دائم
محفلین
شرح دیوانِ غالب [اردو]
غزل نمبر ☜ 01، شعر نمبر 01
نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر ہے
لغات :
نقش : علامت، نشان، مورت، جنسِ مرئی، عبارت، نوشتہ
فریادی : لُغۃً جُویائے عدل، ببانگِ دُہل پکارنے والا، نالندہ، اس لفظ کے آخر پہ یائے فاعلی ہے۔
شوخی : چُہل، طراری، اضطراب، براقی
تحریر : مضمون، عبارت، اندازِ نگارش
شوخیءِ تحریر : بدیع الطرزِ تخلیق
کاغذی : وہ شے جس میں کاغذ کی آمیزش ہو یا کلیۃً وہ کاغذ سے بنی ہو۔ اس لفظ کے آخر پہ یائے نسبتی ہے۔
پیرہن : لباس، پوشاک، حصار، محور
پیکرِ تصویر : بجنسہٖ تصویر، مراد عالَمِ کُل کا وجودِ ظاہری۔
شرح :
میرے نزدیک ”فریادی“ ترکیبِ کلام میں ذوالحال واقع ہوا ہے اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر حال ہے۔ یعنی عالمِ کُل ازروئے ظاہری ہیئت کاغذی ملبوس میں ہے، کس کے دستِ تخلیق کی ساختگی کا فریادی ہے؟ لیکن اگر نقش کو ”قائل“ اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر ”مقولہ“ مانیں تو بایں صورت فریادی ”مبتداء“ اور دوسرا مصرع ”خبر“ ہوگا
سہا مجددی نے کیا خوب صورت لکھا ہے کہ یہ جسمِ فنا پیوستہ، یہ ہیولائے ضعیف البنیان، یہ قالبِ خاکی، یہ کالبدِ عنصری (تصویر بہ پیرہنِ کاغذی) کس کے دستِ رنگین کی صنعت طرازی و شوخیءِ تحریر کا مخلوق و مصنوع ہے؟ یعنی یہ جہانِ موجود کس کے کرشمۂ تخلیق پر داد خواہ ہے، کس کی اعجازِ خلّاقی کی دلیل ہے؟ واضح رہے کہ یہ دلیل ثبوتِ بدیہی کی قبیل سے ہے۔ اس استفہامِ تجاہُلانہ ( ارادتاً عدمِ واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرنا) جملے کا جواب مقدر (محذوف) یعنی محذوفِ منوی ہے اور جواب وضاحت کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ مطلع حمدیہ ہے۔
معنیٰ کی روح پہلے مصرعے ہی میں پنہاں ہے، دوسرا مصرعہ صرف داد خواہ کی ہیئتِ کذائی کا بیان ہے کہ ہستی (وجودِ شے) اگر چہ مثلِ تصاویر اعتبارِ محض (یعنی محض نظری و قیاسی) ہے، موجبِ رنج و آزار ہے۔ کاغذی پیرہن : لباس کا کاغذی ہونا عدمِ ثبات سے کنایہ ہے۔ اسی مضمون کا ایک اور شعر دیکھیں کہ :
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
دنیا کا وجود حقیقی نہیں بلکہ اس کی ہستی خالص اعتباری ہستی ہے۔ یہاں سے غالب کے فلسفۂ وحدۃ الوجود پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اور بقولِ مولانا غلام رسول مہرؔ مرزا توحیدِ وجودی کے قائل تھے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے۔ نیز نکاتِ غالب مرتبہ نظامی بدایونی میں غالب کا یہ قول نقل ہے کہ : ”میں موحّد خالص اور مؤمنِ کامل ہوں، زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ لا مؤثر فی الوجود اللہ سمجھے ہوئے ہوں۔ (صفحہ 05، نظامی پریس، بدایوں) لیکن یاد رہے کہ غالب باقاعدہ صوفی نہیں، بلکہ انھوں نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا ہے۔ جیسا کہ حالیؔ نے ”یادگارِ غالب“ میں لکھا ہے۔
مرزا عزیز احمد بیگ المتخلص بہ مرزاؔ سہارن پوری نے دیوانِ غالب کی تقریباً تمام غزلیات کی تضمین لکھی ہے۔پرلطف بات یہ کہ اس مطلع کی تضمین بہ صورتِ مخمّس میں انھوں نے اس کا مکمل معنیٰ بھی بیان کر دیا ہے، لکھتے ہیں کہ :
