شدم رسوا کہ مےبینم۔۔بآوازِ ترانہ سرائے ایرانی داؤد آزاد

ترانہ:شدم رسوا
ترانہ سرا:داؤد آزاد
شاعر:دکتر جواد نوربخش کرمانی
زبان:فارسی
(یہ گانا ایرانی فارسی میں گایا گیا ہے، لیکن مجھے فارسی میں چونکہ افغان دری زیادہ محبوب ہے، لہٰذا میں نے اسے افغان فارسی کے انداز میں لکھا ہے)

شدم رسوا كہ مے بینم توام دیوانه مے خواہی
بہ شمعت سوزم و دانم توام پروانہ مے خواہی

میں رسوا ہوا کہ دیکھتا ہوں کہ تو چاہتا ہے کہ میں دیوانہ ہوں۔میں تیرے شمع میں جلا اور جانتا ہوں کہ تو چاہتا ہے کہ میں پروانہ چاہتا ہوں(تاکہ تیرے شمع میں سوختگی کا شکار ہوجاؤں)
نی ام عاقل نی ام عاشق كی ام؟ ہیچم تو آگاہی
كہ گاہے آشنا خواہی گہے بیگانہ مے خواہی

میں نہ عاقل ہوں نہ عاشق۔میں کون ہوں؟بےقیمت ہوں، تو آگاہ ہے، کیونکہ گاہے تو خواہاں ہے کہ آشنا بنوں اور کبھی بے بیگانہ بنوں(مجھے گوناگوں حیثیتوں میں بدلنا چاہتا ہے گویا میری کوئی قیمت نہیں)۔
كجا پویم كرا جویم ہمے دانم ہمے گویم
كہ خود مجنون و لیلائی مرا افسانہ مے خواہی

کہاں جاؤں، کسے تلاش کروں، میں جانتا ہوں، (اور یہی) کہتا ہوں کہ تو خود ہی مجنون اور لیلا ہے، تُو مجھے (فقط) ایک افسانہ بنانے کا خواہاں ہے۔
تو ہستی درد و درمانم توئی سرمایہء جانم
مرا اے گنج پنہانم چرا ویرانہ مےخواہی

تو ہی میرا درد اور درماں ہے، تو میرا سرمایہء جاں ہے۔ اے پنہاں خزانہ! مجھے کیوں ویراں کرنا چاہتا ہے؟
بساطِ آفرینش گشت دامِ راه مشتاقان
نمے بینم دگر صیدے كہ گویم دانہ مے خواہی

آفرینش کا بستر تیرے عاشقوں کی راہ میں جال بن گیا۔مجھے کوئی اور شکار نظر نہیں آتا کہ گویا (اس کے شکار کو بطورِ) دانہ چاہتا ہو۔
تو را اے" نوربخش" از تو بہ جز حسرت چہ پیدا شد
كہ گہ سر در بیابانی گہے كاشانہ مے خواہی

اے نوربخش! تجھ سے بجز حسرت کچھ ظاہر نہیں ہوا کہ گاہے تو بیاباں میں سرگرداں رہتا ہے اور گاہے کاشانہ نشینی کا خواہاں ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:
ترانہ:شدم رسوا
ترانہ سرا:داؤد آزاد
شاعر:دکتر جواد نوربخش کرمانی
زبان:فارسی
(یہ گانا ایرانی فارسی میں گایا گیا ہے، لیکن مجھے فارسی میں چونکہ افغان دری زیادہ محبوب ہے، لہٰذا میں نے اسے افغان فارسی کے انداز میں لکھا ہے)

شدم رسوا كہ مے بینم توام دیوانه مے خواہی
بہ شمعت سوزم و دانم توام پروانہ مے خواہی

میں رسوا ہوا کہ دیکھتا ہوں کہ تو چاہتا ہے کہ میں دیوانہ ہوں۔میں تیرے شمع میں جلا اور جانتا ہوں کہ تو چاہتا ہے کہ میں پروانہ چاہتا ہوں(تاکہ تیرے شمع میں سوختگی کا شکار ہوجاؤں)
نی ام عاقل نی ام عاشق كی ام؟ ہیچم تو آگاہی
كہ گاہے آشنا خواہی گہے بیگانہ مے خواہی

میں نہ عاقل ہوں نہ عاشق۔میں کون ہوں؟بےقیمت ہوں، تو آگاہ ہے، کیونکہ گاہے تو خواہاں ہے کہ آشنا بنوں اور کبھی بے بیگانہ بنوں(مجھے گوناگوں حیثیتوں میں بدلنا چاہتا ہے گویا میری کوئی قیمت نہیں)۔
كجا پویم كرا جویم ہمے دانم ہمے گویم
كہ خود مجنون و لیلائی مرا افسانہ مے خواہی

