ردیف ۔ (ا)
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِتصویر کا
مصنف مرحوم ایک خط میں خود اس مطلع کے معنی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں ، ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِتصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے ، غرض مصنف کی یہ ہے کہ ہستی میں مبداء حقیقی سے جدائی و غیریت ہو جاتی ہے اور اس معشوق کی مفارقت ایسی شاق ہے کہ نقش تصویر تک اُس کا فریادی ہے اور پھر تصویر کی ہستی کوئی ہستی نہیں ، مگر فنا فی اللہ ہونے کی اُسے بھی آرزو ہے کہ اپنی ہستی سے نالاں ہے ، کاغذی پیرہن فریادی سے کنایہ فارسی میں بھی ہے اور اُردو میں ، میر ممنونؔ کے کلام میں اور مومنؔ خاں کے کلام میں بھی میں نے دیکھا ہے ، مگر مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا ، اس شعر میں جب تک کوئی ایسا لفظ نہ ہو جس سے فنا فی اللہ ہونے کا شوق اور ہستی اعتباری سے نفرت ظاہر ہو اس وقت تک اسے بامعنی نہیں کہہ سکتے ، کوئی جان بوجھ کر تو بے معنی کہتا نہیں یہی ہوتا ہے کہ وزن و قافیہ کی تنگی سے بعض بعض ضروری لفظوں کی گنجائش نہ ہوئی اور شاعر سمجھا کہ مطلب ادا ہو گیا تو جتنے معنی کہ شاعر کے ذہن میں رہ گئے ، اسی کو المعنی فی بطن الشاعر کہنا چاہئے ، اس شعر میں مصنف کی غرض یہ تھی کہ نقش تصویر فریادی ہے ، ہستی بے اعتبار و بے توقیر کا اور یہی سبب ہے کاغذی پیرہن ہونے کا ہستی بے اعتبار کی گنجائش نہ ہوسکی اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا ہستی کے بدلے شوخی تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا آخر خود ان کے منہ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے ۔
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
کاوِ کاوِ کھودنا اور کریدنا مطلب یہ ہے کہ تنہائی و فراق میں سخت جانی کے چلتے اور دم نہ نکلنے کے ہاتھوں جیسی جیسی کاوشیں اور کاہشیں مجھ پر گذر جاتی ہیں اُسے کچھ نہ پوچھ رات کا کاٹنا اور صبح کرنا جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں یعنی جس طرح جوئے شیر لانا فرہاد کے لئے دُشوار کام تھا
اسی طرح صبح کرنا مجھے بہت ہی دُشوار ہے ۔ اس شعر میں شاعر نے اپنے تئیں کوہکن اور اپنی سخت جانی شب ہجر کو کوہ اور سپیدۂ صبح کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے ۔
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہئے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
دم کے معنی سانس اور باڑھ اور یہاں دونوں معنی تعلق و مناسبت رکھتے ہیں کہ سینۂ شمشیر کہا ہے ، مطلب یہ ہے کہ میرے اشتیاق قتل میں ایسا جذب و کشش ہے کہ تلوار کے سینہ سے اس کا دم باہر کھینچ آیا ۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
یعنی میری تقریر کو جس قدر جی چاہے سنو ، اُس کے مطلب کو پہنچنا محال ہے ، اگر شوق آگہی نے صیاد بن کر شنیدن کا جال بچھایا بھی تو کیا ، میری تقریر کا مطلب طائر عنقا ہے جو کبھی اسیر دام نہیں ہونے کا غرض یہ ہے کہ میرے اشعار سراسر اسرار ہیں ۔
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
مضطرب اور بے تاب کو آتش زیرپا کہتے ہیں اور آتش جب دیرپا ہوئی تو زنجیرپا گویا موئے آتش دیدہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ بال آگ کو دیکھ کر پیچ دار ہو جاتا ہے اور حلقۂ زنجیر کی سی ہیئت پیدا کرتا ہے ۔
_______
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد اسدؔ غم خوارِ جانِ دردمند آیا
