شداد کی جنت کا قصہ

فہیم

لائبریرین
یہ شاعری کس کی ہے یہ تو معلوم نہیں۔

لیکن میں نے اسے سنا تسلیم عارف کی آواز میں‌ ہے۔

اگر تو یہ زمرہ اس کے لیے موضوع نہ ہو تو ناظمین خود اس کو کسی دوسرے زمرے میں منتقل کردیں۔


شکریہ
 

فہیم

لائبریرین
پارٹ 1



سنو یہ واقعہ، شداد کا اور اس کی جنت کا
بڑا شہرہ تھا اس دنیا میں ظالم کی حکومت کا

وہی شداد جس نے ساری دنیا پر حکومت کی
کوئی حد ہی نہیں‌ تھی جس کی دولت اور طاقت کی

جھکائے اپنے قدموں پر شہنشاہوں کے سر اُس نے
ہزاروں لشکروں کردیا زیر و زبر اُس نے

وہ اپنے دور میں حاکم تھا ایسا بادشاہ ایسا
ہوا ہے اور نہ ہوگا کوئی بھی شداد کے جیسا

وہ ایسے جی رہا تھا اِس جگہ جیسے ہو جنت میں
ہزاروں خوبصورت عورتیں تھیں اُس کی خدمت میں

اُسے تھا شوق اونچے اونچے محلوں اور مکانوں کا
کہ وہ مالک تھا اس دنیا کے سارے ہی خزانوں کا

وہی شداد، ترکستان و ہندوستان تھا جس کا
کہ سارا ہی عجم اور سارا عربستان تھا جس کا

اُسے اللہ نے خود پر بہت مغرور جب دیکھا
کہ راہِ حق سے اور انسانیت سے دور جب دیکھا

جنابِ ہود کو اُس کی نصحیت کے لیے بھیجا
نبی کو ایک ظالم کی ہدایت کے لیے بھیجا

خدا پاک اس دنیا میں عزت جس کو دیتا ہے
حکومت، شان و شوکت اور عظمت جس کو دیتا ہے

رہے وہ حق پہ تو اس کی حفاظت بھی وہ کرتا ہے
کہ اپنے نیک بندوں سے محبت بھی وہ کرتا ہے

مگر جب کوئی بھی بندہ، بغاوت پر ہو آمادہ
جہالت پر ہو آمادہ، شرارت پر ہو آمادہ

تو رب العالمین فوراً سزا اُس کو نہیں دیتا
سزا دینے پہلے امتحاں ظالم کا ہے لیتا

وہ ہے رحمٰن اور یہ ہے تقاضا اُس کی رحمت کا
وہ ہے عادل یہ ہے انصاف اُس کی شانِ قدرت کا

کوئی کتنا بھی ظالم ہو، ستم ایجاد ہو پھر بھی
وہ اپنے وقت کا فرعون ہو شداد ہو پھر بھی

سنبھلنے کا اُسے موقع خدا پاک دیتا ہے
نہ سنبھلے تو سزا بھی اس کو عبرت ناک دیتا ہے

جبھی تو ہود اُس کی رہنمائی کے لیے آئے
وہ پیغامِ خدا پاک بھی اُس کے لیے لائے

کہا شداد سے اللہ کے پیارے پیامبر نے
ہزاروں نعمتیں بخشی ہیں تجھ کو رب اکبر نے

یہ شہرت، یہ خرانے، یہ حکومت ساری دنیا کی
یہ ہیرے موتی اور یہ شان و شوکت ساری دنیا کی

ہزاروں عورتیں، یہ حن والی پاک پن والی
کہ چاندی جیسے مکھڑے والی، کندن سے بدن والی

کنیزیں، باندیاں یہ محل یہ دربار و درباری
یہ تاج و تخت کی عظمت یہ شاہانہ فسوں کاری

اگر اقرار کرلے تو خدا اور اُس کی وحدت کا
نہ لے گا وہ قیامت میں، حساب اس مال و دولت کا

یہ ہے فرمانِ ربانی، ذرا تو غور کر اس پر
مجھے پہچان، اے شداد میں ہوں اس کا پیغمبر

اگر تو مجھ پہ اور اللہ پر ایمان لائے گا
یہ ہے اللہ کا وعدہ کہ تو جنت میں جائے گا

جنابِ ہود اسے سمجھا رہے تھے سن رہا تھا وہ
نبی تھے آپ جو فرمارہے تھے آپ سن رہا تھا وہ