کیا یہ منشا تھا ازل میں کاتبِ تقدیر کا؟
ذرہ ذرہ ہو فنا اک روز اس تعمیر کا
رنگ جھلکایا ہے کیوں ہر چیز میں تغییر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
(روحِ کلامِ غالب المعروف تفسیر کلامِ غالب، مرزا عزیز احمد بیگ، صفحہ 01، مطبع نظامی پریس بدایوں)
غالب مرحوم نے اس شعر کا معنیٰ عودِ ہندی میں یوں بیان کیا ہے :
ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے
(خط بہ بنام عبد الرزاق شاکر گورکھپوری، صفحہ 153، مطبع نولکشور لکھنؤ)
اگرچہ مرزا نے معنیٰءِ شعر بہ زبانِ شاعر کی رسم کو اپنے تئیں پورا کیا، لیکن یہ شعر کم از کم دس سے زائد مختلف معانی کا متحمل ہے، جس کی تفصیل مناسب نہیں۔
کاغذی پیرہن سے متعلق طباطبائی کا کہنا کہ ”مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا“ سراسر عدمِ تحقیق اور سطحیت کا نتیجہ ہے۔ اطالوی مفکر کروشے (Benedetto Croce) کے نظریات سے ایک اہم نکتہ مستفاد ہوتا ہے کہ منصفانہ تنقید (و تشریح) کی راہ میں حائل عناصر جلد بازی، قلتِ تدبر، نظریاتی تعصب اور ذاتی پسندیدگی وغیرہ ہیں۔ یعنی کسی فن پارے کی غیر منصفانہ شرح و نقد کے اسباب یہ یہ ہو سکتے ہیں۔
فارسی شاعری میں اس کے نظائر تلاشے جائیں تو براہین کا قلعہ تعمیر ہو سکتا ہے۔ دو مثالیں حسبِ ذیل ہیں :
تاکہ دست قدر ما زدست تو بر بود قلم
کاغذ پیرہن از دست قدر باد مراد
بابا افغانی (بمدح الصدر العالم نورالدین المنش)
کاغذی جامہ بپوشید او بدرگاہ آمد
زادۂ خاطرِ من تا بدہی داد مرا
کمال اسماعیلی
اشکال : اس مکتوب سے البتہ واضح ہے کہ غالب کا ما فی الضمیر یہی ہے، اس لیے یہاں رہوارِ توجیہ و تعلیل دوڑانے سے بہتر ہے اسی مفہوم کو سمجھا جائے جو غالب مرحوم نے خود بیان کیا ہے۔لیکن یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شارحِ غالب علامہ نظم طباطبائی نے کس اشکال کی بنا پہ شعر کو بامعنیٰ کہنے سے احتیاط کی ہے؟
جواب : مرزا غالب کا ما فی الضمیر اگرچہ مکتوب سے واضح ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم انھی مفاہیم کا سہارا لیں جو خود مرزا نے بیان کیے ہیں تو ان سے بہتر مفاہیم جو متن سے نکل سکتے ہیں، وہ ضائع ہو جائیں گے۔
ششماہی مجلہ جہانِ غالب، مدیر ڈاکٹر عقیل احمد کے صفحہ نمبر 59 پہ مضمون نگار ڈاکٹر شمس بدایونی نے اپنے مضمون بعنوان "تفہیمِ غالب کے مدارج" میں بالترتيب پانچ مدارج لکھے ہیں :
تفہیمِ غالب : خود غالب کے حوالے سے
تذکرہ نویسوں کے حوالے سے
شارحین کے حوالے سے
ناقدین کے حوالے سے
محققین کے حوالے سے
مزید لکھتے ہیں کہ :
”غالب کی تفہیم کے لیے اس اول ماخذ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس میں بعض بیانات متضاد، بعض مشرقی شعریات کی روایت سے مختلف اور بعض قواعد کی شاعری کے اصول کے خلاف بھی محسوس ہوں گے۔ ایسے تمام بیانات کو محققین و ناقدین کے جائزوں، توضیح و تشریح کے مطالعے کے بعد قبول کرنا مناسب ہوگا۔“
ڈاکٹر بدایونی نے خود مصنف کے حوالے سے تفہیم کے لیے بھی ایک معیار قائم کیا ہے کہ ایسے بیانات ناقدین کی نظروں سے گزرنے کے بعد ہی قبول و رد کے لائق ہوں گے، ورنہ یہ تو اظہر کالشمس ہے کہ فقط مرادِ مصنف پہ اکتفا کرنے اور معنیٰءِ ضروریہ سے اعراض کرنے پر بیشمار خرابیاں لازم آ سکتی ہیں۔
