہ کی وجہ سے انسان دوسرے انسان سے نفرت کرتا اور دل میں اس سے بغض رکھتا ہے جبکہ حسد کی وجہ سے انسان دوسروں پر اﷲ کی نعمتیں دیکھ کر اندر ہی اندر جَلتا اور کڑھتا ہے اور اس سے زائل ہونے کی تمنا رکھتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کینہ کے بارے میں فرمایا:
تُفْتَحُ ابْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِیسِ، فَيُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِکُ بِاﷲِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا کَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اخِيهِ شَحْنَاءُ. فَيُقَالُ: انْظِرُوا هٰ۔ذَيْنِ حَتَّی يَصْطَلِحَا، انْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّی يَصْطَلِحَا، انْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّی يَصْطَلِحَا.

(مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن الشحناء والتهاجر، 4: 1987، رقم: 2565)
’’پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو۔ پس (فرشتوں سے) کہا جاتا ہے: ان دونوں کی طرف دیکھتے رہو حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کی طرف دیکھتے رہو حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کی طرف دیکھتے رہو حتی کہ یہ دونوں صلح کر لیں۔‘‘
حسد کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان زبانِ زدِ عام ہے:
إِيَاکُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَاکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ.

(ابو داؤد، السنن، کتاب الادب، باب في الحسد، 4: 276، رقم: 4903)
’’حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘
شبِ برات کی رحمت بھری ساعتوں سے محروم کرنے والا تیسرا عملِ قبیح ’بدکاری‘ ہے۔ اس کی مذمّت میں قرآن گویا ہوا:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَآءَ سَبِيْلاًo

(الإسراء، 17: 32)
’’اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بے شک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘
چوتھا عمل ’قتل‘ شریعت میں قبیح ترین اور کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔اس سے بڑھ کی اس کی کیا مذمت ہو کہ بقول قرآن:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.

(المائدة، 5: 32)
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘
یہ اسلام کی احترامِ انسانیت پر واشگاف انداز میں تعلیم ہے۔ آج دنیا کے جمیع مذاہب کے ماننے والے اپنے ہم مذہبوں کے تحفظ اور احترام پر قوانین بناتے اور اس پر عمل درآمد کرتے دکھائے دیتے ہیں مگر باقی مذاہب کے ماننے والوں کو تحفظ کوئی فراہم نہیں کرتا۔ جبکہ اسلام واضح انداز میں بغیر مسلم اور مومن کی قید لگائے محض ’انسانی جان‘ کی حرمت اور تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے برابر جرم قرار دیتا ہے۔
مذکورہ چاروں اعمالِ قبیحہ و شنیعہ ایسے ہیں جن میں سے کسی ایک کا عامل بھی شعبان المعظم کی پندرہویں رات یعنی شبِ برات کی خیر و برکات اور مغفرت و بخشش سے محروم رہتا ہے۔
مذکورہ اعمال کے معاشرہ پر اثرات
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اور بھی بہت سی برائیاں اور گناہ ہیں مگر ان میں سے اِن چار کو کیوں چُنا گیا؟ دراصل اس سے بھی شارعِ و شارحِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و بصیرت عیاں ہوتی ہے۔ شرک سے بچا کر توحید کو انسان کے رَگ و پے میں اتار کر اسے صرف خدائے وحدہ لا شریک کا عابد اور ساجد بنانا ہے، تاکہ مخلوق کے آگے جھکنے کی بجائے اﷲ کے آگے جھکنے سے انسان کا ظاہر و باطن توحید کی قوت سے آشنا ہو اور ہر باطل سے ٹکرانے کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہو۔ بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال:
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
ثانی: کینہ اور حسد نفسیاتی بیماریاں ہیں جو انسان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ یہ دونوں برائیاں انسان کو ’ذاتی اور انفرادی‘ طور پر اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں جس سے وہ دوسروں کو شکار کرتا ہے۔ انسان دوسروں پر اﷲ کے ظاہری انعامات و اِکرامات دیکھ کر اپنے آپ میں ہی جلتا ہے۔ بعض اوقات یہ حالت اسے دائمی نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے اور اس سے بڑھ کر یہی حسد بعض اوقات دشمنی اور عداوت میں بدل جاتا ہے جس کے لئے انسان کوئی بھی حد عبور کر جاتا ہے۔
ثالث: باقی دو برائیاں ’بدکاری اور قتل‘ اجتماعی طور پر معاشرے پر اثراتِ بد چھوڑتی ہیں۔ اجتماعی لحاظ سے معاشرہ فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانوں کو ہر وقت اپنی عزت اور جان کے تحفظ کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ایسا معاشرہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے لہذا ان برائیوں کا سدِّ باب ضروری ہوتا ہے۔
توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے
مذکورہ اعمالِ سیئہ کے ارتکاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بندہ اِن ہی ظلمات میں بڑھتا رہے اور اپنے رب سے مایوس ہو جائے بلکہ وہ سچے دل سے اﷲ کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہو اور توبہ کا خواست گار ہو۔ اس کی رحمت اور مغفرت کے دروازے ہر دَم کھلے ہیں:
ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْالا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