مشہور ہے کہ الماس کے کھالینے سے دل و جگر زخمی ہو جاتے ہیں تو جو شخص کہ زخم دل و جگر کا شائق ہے ، الماس اُس کے لئے ارمغاں ہے ، یہ سارا شعر مبارکبادی کا مضمون ہے ، کہتا ہے کہ ایسی ایسی نعمتیں اور ہدیے حسن و عشق نے مجھے دئیے ، وہ میرا غم خوار ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ غم خوار سے ناصح مراد ہے اور مبارکباد تشنیع کی راہ سے ہے ۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
یعنی ایک قیس کا نام تو صحرا نوردی میں ہو گیا ، اس کے سوا کسی اور کی بہتری صحرائے حاسدِچشم سے نہ دیکھی گئی ، گویا کہ صحرا باوجود وسعتِچشم حاسد کی سی تنگی رکھتا ہے ، مگر یہاں شاید کے معنی رکھتا ہے ۔
آشفتگی نے نقش سویدا کیا دُرست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
داغ سویدائے دل سے ہمیشہ دود آہ اُٹھ اُٹھ کر پھیلا کرتا ہے ، اس سے ظاہر ہوا کہ سویدائے دل کی حلقت آشفتگی سے ہے ، معنوی تعقید اس شعر میں یہ ہو گئی ہے کہ پریشانی کی جگہ آشفتگی کہہ گئے ہیں ، غرض یہ تھی کہ سویدائے دل سے دود پریشان اُٹھا کرتا ہے اور اس کا سرمایہ و حاصل جو کچھ ہے یہی دود آہ ہے جو ایک پریشان چیز ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ نقش سویدا خدا نے محض پریشانی ہی سے بنایا ہے اور یہ داغ دود آہ سے پیدا ہوا ہے ، جبھی تو اس سے ہمیشہ دُھواں اُٹھا کرتا ہے ۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
یعنی زمانہ عیش اس طرح گذر گیا جیسے خواب دیکھا تھا ، نہ اب لطفِوصل ہے ، نہ صدمۂ ہجر کا مزہ ہے ، یوں سمجھو کہ مصنف نے گویا اس شعر کو یوں کہا ہے : ’’ زمانہ عیش نہ تھا بلکہ تھا خواب میں خیال کو الخ ‘‘ ۔
پڑھتا ہوں مکتبِغم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
غم وہ کیفیتِنفسانی ہے جو مطلوب کے فوت ہو جانے سے پیدا ہو ، مطلب یہ ہے کہ مکتبِغم میں میرا سبق یہ ہے کہ رفت گیا اور بود تھا ، یعنی زمانہ عیش کبھی تھا اور اب جاتا رہا ۔
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِوجود تھا
یعنی مرجانے ہی سے عیبِبرہنگی مٹا نہیں تو ہر لباس میں میں ننگِہستی و وجود تھا ، ننگِوجود ہونے کو برہنگی سے تعبیر کیا ہے ، فقط لفظ کا متشابہ مصنف کے ذہن کو اُدھر لے گیا۔
تیشہ بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
کوہ کن پر طعن ہے کہ رسم و راہ کی پابندی جو دیوانگی و آزادی کے خلاف ہے ، اس قدر اس کو تھی کہ جب تیشہ سے سر پھوڑا تو کہیں مرا ، اگر نشہ عشق کامل ہوتا تو بغیر سر پھوڑے مرگیا ہوتا ، خمارِ نشہ اُترنے سے جو بے کیفیتی اور بے مزگی ہوتی ہے ، اُسے کہتے ہیں رسوم و قیود کو بے مزہ و بے لطف ظاہر کرنے کے لئے اُسے خمار سے تشبیہ دی ہے ۔
_______
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مدعا پایا
یعنی تمہاری چتون یہ کہہ رہی ہے کہ تیرا دل کہیں پڑا پائیں گے تو پھر ہم نہ دیں گے ، یہاں دل ہی نہیں ہے جسے ہم کھوئیں اور تمہیں پڑا ہوا مل جائے ، مگر اس لگاوٹ سے ہم سمجھ گئے دل تمہارے ہی پاس ہے ۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
یعنی زیست میرے لئے ایک درد تھی کہ عشق اُس کی دوا ہو گیا اور خود وہ درد بے دوا ہے ۔
دوست دارِ دُشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
یعنی آہ میں اثر نہیں ، نالہ میں رسائی نہیں ، دل پر بھروسہ نہیں کہ وہ دُشمن کا دوست ہے ۔
سادگی و پرکاری بے خودی و ہوشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
یعنی حسینوں کا تغافل کرنا اور عشاق کے حال سے بے خبر بننا یہ فقط عشاق کا دل دیکھنے کے لئے اور جرأت آزمانے کے واسطے ہے ، اصل میں پرکاری و ہوشیاری ہے اور ظاہر میں سادگی و بے خبری ہے ۔
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
ایک عاشق بے دل غنچہ پر یہ گمان کرتا ہے کہ یہی میرا دل ہے جو مدت سے کھویا ہوا تھا ۔