دکھائی اس طرح جب راہ ظالم کو ہدایت کی
بحکمِ رب اکبر آپ نے اس کی نصحیت کی

اگر ایمان لاکر آئے گا تو شان والوں میں
تو ہوگا آج سے تیرا شمار ایمان والوں میں

پڑھے گا کلمہ تُو پھر جائیں گے دن بادشاہ تیرے
خدا کہتا ہے فوراً بخش دوں گا میں گناہ تیرے

نہ ہوگی کچھ کمی روزِ جزا بھی تیری عزت میں
کہ مر کر بھی ہمیشہ تو رہے گا باغِ جنت میں

یہ سنتے ہی وہ بولا، آ بتاؤں ہود میں تجھ کو
خدا اور اس کی جنت کی کوئی حاجت نہیں مجھ کو

نہ دے لالچ مجھے روزِ جزا اور باغِ جنت کا
کہ اندازہ نہیں‌ ہے تجھ کو میری شان و شوکت کا

میرا دعوٰی ہے اس دنیا میں‌ جنت بناؤ گا
اسی جنت میں رہ کر ایک دن کو تجھ کو دکھاؤں گا​
 

فہیم

لائبریرین
آپ لوگوں کا شکریہ

دوسرا حصہ بھی آدھا تو لکھا جاچکا ہے۔
باقی آدھا بھی لکھ کر جلد ہی پوسٹ مارتا ہوں۔
 

فہیم

لائبریرین
لیجئے یہ دوسرا اور آخری حصہ بھی حاضر ہے۔

میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح اس کی آڈیو یہاں فراہم کروں۔
کہ پڑھنے سے زیادہ سننے میں یہ قصہ اچھا لگے گا۔
 

فہیم

لائبریرین
پارٹ 2​


یہ دعوٰی کرکے اس نے پھر بلایا سب وزیروں کو
وزیروں سے کہا لکھو حکومت کے امیروں کو

مجھے دنیا میں اک جنت بنانے کی تمنا ہے
کہ ذروں کو ستاروں سے ملانے کی تمنا ہے

ملا شداد کا جب حکم دنیا کے امیروں کو
تو پھر اُن سب نے بھیجا ہر جگہ اپنے سفیروں کو

زمیں ڈھونڈی گئی سارے جہاں سارے زمانے میں
مزہ آتا ہے ایسے وقت قسمت آزمانے میں

بہت کوشش کے بعد اُن سب کی محنت رنگ یوں لائی
عرب میں اک زمیں ایسی تھی جو سب کو پسند آئی

وہ ایسی سر زمیں تھی رنگ بھی تھا لاجواب اُس کا
ہوا شداد کی جنت کے خاطر انتخاب اُس کا

یہ ایسا پیارا قصہ ہے جو روشن ہے زمانے پر
ہوا شداد بھی راضی وہاں جنت بنانے پر​


اور پھر 3000 معمار کاریگر مقرر کیے گے
ہر کاریگر کے ساتھ 100 مزدور لگائے گئے
اور پھر بڑی دھوم سے جنت کا کام شروع کیا گیا
اور اُسے اِس طرح آراستہ کیا گیا۔



وہ جنت واقعی دنیا میں جنت کا نمونہ تھی
محل یاقوت و موتی کے چھتیں لعل و جواہر کی

اور اس میں خوش نما تھے باغ اور دلکش بہاریں تھیں
اور ان باغوں میں رنگ و نور کی دلکش پھواریں تھیں

اور اس میں خوبصورت پیڑ تھے چاروں طرف ایسے
کہ شاخیں سونے اور چاندی کی تھیں پتے زمرد کے

انوکھے پھول تھے ان میں تو میوے دار پھل بھی تھے
وہاں حوریں بھی تھیں ہیرے جواہر کے محل بھی تھے

زمیں صندل کی تھی اور اس پہ مٹی مشک و عنبر کی
وہ مٹی زعفرانی جس میں خوشبو تھی گُلِ در کی

بجائے پتھروں کے جابجا تھے خوشنما موتی
کہیں یاقوت اور مونگے کہیں پر بے بہا موتی

نظارے تھے بہت خوش رنگ اُس رنگین جنت کے
شراب و شہد کی نہریں تھیں اور جھرنے تھے شربت کے

کئی میدان تھے جن کی فضا تھی مہکی مہکی سی
بچھیں تھیں کرسیاں بھی ان میں سونے اور چاندی کی

وہ جنت ایسی دلکش تھی ہزاروں حسن تھے اُس کے
اور ایک ایک حسن میں گویا ہزاروں رنگ کے جلوے