واضح ہو کہ منشائے مصنف کسی بھی صورت میں Uniquely Privileged یعنی یکتا مختار نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ اس وقت تک ہم مصنف کا عندیہ جھٹلا نہیں سکتے، جب اسے قبول کرنے میں کوئی بڑا اقداری نقصان ہو۔ مرزا نے جو معنیٰ شاکر گورکھپوری کو لکھے، وہی درست ہیں اور اولین ترجیح اسے ہی دی جائے گی۔ رہی یہ بات کہ سید نظم طباطبائی نے اسے بے معنیٰ کہا ہے، اس کی توجیہ؟ تو المختصر یہ کہوں گا کہ علامہ نے شعر کا معنیٰ خود متعین کرکے بعدازاں متن میں تحقیق کی اور ظاہر ہے مطابقت کلی طور پر نہ ہو سکی۔ لہٰذا علامہ نے المعنیٰ فی بطن الشاعر کا فتویٰ لگا دیا۔
غالب نے گویا طباطبائی ہی کی مذکورہ شرح کے بارے میں کہا تھا کہ :
”یہ صاحبان جو شرح لکھتے ہیں، کیا یہ سب ایزدی سروش ہیں اور ان کا کلام (تشریحات) وحی ہے؟ اپنے اپنے قیاس سے معنیٰ پیدا کرتے ہیں! یہ میں نہیں کہتا کہ ہر جگہ ان کا قیاس غلط ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ یہ فرماتے ہیں، صحیح ہے۔
(نکاتِ غالب، نظامی بدایونی، صفحہ 25)
وجاہت علی سندیلوی نے طباطبائی، آسی، سنہا، سعید، بیخود، اثر، نیاز، سلیم وغیرہم کی شروح کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ :
”شاعر حیرت سے پوچھتا ہے کہ یہ سارا نگار خانۂ عالَم کس کی (مراد خدا سے ہے) تخلیق کی ستم ظریفی پر فریادی بنا ہوا ہے؟ یہاں کی ہر چیز دلآویز ہونے کے ساتھ ساتھ مبتلائے غم اور بے ثبات بھی کیوں نظر آتی ہے؟ خدا کو اسے مبتلائے غم اور فنا آمادہ بنانا تھا تو اس نے اس قدر دلآویز بنایا ہی کیوں؟“
(نشاطِ غالب، صفحہ 30، سرفراز قومی پریس، لکھنؤ)
اعتراض : زیر بحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں، لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے
جواب : لفظِ ”نقش“ کا عموم ہی اس دعویٰ کے لیے کافی ہے کہ ”ہر پیکرِ تصویر“ سے تمام موجودات و مخلوقات مراد ہیں، ورنہ شعر میں موجبِ آزار ہونے اور مائل بہ زوال ہونے کا جو مفہوم زیرِ سطح مضمر (Implied) ہے وہ فوت ہو جائے گا اور شعر محدود ہو جائے گا۔
واجدؔ دکنی کا کہنا کہ «مرزا غالب کے اس مطلع میں "ہر" اور "پیکر" کے الفاظ زائد اور حشوِ قبیح ہیں۔ کیوں کہ صرف اتنا کہہ دینا کہ ”تصویر کا پیرہن کاغذی ہے“ ادائے مطلب و اظہارِ مضمون کے لیے کافی و مکتفی ہے» درست نہیں۔ ہاں! لفظِ پیکر سے متعلق واجدؔ کا حشوِ قبیح کہنا درست ہے۔ غور کریں کہ لفظِ "ہر" سے کلیاتِ ممکنہ کا شمول مطلوب ہے جو بدونہٖ محال تھا اور لفظِ "پیکر" زائد اس لیے کہ غالب نے اس کے ذریعے تحدید کر دی، یعنی جملہ مخلوقات سے انسانوں کو منتخب کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ لفظِ "نقش" کا عموم اس پر دال ہے، یہاں صرف وہی نہیں بلکہ جمیع مخلوقات مراد ہیں۔
اشکال : بعض شارحین نے اس مطلع کی تفہیم میں باہمی تضاد کو جنم دیا ہے، یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ جبکہ اس کا متعین معنیٰ غالب خود اپنے ایک مکتوب میں دے چکے ہیں۔ کیا شعر میں کثیر المعنويت (Pluralism) یا اس کے احتمال کی گنجائش موجود نہیں ہو سکتی؟
جواب : اس کے جواب سے قبل ایک اصطلاح ”کثیر المعنويت“ کو سمجھنا بہتر ہوگا۔
