شب ہجراں میرے گھر سے اب جاتی نہیں... برائے اصلاح

شب ہجراں میرے گھر سے اب جاتی نہیں... برائے اصلاح

شب ہجراں میرے گھر سے اب جاتی نہیں
وصل کی کوئی بھی گھڑی اب تو آتی نیں
محبت ہم نے تجھے رہبر تھا بنایا
آج بھٹکا ہوں تو تو بھی راہ دکھاتی نہیں
جہاں جاؤں اک کرب مسلسل ہے میرا میزبان
میری وحشت بھری طبیعت کہیں چین پاتی نہیں
پوچھ بیٹھا زندگی سےدیا تو نے مجھے کیا
مدت ہوئی زندگی شرم سے آنکھ ملاتی نہیں
یونہی بےوجہ زندگی سے روٹھنے والو سنو
یہ وہ مغرور کہ روٹھے ہوؤں کو مناتی نہیں
میں نے چن لیا ہے اپنے لیے سچائی کا راستہ
سنا ہے اس راہ چلو تو موت آتی نہیں
 
محترم الف عین صاحب از حد شکریہ جو آپ نے مشورہ دیا تھا اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرونگا... اس غزل پہ دو جملے فرماہیے کہ سمت متعین ہو
 

الف عین

لائبریرین
ایک ہی جملہ کہوں گا۔ خیالات خوب ہیں لیکن بس بحر و عروض سے آزاد ہے۔ یہ فن بھی سیکھ لیں تو سونے پر سہاگا!!
 
Top