بیاں کیا ہم سے ہو دنیا کی اُس فردوسِ عشرت کا
اتر آیا تھا اک ٹکڑا زمیں پر گویا جنت کا​


روایت ہے کہ شداد نے اُس جنت کی خاطر
40،000 خزانے مقرر کیے تھے اور حکم دیا تھا
کہ دنیا بھر میں جس کے پاس بھی سونا اور چاندی ہو
زبردستی جھیین لی جائے۔
لکھا ہے کہ ایک مسکین غریب بڑھیا کی لڑکی کے پاس
ایک درہم چاندی تھی وہ بھی اُس غریب سے
شداد کے ظالم سپاہیوں نے چھین لی۔



سلوک ایسا کیا ان ظالموں نے ایک ضعیفہ سے
کہ چھینی اک درہم چاندی اُس مسکین بڑھیا سے

وہ چاندی اُس کی بیٹی کے گلے کا ایک زیور تھا
کہ اُس مجبور کی بیٹی کا گویا یہ مقدر تھا

لکھا ہے، ظالموں نے اِس طرح اُس پر جفا توڑی
ذرا سی چاندی اُس کے پاس تھی وہ بھی نہ چھوڑی

بہت ان ظالموں کی پیاری لڑکی نے خوشامد کی
کہا چھینو نہ میرے پاس ہے اتنی سی بس چاندی

وہ ظالم سورما اُس غم زدہ پر کیا ترس کھاتے
کہ اک مجبور کی فریاد کو خاطر میں‌ کیا لاتے

سپابی لے چلے اُس لڑکی سے جب چھین کر چاندی
تو اُس نے اِس طرح اللہ سے فریاد و زاری کی

کرم سے اپنے میرے زخمِِ دل کو یا خدا بھرنا
کہ میں مظلوم ہوں مظلوم کا انصاف تو کرنا

جو سچ پوچھو تو آہِ بے قصاں ٹالی نہیں جاتی
کسی مظلوم کی کوئی دعا خالی نہیں جاتی

فرازِ عرش سے ٹکرائی جس دم التجا اُس کی
خدا پاک نے منظور کی وہ بددعا اُس کی

اُدھر اللہ پاک نے مظلوم کی دعا مقبول فرمائی
اِدھر شداد کو اُس کے غلاموں نے جنت تعمیر ہونے کی خوشخبری سنائی
شداد دل ہی دل میں بہت خوش تھا
لیکن اس کو کیا معلوم تھا کہ اللہ پاک کی مرضی کے آگے کسی کا کوئی چارہ نہیں ہے
جب شداد اپنی جنت دیکھنے کے لیے جارہا ہے تو کس طرح جارہا ہے۔


چلا شداد جب دیدارِ جنت کے ارادے سے
ہزاروں خوبصورت لڑکیاں، لڑکے تھے ساتھ اُس کے

خوشی تھی اُس کو جنت کی نشا تھا کامیابی کا
خبر کیا تھی اُسے یہ دن تو ہے اُس کی خرابی کا

کوئی ظالم یہاں تیرِ قصا سے بچ نہیں سکتا
جو دشمن ہے خدا کا وہ خدا سے بچ نہیں‌ سکتا

ہوا شداد کی قسمت کا لکھا اِس طرح پورا
بڑے ارماں سے جب دروازہِ جنت پہ وہ پہنچا

کھڑا ہے کوئی پہلے سے دررِ جنت پہ یہ دیکھا
کہا شداد نے، تو کون ہے کیا نام ہے تیرا

وہ بولا میں ملک الموت ہوں پہچان لے مجھ کو
خدا کا حکم ہے جنت میں میں جانے نہ دوں تجھ کو

کہا اُس نے کہ مہلت اتنی دے میں دیکھ لوں جنت
مگر حکمِ خدا تھا موت نے اُس کو نہ دی مہلت

لکھا ہے موت جب شداد کی آئی یہ منظر تھا
کہ اک پیر اُس کا تھا جنت میں اک جنت کے باہر تھا​
 

فہیم

لائبریرین
لیجئے جو کوئی اسے سننا چاہے۔
اس ربط سے سے ڈاؤنلوڈ کرکے سن سکتا ہے۔
اس کی ویڈیو تو کوئی 75 ایم بھی کی تھی۔
لیکن آڈیو میں کنورٹ کرنے کےبعد حجم صرف 13 ایم بی رہ گیا ہے۔

آواز تسلیم عارف کی ہے۔
 
Top