جب کسی متن سے مخصوص یا بدیہی معنیٰ کے علاوہ کسی اور جہت اور زاویے سے بھی معنیٰ کی کشود ممکن ہو تو پھر سخن فہمی کا اولین فریضہ یہ ہے کہ اس متن کی وہ صفت بھی بیان کی جائے اور اس کی محتملہ معنویت کا اظہار کیا جائے۔ ظلم تو یہ ہے کہ جب کوئی شارح یا نقاد اس پہ مصر ہو کہ اس متن سے فلاں معنیٰ ہی نکل سکتا ہے یا وہ بالجبر متعین معنیٰ ہی برآمد کرے، کیوں متن کا معنیٰ معاشرہ یا وہ نظام متعین کرتا ہے جس کے تحت الفاظ استعمال ہو رہے ہوں، لہٰذا یہ کہنا روا ہے کہ معنیٰ کسی کی میراث نہیں، صرف اس کی ہے جو الفاظ کے انھی معنیٰ کو قبول کرتا ہے جو متنی نظام (Textual System) نے مقرر کیے ہیں۔ یہ سیاق و سباق سے بھی متبادر ہو سکتے ہیں اور مروجہ لسانی مختارات سے بھی۔ شارح اپنی سرشت میں توسیع پسند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اگر وہ متن میں مضمر معنویت کو متن تک محدود رہنے دیتا ہے تو وہ سراسر تنگ نظر ہے۔ بعض مغربی ناقدین مثلاً بیرڈسلی وغیرہ کے نزدیک مصنف کی مراد جاننے کے لیے ہمیں متن کے لمحۂ تخلیق کو بنیاد بنانا چاہیے، لمحۂ تخلیق سے مخصوص عصری حالت یا سیاقِ کلام میں موجود وقوعہ مراد ہو سکتا ہے۔
کثیر المعنويت تقریباً سبھی متون میں موجود ہوتی ہے لیکن بغیر قراتی تفاعل کے کسی بھی متن میں نئے معنی کا انکشاف ممکن نہیں۔ چونکہ متن کا مزاج و مذاق ہی ایسا ہے کہ وہ تعبیر و تشریح کا متقاضی ہے۔ اس لیے اگر تو ہم متنی نظام کے قواعد کی پاسداری کرتے ہوئے معنیٰ نکالیں تو ہر وہ معنیٰ برآمد کرنے کے مجاز ہوں گے جو اس کے اندر موجود یا کم از کم ممکن الحصول ہے۔ لیکن متن سے مستخرجہ معانی میں سے صرف اسی معنیٰ کی ملکیت ماتن کو دی جا سکتی ہے جو مصنف کے عصری بالخصوص معاشرتی تلازمے کو متن سے تطبیق دے کر حاصل کیا جائے، باقی معانی معاشرے کے ہیں جس کی بنیاد پر وہ تخلیقی متن رواج پاتا ہے۔ المختصر متن کو مصنف کا منشا نہیں، بلکہ عمل سمجھنا چاہیے۔ کسی متن میں معنیٰ کی کثرت خوبیوں میں سے ہے۔ نارتھ روپ فرائی نے لکھا ہے کہ :
’’ناقدین کا کام محض ان معانی کو کشید کرنا نہیں جو بوقتِ تخلیق ادیب کو معلوم تھے بلکہ ناقد تو وہ معنی بھی اخذ کرتا ہے جس سے ادیب بذاتِ خود بھی آگاہ نہ تھا۔‘‘
(بحوالہ : آزادی کے بعد دہلی میں اُردو تنقید، مصنفہ شارب ردولوی، ص۱۰۵)
اپنے ایک مضمون میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ : شعر میں کثیر معنیٰ صاف نظر آئیں یا کثیر معنیٰ کا احتمال ہو، دونوں خوب ہیں۔شارحِ غالب علامہ طباطبائی کا شرح دیوانِ غالب، غزل 96، شعر 5 کی شرح کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ”خوبی کثرتِ معنیٰ سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ احتمالاتِ کثیرہ سے“ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن کا یہاں محل نہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی مطلوبہ جگہ پر اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔
علم البلاغت کے اعتبار سے غور کریں تو درج ذیل صنعتیں بھی اپنے پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ فراز ہیں :
صنعتِ تلمیح (کاغذی پیرہَن میں فریادی کا ملبوس ہونا)
استعارہ (ناپائیداری کا مضمون کاغذی پیرہن سے مستعار ہے)