کہاں جاؤں، کسے تلاش کروں، میں جانتا ہوں، (اور یہی) کہتا ہوں کہ تو خود ہی مجنون اور لیلا ہے، تُو مجھے (فقط) ایک افسانہ بنانے کا خواہاں ہے۔
تو ہستی درد و درمانم توئی سرمایہء جانم
مرا اے گنج پنہانم چرا ویرانہ مےخواہی

تو ہی میرا درد اور درماں ہے، تو میرا سرمایہء جاں ہے۔ اے پنہاں خزانہ! مجھے کیوں ویراں کرنا چاہتا ہے؟
بساطِ آفرینش گشت دامِ راه مشتاقان
نمے بینم دگر صیدے كہ گویم دانہ مے خواہی

آفرینش کا بستر تیرے عاشقوں کی راہ میں جال بن گیا۔مجھے کوئی اور شکار نظر نہیں آتا کہ گویا (اس کے شکار کو بطورِ) دانہ چاہتا ہو۔
تو را اے" نوربخش" از تو بہ جز حسرت چہ پیدا شد
كہ گہ سر در بیابانی گہے كاشانہ مے خواہی

اے نوربخش! تجھ سے بجز حسرت کچھ ظاہر نہیں ہوا کہ گاہے تو بیاباں میں سرگرداں رہتا ہے اور گاہے کاشانہ نشینی کا خواہاں ہوتا ہے۔


قدرے اصلاحات کے بعد دوبارہ اشتراک‌گذاری کر رہا ہوں:

شدم رسوا كه می‌بینم توام دیوانه می‌خواهی
به شمعت سوزم و دانم توام پروانه می‌خواهی

میں رسوا ہوا کہ دیکھتا ہوں کہ تو چاہتا ہے کہ میں دیوانہ ہوں۔میں تیرے شمع میں جلتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو چاہتا ہے کہ میں پروانہ ہوجاوٗں (تاکہ تیرے شمع میں سوختہ ہوجاؤں)

نی‌ام عاقل نی‌ام عاشق كی‌ام؟ ہیچم تو آگاهی
كه گاهی آشنا خواهی گهی بیگانه می‌خواهی

میں نہ عاقل ہوں نہ عاشق۔میں کون ہوں؟ کچھ بھی نہیں، تو آگاہ ہے، کیونکہ گاہے تو آشنا چاہتا ہے اور گاہے تو بےگانہ چاہتا ہے۔(مجھے گوناگوں حیثیتوں میں بدلنا چاہتا ہے گویا میری کوئی قیمت نہیں)۔

كجا پویم كرا جویم همی‌دانم همی‌گویم
كه خود مجنون و لیلایی مرا افسانه می‌خواهی

کہاں ڈھونڈوں، کسے تلاش کروں، میں جانتا ہوں، (اور یہی) کہتا ہوں کہ تو خود ہی مجنون اور لیلا ہے، تُو مجھے (فقط) ایک افسانہ (کی صورت میں) چاہتا ہے (یعنی ایک موہوم و معدوم سی چیز، جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتی)۔

تو هستی درد و درمانم تویی سرمایه‌یِ جانم
مرا ای گنجِ پنهانم چرا ویرانه می‌خواهی

تو میرا درد اور درماں ہے، تو میرا سرمایہء جاں ہے۔ اے میرے پنہاں خزانہ! مجھے کیوں ویرانہ بنانا چاہتا ہے؟

بساطِ آفرینش گشت دامِ راهِ مشتاقان
نمی‌بینم دگر صیدی كه گویم دانه می‌خواهی

بساطِ آفرینش عاشقوں کے لئے دامِ راہ بن گئی۔میں کوئی اور شکار دیکھتا نہیں کہ (جس پر) کہوں کہ (شکار کو جال میں پھنسانے کے لئے) تو دانہ چاہتا ہے۔

تو را ای " نوربخش" از تو به‌جز حسرت چه پیدا شد؟
كه گه سر در بیابانی گهی كاشانه می‌خواهی

اے نوربخش! تجھ سے بجز حسرت کچھ ظاہر نہیں ہوا کہ گاہے تو کسی بیاباں میں سرگرداں رہنا چاہتا ہے اور گاہے کاشانہ چاہتا ہے۔
 
Top