پارٹ 2
یہ دعوٰی کرکے اس نے پھر بلایا سب وزیروں کو
وزیروں سے کہا لکھو حکومت کے امیروں کو
مجھے دنیا میں اک جنت بنانے کی تمنا ہے
کہ ذروں کو ستاروں سے ملانے کی تمنا ہے
ملا شداد کا جب حکم دنیا کے امیروں کو
تو پھر اُن سب نے بھیجا ہر جگہ اپنے سفیروں کو
زمیں ڈھونڈی گئی سارے جہاں سارے زمانے میں
مزہ آتا ہے ایسے وقت قسمت آزمانے میں
بہت کوشش کے بعد اُن سب کی محنت رنگ یوں لائی
عرب میں اک زمیں ایسی تھی جو سب کو پسند آئی
وہ ایسی سر زمیں تھی رنگ بھی تھا لاجواب اُس کا
ہوا شداد کی جنت کے خاطر انتخاب اُس کا
یہ ایسا پیارا قصہ ہے جو روشن ہے زمانے پر
ہوا شداد بھی راضی وہاں جنت بنانے پر
اور پھر 3000 معمار کاریگر مقرر کیے گے
ہر کاریگر کے ساتھ 100 مزدور لگائے گئے
اور پھر بڑی دھوم سے جنت کا کام شروع کیا گیا
اور اُسے اِس طرح آراستہ کیا گیا۔
وہ جنت واقعی دنیا میں جنت کا نمونہ تھی
محل یاقوت و موتی کے چھتیں لعل و جواہر کی
اور اس میں خوش نما تھے باغ اور دلکش بہاریں تھیں
اور ان باغوں میں رنگ و نور کی دلکش پھواریں تھیں
اور اس میں خوبصورت پیڑ تھے چاروں طرف ایسے
کہ شاخیں سونے اور چاندی کی تھیں پتے زمرد کے
انوکھے پھول تھے ان میں تو میوے دار پھل بھی تھے
وہاں حوریں بھی تھیں ہیرے جواہر کے محل بھی تھے
زمیں صندل کی تھی اور اس پہ مٹی مشک و عنبر کی
وہ مٹی زعفرانی جس میں خوشبو تھی گُلِ در کی
بجائے پتھروں کے جابجا تھے خوشنما موتی
کہیں یاقوت اور مونگے کہیں پر بے بہا موتی
نظارے تھے بہت خوش رنگ اُس رنگین جنت کے
شراب و شہد کی نہریں تھیں اور جھرنے تھے شربت کے
کئی میدان تھے جن کی فضا تھی مہکی مہکی سی
بچھیں تھیں کرسیاں بھی ان میں سونے اور چاندی کی
وہ جنت ایسی دلکش تھی ہزاروں حسن تھے اُس کے
اور ایک ایک حسن میں گویا ہزاروں رنگ کے جلوے
بیاں کیا ہم سے ہو دنیا کی اُس فردوسِ عشرت کا
اتر آیا تھا اک ٹکڑا زمیں پر گویا جنت کا
روایت ہے کہ شداد نے اُس جنت کی خاطر
40،000 خزانے مقرر کیے تھے اور حکم دیا تھا
کہ دنیا بھر میں جس کے پاس بھی سونا اور چاندی ہو
زبردستی جھیین لی جائے۔
لکھا ہے کہ ایک مسکین غریب بڑھیا کی لڑکی کے پاس
ایک درہم چاندی تھی وہ بھی اُس غریب سے
شداد کے ظالم سپاہیوں نے چھین لی۔
سلوک ایسا کیا ان ظالموں نے ایک ضعیفہ سے
کہ چھینی اک درہم چاندی اُس مسکین بڑھیا سے
وہ چاندی اُس کی بیٹی کے گلے کا ایک زیور تھا
کہ اُس مجبور کی بیٹی کا گویا یہ مقدر تھا
لکھا ہے، ظالموں نے اِس طرح اُس پر جفا توڑی
ذرا سی چاندی اُس کے پاس تھی وہ بھی نہ چھوڑی
بہت ان ظالموں کی پیاری لڑکی نے خوشامد کی
کہا چھینو نہ میرے پاس ہے اتنی سی بس چاندی
وہ ظالم سورما اُس غم زدہ پر کیا ترس کھاتے
کہ اک مجبور کی فریاد کو خاطر میں کیا لاتے
سپابی لے چلے اُس لڑکی سے جب چھین کر چاندی
تو اُس نے اِس طرح اللہ سے فریاد و زاری کی
کرم سے اپنے میرے زخمِِ دل کو یا خدا بھرنا
کہ میں مظلوم ہوں مظلوم کا انصاف تو کرنا
جو سچ پوچھو تو آہِ بے قصاں ٹالی نہیں جاتی
کسی مظلوم کی کوئی دعا خالی نہیں جاتی
فرازِ عرش سے ٹکرائی جس دم التجا اُس کی
خدا پاک نے منظور کی وہ بددعا اُس کی
اُدھر اللہ پاک نے مظلوم کی دعا مقبول فرمائی
اِدھر شداد کو اُس کے غلاموں نے جنت تعمیر ہونے کی خوشخبری سنائی
شداد دل ہی دل میں بہت خوش تھا
لیکن اس کو کیا معلوم تھا کہ اللہ پاک کی مرضی کے آگے کسی کا کوئی چارہ نہیں ہے
جب شداد اپنی جنت دیکھنے کے لیے جارہا ہے تو کس طرح جارہا ہے۔
چلا شداد جب دیدارِ جنت کے ارادے سے
ہزاروں خوبصورت لڑکیاں، لڑکے تھے ساتھ اُس کے
خوشی تھی اُس کو جنت کی نشا تھا کامیابی کا
خبر کیا تھی اُسے یہ دن تو ہے اُس کی خرابی کا
کوئی ظالم یہاں تیرِ قصا سے بچ نہیں سکتا
جو دشمن ہے خدا کا وہ خدا سے بچ نہیں سکتا
ہوا شداد کی قسمت کا لکھا اِس طرح پورا
بڑے ارماں سے جب دروازہِ جنت پہ وہ پہنچا
کھڑا ہے کوئی پہلے سے دررِ جنت پہ یہ دیکھا
کہا شداد نے، تو کون ہے کیا نام ہے تیرا
وہ بولا میں ملک الموت ہوں پہچان لے مجھ کو
خدا کا حکم ہے جنت میں میں جانے نہ دوں تجھ کو
کہا اُس نے کہ مہلت اتنی دے میں دیکھ لوں جنت
مگر حکمِ خدا تھا موت نے اُس کو نہ دی مہلت
لکھا ہے موت جب شداد کی آئی یہ منظر تھا
کہ اک پیر اُس کا تھا جنت میں اک جنت کے باہر تھا