صنعتِ تجاہلِ عارفانہ (کس کی؟)
غزل نمبر ☜ 01، شعر نمبر 01
نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر ہے
لغات :
نقش : علامت، نشان، مورت، جنسِ مرئی، عبارت، نوشتہ
فریادی : لُغۃً جُویائے عدل، ببانگِ دُہل پکارنے والا، نالندہ، اس لفظ کے آخر پہ یائے فاعلی ہے۔
شوخی : چُہل، طراری، اضطراب، براقی
تحریر : مضمون، عبارت، اندازِ نگارش
شوخیءِ تحریر : بدیع الطرزِ تخلیق
کاغذی : وہ شے جس میں کاغذ کی آمیزش ہو یا کلیۃً وہ کاغذ سے بنی ہو۔ اس لفظ کے آخر پہ یائے نسبتی ہے۔
پیرہن : لباس، پوشاک، حصار، محور
پیکرِ تصویر : بجنسہٖ تصویر، مراد عالَمِ کُل کا وجودِ ظاہری۔
شرح :
میرے نزدیک ”فریادی“ ترکیبِ کلام میں ذوالحال واقع ہوا ہے اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر حال ہے۔ یعنی عالمِ کُل ازروئے ظاہری ہیئت کاغذی ملبوس میں ہے، کس کے دستِ تخلیق کی ساختگی کا فریادی ہے؟ لیکن اگر نقش کو ”قائل“ اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر ”مقولہ“ مانیں تو بایں صورت فریادی ”مبتداء“ اور دوسرا مصرع ”خبر“ ہوگا
سہا مجددی نے کیا خوب صورت لکھا ہے کہ یہ جسمِ فنا پیوستہ، یہ ہیولائے ضعیف البنیان، یہ قالبِ خاکی، یہ کالبدِ عنصری (تصویر بہ پیرہنِ کاغذی) کس کے دستِ رنگین کی صنعت طرازی و شوخیءِ تحریر کا مخلوق و مصنوع ہے؟ یعنی یہ جہانِ موجود کس کے کرشمۂ تخلیق پر داد خواہ ہے، کس کی اعجازِ خلّاقی کی دلیل ہے؟ واضح رہے کہ یہ دلیل ثبوتِ بدیہی کی قبیل سے ہے۔ اس استفہامِ تجاہُلانہ ( ارادتاً عدمِ واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرنا) جملے کا جواب مقدر (محذوف) یعنی محذوفِ منوی ہے اور جواب وضاحت کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ مطلع حمدیہ ہے۔
معنیٰ کی روح پہلے مصرعے ہی میں پنہاں ہے، دوسرا مصرعہ صرف داد خواہ کی ہیئتِ کذائی کا بیان ہے کہ ہستی (وجودِ شے) اگر چہ مثلِ تصاویر اعتبارِ محض (یعنی محض نظری و قیاسی) ہے، موجبِ رنج و آزار ہے۔ کاغذی پیرہن : لباس کا کاغذی ہونا عدمِ ثبات سے کنایہ ہے۔ اسی مضمون کا ایک اور شعر دیکھیں کہ :
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
دنیا کا وجود حقیقی نہیں بلکہ اس کی ہستی خالص اعتباری ہستی ہے۔ یہاں سے غالب کے فلسفۂ وحدۃ الوجود پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اور بقولِ مولانا غلام رسول مہرؔ مرزا توحیدِ وجودی کے قائل تھے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے۔ نیز نکاتِ غالب مرتبہ نظامی بدایونی میں غالب کا یہ قول نقل ہے کہ : ”میں موحّد خالص اور مؤمنِ کامل ہوں، زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ لا مؤثر فی الوجود اللہ سمجھے ہوئے ہوں۔ (صفحہ 05، نظامی پریس، بدایوں) لیکن یاد رہے کہ غالب باقاعدہ صوفی نہیں، بلکہ انھوں نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا ہے۔ جیسا کہ حالیؔ نے ”یادگارِ غالب“ میں لکھا ہے۔
مرزا عزیز احمد بیگ المتخلص بہ مرزاؔ سہارن پوری نے دیوانِ غالب کی تقریباً تمام غزلیات کی تضمین لکھی ہے۔پرلطف بات یہ کہ اس مطلع کی تضمین بہ صورتِ مخمّس میں انھوں نے اس کا مکمل معنیٰ بھی بیان کر دیا ہے، لکھتے ہیں کہ :
کیا یہ منشا تھا ازل میں کاتبِ تقدیر کا؟