(النحل، 16: 119)
’’پھر بے شک آپ کا رب ان لوگوں کے لیے جنہوں نے نادانی سے غلطیاں کیں پھر اس کے بعد تائب ہوگئے اور (اپنی) حالت درست کر لی تو بے شک آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘
رحمۃ للعالمین و رؤف رحیم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک تائب بندے کو امید دلائی ہے:
التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ.

(ابن ماجة، السنن، کتاب الزهد، باب ذکر التوبة، 2: 1419، رقم: 4250)
’’(سچے پکّے دل سے) گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔‘‘
لہذا شبِ برات میں گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کو بھی رَب کی رحمت، کرم اور بخشش کے خزانوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ وہ عجز و نیاز سے اپنے خالق و مالک اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے رب کی بارگاہ میں تائب ہو تو وہ بھی ان خزانوں سے اپنی جھولیاں بھر سکتا ہے۔
صالحین کی آراء اور معمول
حضرت علی، حضرت عائشہ صدیقہ اور عثمان بن ابی العاص ث سے مروی مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور امر سے اس کی حجیت ثابت ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ شعبان میں رمضان کے علاوہ باقی تمام مہینوں سے بڑھ کر عبادت کرتے تھے، لہذا شبِ برات کو اس سے کس طرح خارج کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ یہ رات دوسری راتوں کی نسبت عبادت کی زیادہ مستحق ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں:
خمس ليال لا ترد فيهن الدعاء: ليلة الجمعة، و اول ليلة من رجب، و ليلة النصف من شعبان، و ليلتی العيدين.

(عبد الرزاق، المصنف، 4: 317، رقم: 7927)
’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتیں: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرھویں رات، دونوں عیدوں کی راتیں۔‘‘
علامہ ابنِ تیمیہ نے اس رات میں عبادت اور قیام پر لکھا ہے:
سئل ابن تيمية عن صلاة نصف شعبان؟ فأجاب: إذا صلی الانسان ليلة النصف وحده أو فی جماعة خاصة کما کان يفعل طوائف من السلف فهو أحسن.

(مجموع فتاوی ابن تيمية، 23: 131)
’’ابنِ تیمیہ سے نصف شعبان میں نفلی نماز ادا کرنے کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: جب کوئی بھی انسان نصف شعبان کی رات کو اکیلا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ سلف میں سے بہت سارے گروہ اس کا اہتمام کرتے تھے تو یہ بہت خوب ہے۔‘‘
حافظ ابنِ رجب حنبلی لکھتے ہیں:
’’شعبان کی 15ویں شب کو اہلِ شام کے تابعین خالد بن معدان، لقمان بن عامر اور ان کے علاوہ دیگر اِس رات کی تعظیم کرتے اور اس میں بے حد عبادت کرتے۔ وہ اِس رات مسجد میں قیام کرتے۔ اس پر امام اسحاق بن راہویہ نے ان کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ اس رات کو مساجد میں قیام کرنا بدعت نہیں ہے۔‘‘
(لطائف المعارف: 263)
مسنون اور مستحب اَذکار و دعائیں
اس رات کو بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ دعا منقول ہے:
اَللَّهُمَّ اعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَاَعُوْذُ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ، وَاعُوذُ بِکَ مِنْکَ، لَا احْصِي ثَنَائً عَلَيْکَ انْتَ کَمَا اثْنَيْتَ عَلَی نَفْسِکَ.