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
ڈھونڈا اور پایا کا مفعول بہ دل ہے ۔
شورپند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
’ آپ ‘ کا اشارہ ناصح کی طرف ہے اور اس میں تعظیم نکلتی ہے اور مقصود تشنیع ہے اور مزہ اور شور نمک کے مناسبات میں سے ہیں ، مصنف نے ’ مزہ ‘ کو قافیہ کیا اور ہائے مختفی کو الف سے بدلا ، اُردو کہنے والے اس طرح کے قافیہ کو جائز سمجھتے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ قافیہ میں حروفِملفوظہ کا اعتبار ہے ، جب یہ ’ہ ‘ ملفوظہ نہیں بلکہ ’ ز ‘ کے اشباع سے الف پیدا ہوتا ہے تو پھر کون مانع ہے اُسے حرف روی قرار دینے سے ، اسی طرح سے فوراً اور دُشمن قافیہ ہو جاتا ہے ، گو رسم خط اس کے خلاف ہے ، لیکن فارسی والے مزہ اور دوا کا قافیہ نہیں کرتے اور وجہ اُس کی یہ ہے کہ وہ ہائے مختفی کو کبھی حرف روی ہونے کے قابل نہیں جانتے ۔
_______
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا
یعنی چپکے چپکے کس طرح جلا کیا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی ، ’ گویا ‘ کا لفظ خاموش کی مناسبت سے ہے ، ’ مانند ‘ کا لفظ بول چال میں نہیں ہے ، مگر شعراء نظم کیا کرتے ہیں ۔
دل میں ذوقِ وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
یعنی رشک کی آگ ایسی تھی کہ معشوق کو دل سے بھلادیا اور اس کا غیر سے ملنا دیکھ کر ذوقِ وصل جاتا رہا ۔ گھر سے دل مراد ہے اور آگ سے رشکِرقیب ۔
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
مصنف کی غرض یہ ہے کہ میری نیستی و فنا یہاں تک پہنچی کہ اب میں عدم میں بھی نہیں ہوں اور اس سے آگے نکل گیا ہوں ، ورنہ جب تک میں عدم میں تھا ، جب تک میری آہ سے عنقا کا شہپر اکثر جل گیا ہے ، عنقا ایک طائر معدوم کو کہتے ہیں اور جب وہ معدوم ہوا تو وہ بھی عدم میں ہوا اور ایک ہی میدان میں آہِ آتشیں و بالِ عنقا کا اجتماع ہوا ، اسی سبب سے آہ سے شہپر عنقا جل گیا ، لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ میں عدم سے بھی باہر ہوں ، اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ میں نہ موجود ہوں ، نہ معدوم ہوں اور نقیضین مجھ سے مرتفع ہیں ، شاید ایسے ہی اشعار پر دلی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ غالب شعر بے معنی کہا کرتے ہیں اور اُس کے جواب میں مصنف نے یہ شعر کہا
نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
پرے کا لفظ اب متروک ہے ، لکھنؤ میں ناسخؔ کے زمانہ سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے ، لیکن دلی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں ، میں نے اس امر میں نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے تحقیق چاہی تھی ، اُنھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے ( یعنی لکھنؤ والوں کی خاطر سے ) اس لفظ کو چھوڑ دیا ، مگر یہ کہا کہ مومنؔ خاں صاحب کے اس شعر میں
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منھ
اے شبِہجر تیرا کالا منھ
اگر پرے کی جگہ اُدھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے ، میں نے کہا کہ ’ پرے ہٹ ‘ بندھا ہوا محاورہ ہے ، اس میں ’ پرے ‘ کی جگہ ‘ اُدھر ‘ کہنا محاورہ میں تصرف کرنا ہے ، اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ پہلے جس محل پر ’ چل پرے ہٹ ‘ بولتے تھے اب اُسی محل پر دور بھی محاورہ ہو گیا ہے ، اس توجیہ کو پسند کیا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا : ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلا منھ ‘ اور تحسین کی ۔
عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