ذرہ ذرہ ہو فنا اک روز اس تعمیر کا
رنگ جھلکایا ہے کیوں ہر چیز میں تغییر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
(روحِ کلامِ غالب المعروف تفسیر کلامِ غالب، مرزا عزیز احمد بیگ، صفحہ 01، مطبع نظامی پریس بدایوں)
غالب مرحوم نے اس شعر کا معنیٰ عودِ ہندی میں یوں بیان کیا ہے :
ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے
(خط بہ بنام عبد الرزاق شاکر گورکھپوری، صفحہ 153، مطبع نولکشور لکھنؤ)
اگرچہ مرزا نے معنیٰءِ شعر بہ زبانِ شاعر کی رسم کو اپنے تئیں پورا کیا، لیکن یہ شعر کم از کم دس سے زائد مختلف معانی کا متحمل ہے، جس کی تفصیل مناسب نہیں۔
کاغذی پیرہن سے متعلق طباطبائی کا کہنا کہ ”مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا“ سراسر عدمِ تحقیق اور سطحیت کا نتیجہ ہے۔ اطالوی مفکر کروشے (Benedetto Croce) کے نظریات سے ایک اہم نکتہ مستفاد ہوتا ہے کہ منصفانہ تنقید (و تشریح) کی راہ میں حائل عناصر جلد بازی، قلتِ تدبر، نظریاتی تعصب اور ذاتی پسندیدگی وغیرہ ہیں۔ یعنی کسی فن پارے کی غیر منصفانہ شرح و نقد کے اسباب یہ یہ ہو سکتے ہیں۔
فارسی شاعری میں اس کے نظائر تلاشے جائیں تو براہین کا قلعہ تعمیر ہو سکتا ہے۔ دو مثالیں حسبِ ذیل ہیں :
تاکہ دست قدر ما زدست تو بر بود قلم
کاغذ پیرہن از دست قدر باد مراد
بابا افغانی (بمدح الصدر العالم نورالدین المنش)
کاغذی جامہ بپوشید او بدرگاہ آمد
زادۂ خاطرِ من تا بدہی داد مرا
کمال اسماعیلی
اشکال : اس مکتوب سے البتہ واضح ہے کہ غالب کا ما فی الضمیر یہی ہے، اس لیے یہاں رہوارِ توجیہ و تعلیل دوڑانے سے بہتر ہے اسی مفہوم کو سمجھا جائے جو غالب مرحوم نے خود بیان کیا ہے۔لیکن یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شارحِ غالب علامہ نظم طباطبائی نے کس اشکال کی بنا پہ شعر کو بامعنیٰ کہنے سے احتیاط کی ہے؟
جواب : مرزا غالب کا ما فی الضمیر اگرچہ مکتوب سے واضح ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم انھی مفاہیم کا سہارا لیں جو خود مرزا نے بیان کیے ہیں تو ان سے بہتر مفاہیم جو متن سے نکل سکتے ہیں، وہ ضائع ہو جائیں گے۔
ششماہی مجلہ جہانِ غالب، مدیر ڈاکٹر عقیل احمد کے صفحہ نمبر 59 پہ مضمون نگار ڈاکٹر شمس بدایونی نے اپنے مضمون بعنوان "تفہیمِ غالب کے مدارج" میں بالترتيب پانچ مدارج لکھے ہیں :
تفہیمِ غالب : خود غالب کے حوالے سے
تذکرہ نویسوں کے حوالے سے
شارحین کے حوالے سے
ناقدین کے حوالے سے
محققین کے حوالے سے
مزید لکھتے ہیں کہ :
”غالب کی تفہیم کے لیے اس اول ماخذ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس میں بعض بیانات متضاد، بعض مشرقی شعریات کی روایت سے مختلف اور بعض قواعد کی شاعری کے اصول کے خلاف بھی محسوس ہوں گے۔ ایسے تمام بیانات کو محققین و ناقدین کے جائزوں، توضیح و تشریح کے مطالعے کے بعد قبول کرنا مناسب ہوگا۔“
ڈاکٹر بدایونی نے خود مصنف کے حوالے سے تفہیم کے لیے بھی ایک معیار قائم کیا ہے کہ ایسے بیانات ناقدین کی نظروں سے گزرنے کے بعد ہی قبول و رد کے لائق ہوں گے، ورنہ یہ تو اظہر کالشمس ہے کہ فقط مرادِ مصنف پہ اکتفا کرنے اور معنیٰءِ ضروریہ سے اعراض کرنے پر بیشمار خرابیاں لازم آ سکتی ہیں۔