(عسقلانی، الامالی المطلقة: 120)
’’اے اللہ! میں تیرے غضب سے تیری خوشنودی و رضا کی پناہ میں آتا ہوں، تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ سے ڈر کر تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری حمد و ثنا ایسی نہیں کر سکتا جیسی حمد و ثنا تو خود اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘
دوسری مسنون دعا جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر میں پڑھنے کی تلقین کی ہے، وہ بھی اس رات پڑھنا مستحب ہے:
اَللَّهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِيْمٌ، تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.

(ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، 5: 534، رقم: 3513)
’’اے اللہ! تُو بہت معاف کرنے والا اور کرم فرمانے والا ہے۔ عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔‘‘
بزرگانِ دین اور علمائے کرام نے اس مبارک رات میں مختلف نوافل پڑھنے کی تعلیم فرمائی ہے:
شعبان کی 14 تاریخ کو نمازِ مغرب کے بعد دو رکعت نفل اس طرح پڑھے جائیں کہ ہر رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد سورت حشر کی آخری تین آیات 1، 1 مرتبہ اور سورت اخلاص کو 3، 3 بار پڑھا جائے۔
8 رکعات نفل اس طرح پڑھیں کہ ان کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد 10، 10 مرتبہ سورت اخلاص پڑھی جائے۔
14 رکعات نفل اس طرح پڑھے جائیں کہ ہر رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد آخری چار قل والی سورتیں پڑھیں اور بعد از سلام آیت الکرسی اور سورت توبہ کی آخری دو آیتیں 128، 129 پڑھی جائیں۔
شبِ برات کی اہمیت و فضیلت پر مروی احادیث صرف اس لیے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ مؤمن فقط ان کا مطالعہ کرکے انہیں قصے، کہانیاں سمجھتے ہوئے صرفِ نظر کردے، بلکہ ان احادیث کے بیان کا مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگرروحانی راتوں میں عبادت سے میسر ہوسکتا ہے۔ اِن بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اپنے گناہگار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لیے بے قرار ہوتی ہے لہذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں۔ اس لیے جو شخص بھی اب اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر ہے اور فقط ہوائے نفس کی اتباع اور اطاعت میں مشغول ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 

حسیب

محفلین
برادرم السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اس میں شک نہیں کہ اللہ تبارک تعالٰی ہر جگہ ہر وقت موجود ہے اور ہر وقت سننے والا ہے. لیکن جیسا کے مثل مشہور ہے کہ 24 گھنٹوں میں ایک گهڑی ایسی ہوتی ہے جو قبولیت دعا کی ہوتی ہے جب کے اللہ بےنیاز ہے وہ 24 گھنٹے ہی قبولیت بخشتا رہے تو اس کے خزانہ قبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا. آپ اپنی ہی تحریر کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو ایک سطر ایسی ملے گی جس میں رب العزت کا رات کے آخری پہر آسمان دنیا پر تشریف فرما ہونے کا ذکر ملتا ہے. جبکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے پهر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہی ایک پہر ہوتا ہے جب اللہ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں. پیارے بھائی یہ وہ باتیں ہیں جو ہماری عقل ناقص سے بالاتر ہیں. یہاں سے ہمیں کچھ مخصوص راتوں دنوں گهڑیوں گھنٹوں کا درس ملتا ہے. جبکہ سارے دن اللہ کے ہیں لیکن جمعہ سیدالایام ہے آپ کو دوسرے دنوں کی بانسبت جمعہ کی فضیلت زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ راتیں کچھ عبادات کے لیے کسی نا کسی وجہ سے مخصوص ہیں ۔ اور پھر وہ عمل جو سرکار دو عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کیا اس کا کرنا ہمارے لیے باعث نجات ہے اور اس عمل کو جان بوجھ کر ترک کرنا ہمارے لیے نہ صرف گناہ بلکہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے.
آپ کو اسی سلسلے میں کچھ احادیث مبارکہ کچھ آیات کریمہ اور کچھ صحابہ کرام کے قول نقل کرتا ہوں امید آپ کی تشنگی علم کو کچه راحت ملے گی اگر پهر بھی کچھ باقی رہے تو حاضر خدمت ہوں.