یعنی یہ کہاں ممکن ہے کہ اپنی طبیعت کی گرمی ظاہر کرسکوں فقط دشت نوردی کا ذرا خیال کیا کہ صحرا میں آگ لگ اُٹھی اور یہ مبالغہ غیر علوی ہے کہ طبیعت میں ایسی گرمی ہو کہ جس چیز کا خیال آئے وہ چیز جل جائے عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہیں حالاں کہ جوہر کے مناسبات میں سے عرض بہ تحریک ہے نہ بہ سکون ۔
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا
دل کو کارفرما بنایا ہے اور داغوں کو چراغاں لفظ چراغاں کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہئے ۔
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب ؔکہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاک اہل دُنیا جل گیا
طرزِ تپاک سے تپاک ظاہری و نفاق باطنی مراد ہے اور افسردگی اور جلنا اس کے مناسبات سے ہیں ۔
شوق ، ہر رنگ رقیبِسر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں نکلا
یعنی مجنوں کی تصویر بھی کھنچتی ہے تو ننگی ہی کھنچتی ہے ، اس حال میں بھی عشق دُشمن سر و سامان ہے ، شوق سے مراد عشق ہے ، ہر رنگ کے معنی ہر حال میں اور ہر طرح سے اگر یوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقیب سر و ساماں نکلا جب بھی مصرع موزوں تھا ، لیکن تصویر کے مناسبات میں سے رنگ کو سمجھ کر ہر رنگ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کیا ، مناسبات کے لئے محاورہ کا لفظ چھوڑ دینا اچھا نہیں اور رقیب کے معنی دُشمن کے لئے ہیں ۔
زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
یعنی زخم دل نے بھی کچھ تنگی دل کی تدبیر نہ کی اور زخم سے بھی دلِ تنگی کی شکایت دفع نہ ہوئی کہ وہی تیر جس سے زخم لگا وہ میری تنگیٔدل سے ایسا سراسیمہ ہوا کہ پھڑکتا ہوا نکلا تیر کے پر ہوتے ہیں اور اُڑتا ہے ، اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِمرغ ہے ، تیر کے لئے بہت مناسب ہے ، مصنف مرحوم لکھتے ہیں یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے ، جیسا کہ اس شعر میں
نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں
وہ زخم تیغ ہے جس کو دل کشا کہئے
یعنی زخم تیر کی توہین بسبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بسبب ایک طاق سا کھل جانے کے ۔
بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
یعنی تیری بزم سے نکلنا پریشانی کا باعث ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل اور حرفِتردید محذوف ہے ، یعنی پھولوں کی مہک ہو یا شمعوں کا دُھواں ہو یا عشاق کی فغاں ہو ۔
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بقدرِلب و دنداں نکلا
یعنی جس میں جتنی قابلیت تھی اُس نے اُسی قدر مجھ سے لذتِدرد کو حاصل کیا ، ورنہ یہاں کچھ کمی نہ تھی ، کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کاہے ۔
تھی نو آموز فنا ہمت دُشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
اے ہمت تو باوجود یہ کہ ابھی نو آموز فنا ہے ، کس آسانی سے مرحلۂ فنا کو طے کرگئی ، ہمت کو دُشوار پسند کہہ کر یہ مطلب ظاہر کرنا منظور ہے کہ میری ہمت خوف و خطر میں مبتلا ہونے کو لذت سمجھتی ہے یہ کام اشارہ ہے فنا کی طرف یعنی ہم جانتے تھے کہ جان دینا بہت مشکل کام ہے مگر افسوس ہے کہ وہ بھی آساں نکلا ۔
دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا غالبؔ
آہ ! جو قطرہ نہ نکلا ، تھا سو طوفاں نکلا
یعنی جس گریہ پر میرا ضبط ایسا غالب تھا کہ میں اُسے قطرہ سے کم سمجھتا تھا ، اب وہ طوفان بن کر مجھ پر غالب ہو گیا ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آنسو کا جو قطرہ کہ آنکھ سے نکلا نہ تھا وہ اب طوفان ہو گیا ۔
_______