واضح ہو کہ منشائے مصنف کسی بھی صورت میں Uniquely Privileged یعنی یکتا مختار نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ اس وقت تک ہم مصنف کا عندیہ جھٹلا نہیں سکتے، جب اسے قبول کرنے میں کوئی بڑا اقداری نقصان ہو۔ مرزا نے جو معنیٰ شاکر گورکھپوری کو لکھے، وہی درست ہیں اور اولین ترجیح اسے ہی دی جائے گی۔ رہی یہ بات کہ سید نظم طباطبائی نے اسے بے معنیٰ کہا ہے، اس کی توجیہ؟ تو المختصر یہ کہوں گا کہ علامہ نے شعر کا معنیٰ خود متعین کرکے بعدازاں متن میں تحقیق کی اور ظاہر ہے مطابقت کلی طور پر نہ ہو سکی۔ لہٰذا علامہ نے المعنیٰ فی بطن الشاعر کا فتویٰ لگا دیا۔
غالب نے گویا طباطبائی ہی کی مذکورہ شرح کے بارے میں کہا تھا کہ :
”یہ صاحبان جو شرح لکھتے ہیں، کیا یہ سب ایزدی سروش ہیں اور ان کا کلام (تشریحات) وحی ہے؟ اپنے اپنے قیاس سے معنیٰ پیدا کرتے ہیں! یہ میں نہیں کہتا کہ ہر جگہ ان کا قیاس غلط ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ یہ فرماتے ہیں، صحیح ہے۔
(نکاتِ غالب، نظامی بدایونی، صفحہ 25)
وجاہت علی سندیلوی نے طباطبائی، آسی، سنہا، سعید، بیخود، اثر، نیاز، سلیم وغیرہم کی شروح کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ :
”شاعر حیرت سے پوچھتا ہے کہ یہ سارا نگار خانۂ عالَم کس کی (مراد خدا سے ہے) تخلیق کی ستم ظریفی پر فریادی بنا ہوا ہے؟ یہاں کی ہر چیز دلآویز ہونے کے ساتھ ساتھ مبتلائے غم اور بے ثبات بھی کیوں نظر آتی ہے؟ خدا کو اسے مبتلائے غم اور فنا آمادہ بنانا تھا تو اس نے اس قدر دلآویز بنایا ہی کیوں؟“
(نشاطِ غالب، صفحہ 30، سرفراز قومی پریس، لکھنؤ)
اعتراض : زیر بحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں، لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے
جواب : لفظِ ”نقش“ کا عموم ہی اس دعویٰ کے لیے کافی ہے کہ ”ہر پیکرِ تصویر“ سے تمام موجودات و مخلوقات مراد ہیں، ورنہ شعر میں موجبِ آزار ہونے اور مائل بہ زوال ہونے کا جو مفہوم زیرِ سطح مضمر (Implied) ہے وہ فوت ہو جائے گا اور شعر محدود ہو جائے گا۔
واجدؔ دکنی کا کہنا کہ «مرزا غالب کے اس مطلع میں "ہر" اور "پیکر" کے الفاظ زائد اور حشوِ قبیح ہیں۔ کیوں کہ صرف اتنا کہہ دینا کہ ”تصویر کا پیرہن کاغذی ہے“ ادائے مطلب و اظہارِ مضمون کے لیے کافی و مکتفی ہے» درست نہیں۔ ہاں! لفظِ پیکر سے متعلق واجدؔ کا حشوِ قبیح کہنا درست ہے۔ غور کریں کہ لفظِ "ہر" سے کلیاتِ ممکنہ کا شمول مطلوب ہے جو بدونہٖ محال تھا اور لفظِ "پیکر" زائد اس لیے کہ غالب نے اس کے ذریعے تحدید کر دی، یعنی جملہ مخلوقات سے انسانوں کو منتخب کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ لفظِ "نقش" کا عموم اس پر دال ہے، یہاں صرف وہی نہیں بلکہ جمیع مخلوقات مراد ہیں۔
اشکال : بعض شارحین نے اس مطلع کی تفہیم میں باہمی تضاد کو جنم دیا ہے، یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ جبکہ اس کا متعین معنیٰ غالب خود اپنے ایک مکتوب میں دے چکے ہیں۔ کیا شعر میں کثیر المعنويت (Pluralism) یا اس کے احتمال کی گنجائش موجود نہیں ہو سکتی؟
جواب : اس کے جواب سے قبل ایک اصطلاح ”کثیر المعنويت“ کو سمجھنا بہتر ہوگا۔