امام رازی نے لکھا ہے کہ



عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يُقَدِّرُ الْمَقَادِيرَ فِي لَيْلَةِ الْبَرَاءَةِ، فَإِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ يُسَلِّمُهَا إِلَى أَرْبَابِهَا۔
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
برادر دین اسلام میں کسی بھی حکم یا کسی چیز کی فضیلت کے لیے اس کا قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے
اسی لیے میں نے عرض کی تھی کہ پہلے کسی قرآن کی آیت کی تفسیر پہ بات کر لیتے ہیں اور پھر احادیث پہ
آپ سے گزارش کی تھی کہ نیٹ پہ موجود مشہور و معروف تفاسیر کا مطالعہ کر لیں کہ مفسرین لیلہ المبارکہ سے مراد لیلہ القدر لیتے ہیں
اسی کی تائید قرآن کی ان آیات سے بھی ہوتی ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر اور ایک اور جگہ فرمایا شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
پیر محمد کرم شاہ(جو شب برات کی فضیلت کے قائل ہیں) نے بھی اپنی تفسیر ضیا القرآن میں لیلہ المبارکہ سے مراد لیلہ القدر ہی لیا ہے
 
آخری تدوین:

گل زیب انجم

محفلین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
برادر دین اسلام میں کسی بھی حکم یا کسی چیز کی فضیلت کے لیے اس کا قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے
اسی لیے میں نے عرض کی تھی کہ پہلے کسی قرآن کی آیت کی تفسیر پہ بات کر لیتے ہیں اور پھر احادیث پہ
آپ سے گزارش کی تھی کہ نیٹ پہ موجود مشہور و معروف تفاسیر کا مطالعہ کر لیں کہ مفسرین لیلہ المبارکہ سے مراد لیلہ القدر لیتے ہیں
اسی کی تائید قرآن کی ان آیات سے بھی ہوتی ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر اور ایک اور جگہ فرمایا شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
پیر محمد کرم شاہ(جو شب برات کی فضیلت کے قائل ہیں) نے بھی اپنی تفسیر ضیا القرآن میں لیلہ المبارکہ سے مراد لیلہ القدر ہی لیا ہے
برادرم میں نے آپ کو صحیح احادیث کا ہی حوالہ دیا ہے ۔آپ مفسرین کی بات کرتے ہیں جبکہ کسی مفسر کا علم صحابی سے زیادہ نہیں ہو سکتا.
دوسری بات یہ کہ قرآنی آیات کو سمجھنا میرے اور آپ کے بس کا کام نہیں ہے اس لئے قرآنی آیات کی بہترین تفسیر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و احادیث سے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے عمل سے ملتی ہے.
اسی لیے میں نے سطور بالا میں کم و بیش چه سات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی احادیث مبارکہ کا حوالہ پیش کیا ہے کہ ہمیں لیلتہ الرحمتہ لیلتہ الصک لیلتہ مبارکہ کا مکمل علم ہو جائے.
 

گل زیب انجم

محفلین
برادرم میں نے آپ کو صحیح احادیث کا ہی حوالہ دیا ہے ۔آپ مفسرین کی بات کرتے ہیں جبکہ کسی مفسر کا علم صحابی سے زیادہ نہیں ہو سکتا.
دوسری بات یہ کہ قرآنی آیات کو سمجھنا میرے اور آپ کے بس کا کام نہیں ہے اس لئے قرآنی آیات کی بہترین تفسیر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و احادیث سے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے عمل سے ملتی ہے.
اسی لیے میں نے سطور بالا میں کم و بیش چه سات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی احادیث مبارکہ کا حوالہ پیش کیا ہے کہ ہمیں لیلتہ الرحمتہ لیلتہ الصک لیلتہ مبارکہ کا مکمل علم ہو جائے.
شکریہ برادرم لئیق احمد
 

