سارہ خان
محفلین
بچپن میں ہمیں اپنے بزرگ اور اساتذہ سے جو ابتدائی تعلیم ملی۔۔اس میں سب سے زیادہ اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ آپ نے کبھی بھی کسی کی بات نہیں کاٹنی۔۔۔کوئی بول رہا ہو تو اسے غور سے سننا ہے۔۔۔درمیان میں نہیں بولنا۔۔۔ہاں جب وہ بات مکمل کر کے چپ ہو جائے تو پھر آپ اپنی بات شروع کریں۔۔۔اپنے لہجے کو دھیما رکھنا ہے۔۔۔بلند آواز میں بات نہیں کرنی۔۔چیخنا، چلانا اور شور مچانا غیر تعلیم یافتہ لوگوں کا شیوہ ہے۔۔۔تعلیم یافتہ اور شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے کبھی بھی چیختے چلاتے نہیں۔۔بلکہ دلائل سے دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔۔۔اپنے مخالف کو جھوٹا کہنا بھی بدتمیزی ہے۔۔۔اگر وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہو اور آپ کو سو فی صد یقین ہو۔۔پھر بھی آپ اسے جھوٹا نہیں کہیں گے۔۔۔بلکہ با اخلاق طریقے سے اس سے کہیں گے ” یہ بات یوں نہیں۔۔بلکہ یوں ہے۔۔۔شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔”وغیرہ۔ یہ وہ اچھی تربیت اور اخلاقیات ہیں جو کسی بھی والدین سے اولاد کو ملنے والی سب سے بڑی دولت ہے۔۔۔ مگر۔۔۔مگر آج میں ٹی وی پر مختلف ٹاک شوز میں شامل ہمارے اہل سیاست کو اور بعض دینی پروگرام میں شامل ہمارے اہل دین کو گفتگو کرتے ہوئے۔۔۔چیختے چلاتے ہوئے۔۔اور دوسروں کی بات کاٹتے ہوئے۔۔دیکھتا ہوں۔۔۔تو سوچتا ہوں کہ یارب! کاش ک انہیں بھی ویسے ہی بزرگ اور اساتذہ ملے ہوتے۔۔تو آج یہ حال نہ ہوتا۔
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ ء نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ ء نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
تحریر : محمد حنیف سمانا
ماخذ