جب کسی متن سے مخصوص یا بدیہی معنیٰ کے علاوہ کسی اور جہت اور زاویے سے بھی معنیٰ کی کشود ممکن ہو تو پھر سخن فہمی کا اولین فریضہ یہ ہے کہ اس متن کی وہ صفت بھی بیان کی جائے اور اس کی محتملہ معنویت کا اظہار کیا جائے۔ ظلم تو یہ ہے کہ جب کوئی شارح یا نقاد اس پہ مصر ہو کہ اس متن سے فلاں معنیٰ ہی نکل سکتا ہے یا وہ بالجبر متعین معنیٰ ہی برآمد کرے، کیوں متن کا معنیٰ معاشرہ یا وہ نظام متعین کرتا ہے جس کے تحت الفاظ استعمال ہو رہے ہوں، لہٰذا یہ کہنا روا ہے کہ معنیٰ کسی کی میراث نہیں، صرف اس کی ہے جو الفاظ کے انھی معنیٰ کو قبول کرتا ہے جو متنی نظام (Textual System) نے مقرر کیے ہیں۔ یہ سیاق و سباق سے بھی متبادر ہو سکتے ہیں اور مروجہ لسانی مختارات سے بھی۔ شارح اپنی سرشت میں توسیع پسند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اگر وہ متن میں مضمر معنویت کو متن تک محدود رہنے دیتا ہے تو وہ سراسر تنگ نظر ہے۔ بعض مغربی ناقدین مثلاً بیرڈسلی وغیرہ کے نزدیک مصنف کی مراد جاننے کے لیے ہمیں متن کے لمحۂ تخلیق کو بنیاد بنانا چاہیے، لمحۂ تخلیق سے مخصوص عصری حالت یا سیاقِ کلام میں موجود وقوعہ مراد ہو سکتا ہے۔
کثیر المعنويت تقریباً سبھی متون میں موجود ہوتی ہے لیکن بغیر قراتی تفاعل کے کسی بھی متن میں نئے معنی کا انکشاف ممکن نہیں۔ چونکہ متن کا مزاج و مذاق ہی ایسا ہے کہ وہ تعبیر و تشریح کا متقاضی ہے۔ اس لیے اگر تو ہم متنی نظام کے قواعد کی پاسداری کرتے ہوئے معنیٰ نکالیں تو ہر وہ معنیٰ برآمد کرنے کے مجاز ہوں گے جو اس کے اندر موجود یا کم از کم ممکن الحصول ہے۔ لیکن متن سے مستخرجہ معانی میں سے صرف اسی معنیٰ کی ملکیت ماتن کو دی جا سکتی ہے جو مصنف کے عصری بالخصوص معاشرتی تلازمے کو متن سے تطبیق دے کر حاصل کیا جائے، باقی معانی معاشرے کے ہیں جس کی بنیاد پر وہ تخلیقی متن رواج پاتا ہے۔ المختصر متن کو مصنف کا منشا نہیں، بلکہ عمل سمجھنا چاہیے۔ کسی متن میں معنیٰ کی کثرت خوبیوں میں سے ہے۔ نارتھ روپ فرائی نے لکھا ہے کہ :
’’ناقدین کا کام محض ان معانی کو کشید کرنا نہیں جو بوقتِ تخلیق ادیب کو معلوم تھے بلکہ ناقد تو وہ معنی بھی اخذ کرتا ہے جس سے ادیب بذاتِ خود بھی آگاہ نہ تھا۔‘‘
(بحوالہ : آزادی کے بعد دہلی میں اُردو تنقید، مصنفہ شارب ردولوی، ص۱۰۵)
اپنے ایک مضمون میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ : شعر میں کثیر معنیٰ صاف نظر آئیں یا کثیر معنیٰ کا احتمال ہو، دونوں خوب ہیں۔شارحِ غالب علامہ طباطبائی کا شرح دیوانِ غالب، غزل 96، شعر 5 کی شرح کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ”خوبی کثرتِ معنیٰ سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ احتمالاتِ کثیرہ سے“ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن کا یہاں محل نہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی مطلوبہ جگہ پر اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔
علم البلاغت کے اعتبار سے غور کریں تو درج ذیل صنعتیں بھی اپنے پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ فراز ہیں :
صنعتِ تلمیح (کاغذی پیرہَن میں فریادی کا ملبوس ہونا)
استعارہ (ناپائیداری کا مضمون کاغذی پیرہن سے مستعار ہے)
صنعتِ تجاہلِ عارفانہ (کس کی؟)