حسیب

محفلین
برادرم میں نے آپ کو صحیح احادیث کا ہی حوالہ دیا ہے
اس بات سے متفق نہیں آپ کی پیش کردہ احادیث ضعیف یا موضوع ہیں
آپ مفسرین کی بات کرتے ہیں جبکہ کسی مفسر کا علم صحابی سے زیادہ نہیں ہو سکتا.
جی بالکل درست بات
قرآن کی اس آیت کی تفسیر سب سے پہلے تو خود قرآن کی ہی دوسری آیت سے مل رہی ہے
’’{ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ} [الدخان: 3]‘‘ میں ’’لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ‘‘ سے مراد شب قدرہے اس کی تفسیرخود قران نے ہی کردی ہے ، سورۃ القدرمیں ہے:
{إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ} [القدر: 1]

اور’’لَيْلَةِ الْقَدْرِ‘‘ رمضان میں ہوتی ہے نہ کی شعبان میں اس کی وضاحت بھی خود قران میں ہے اللہ کا ارشادہے:
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ } [البقرة: 185]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر:
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ حدثني محمد بن صالح بن هانيء نا الحسين بن محمد بن زياد القباني حدثني أبوعثمان سعيد بن يحيى بن سعيد الأموي حدثني أبي نا عثمان بن حكيم عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال : إنك لترى الرجل يمشي في الأسواق و قد وقع اسمه في الموتى ثم قرأ : { إنا أنزلناه في ليلة مباركة إنا كنا منذرين * فيها يفرق كل أمر حكيم } يعني ليلة القدر قال : ففي تلك الليلة يفرق أمر الدنيا إلى مثلها من قابل
[شعب الإيمان 3/ 321 ،فضائل الأوقات للبيهقي ص: 215 واخرجہ ایضا الحاکم فی المستدرك على الصحيحين:2/ 487 واسنادہ صحیح]۔

امام حاکم فرماتے ہیں:
صَحِيحُ الْإِسْنَادِ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 487]۔
امام ذہبی فرماتے ہیں:
صحيح على شرط مسلم[من تلخيص الذهبي، التعليق علی المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 487]۔
 

گل زیب انجم

محفلین
اس بات سے متفق نہیں آپ کی پیش کردہ احادیث ضعیف یا موضوع ہیں

جی بالکل درست بات
قرآن کی اس آیت کی تفسیر سب سے پہلے تو خود قرآن کی ہی دوسری آیت سے مل رہی ہے
’’{ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ} [الدخان: 3]‘‘ میں ’’لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ‘‘ سے مراد شب قدرہے اس کی تفسیرخود قران نے ہی کردی ہے ، سورۃ القدرمیں ہے:
{إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ} [القدر: 1]

اور’’لَيْلَةِ الْقَدْرِ‘‘ رمضان میں ہوتی ہے نہ کی شعبان میں اس کی وضاحت بھی خود قران میں ہے اللہ کا ارشادہے:
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ } [البقرة: 185]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر:
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ حدثني محمد بن صالح بن هانيء نا الحسين بن محمد بن زياد القباني حدثني أبوعثمان سعيد بن يحيى بن سعيد الأموي حدثني أبي نا عثمان بن حكيم عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال : إنك لترى الرجل يمشي في الأسواق و قد وقع اسمه في الموتى ثم قرأ : { إنا أنزلناه في ليلة مباركة إنا كنا منذرين * فيها يفرق كل أمر حكيم } يعني ليلة القدر قال : ففي تلك الليلة يفرق أمر الدنيا إلى مثلها من قابل
[شعب الإيمان 3/ 321 ،فضائل الأوقات للبيهقي ص: 215 واخرجہ ایضا الحاکم فی المستدرك على الصحيحين:2/ 487 واسنادہ صحیح]۔

امام حاکم فرماتے ہیں:
صَحِيحُ الْإِسْنَادِ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 487]۔
امام ذہبی فرماتے ہیں:
صحيح على شرط مسلم[من تلخيص الذهبي، التعليق علی المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 487]۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایسی معتبر صحابیہ اور راوی ہیں جن سے مروی احادیث مبارکہ کو ضعیف کہنا کچھ نامناسب ہی نہیں بلکہ غیر دانشمندانہ اور غیر اخلاقی بات بھی لگتی ہے.
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ایک حدیث جو روز اول ہی کی طرح آج بھی روشن اور ہر زبان پر ہے آپ کی نظر کرتا ہوں شاید اس سے آپ کو شب برات کی اہمیت و فضیلت کا کچھ علم ہو جائے.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔

(مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)

مشکوۃ شریف کی جلد اور صفحہ نمبر کا ریفرنس پیشِ خدمت ہے.
 

حسیب

محفلین
م المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایسی معتبر صحابیہ اور راوی ہیں جن سے مروی احادیث مبارکہ کو ضعیف کہنا کچھ نامناسب ہی نہیں بلکہ غیر دانشمندانہ اور غیر اخلاقی بات بھی لگتی ہے.
برادر میں نے پوسٹ نمبر 26 میں بھی یہ بات عرض کی تھی کہ
یہاں آپ کو کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے کسی حدیث کو ضعیف کہنے سے مراد کسی صحابی رضی اللہ عنہ پر ہرگز انگلی اٹھانا نہیں ہوتا بلکہ اس کی کچھ اور وجوہات ہوتی ہیں
اب آپ اپنی اوپر بیان کردہ مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں
صاحب مشکاۃ نے مذکورہ حدیث کے لئے امام بیہقی کی کتاب الدعوات الکبیر کاحوالہ دیا ہے ۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458 ) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدٍ بِبُخَارَى حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنِي حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ ، عَنِ نَصْرِ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ انْسَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِرْطِي ، ثُمَّ قَالَتْ : وَاللَّهِ مَا كَانَ مِرْطُنَا مِنْ خَزٍّ ، وَلَا قَزٍّ ، وَلَا ، كُرْسُفٍ ، وَلَا كَتَّانٍ ، وَلَا صُوفٍ فَقُلْنا : سُبْحَانَ اللَّهِ فَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ ؟ قَالَتْ : إِنْ كَانَ سَدَاهُ لَشَعْرٌ ، وَإِنْ كَانَتْ لُحْمَتُهُ لَمِنْ وَبَرِ الْإِبِلِ ، قَالَتْ : فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ أَتَى بَعْضَ نِسَائِهِ ، فَقُمْتُ أَلْتَمِسُهُ فِي الْبَيْتِ فَتقَعُ قَدَمِي عَلَى قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ , فَحَفِظْتُ مِنْ قَوْلِهِ وَهُوَ يَقُولُ : سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَخَيَالِي ، وَآمَنَ لَكَ فُؤَادِي ، أَبُوءُ لَكَ بِالنِّعَمِ ، وَأَعْتَرِفُ بِالذُّنُوبِ الْعَظِيمَةِ ، ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ، أَعُوذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ ، وَأَعُوذُ بِرَحْمَتِكَ مِنْ نِقْمَتِكَ ، وَأَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ قَالَتْ : فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَاعِدًا حَتَّى أَصْبَحَ ، فَأَصْبَحَ وَقَدِ اضْمَغَدَتْ قَدَمَاهُ ، فَإِنِّي لَأَغْمِزُهَا ، وأقول : بِأَبِي أَنْت وَأُمِّي ، أَتْعَبْتَ نَفْسَكَ ، أَلَيْسَ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ أَلَيْسَ قَدْ فَعَلَ اللَّهُ بِكَ ؟ أَلَيْسَ أَلَيْسَ ؟ فَقَالَ : يَا عَائِشَةُ ، أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ؟ هَلْ تَدْرِينَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ ؟ قَالَتْ : مَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ : فِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ مَوْلُودٍ مِنْ مولود بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ ، وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ ، وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ ، وَفِيهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ : مَا من أَحَدٌ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ ؟ قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ قُلْتُ : وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى هَامَتِهِ فَقَالَ : وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ , يَقُولُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.[الدعوات الكبير للبيهقي 2/ 146]
یہ روایت ضعیف ہے۔
کتاب کے محقق نے اس کی سند کو سخت ضعیف قراردیا ہے
خلف اور نصر دونوں ضعیف راوی ہیں ۔

اب بتائیں یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما پر کون سا اعتراض کیا گیا ہے؟؟
 
Top