شرح کلام غالب

دائم

محفلین
شرح دیوانِ غالب [اردو]
غزل نمبر ☜ 01، شعر نمبر 01

نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر ہے

لغات :
نقش : علامت، نشان، مورت، جنسِ مرئی، عبارت، نوشتہ
فریادی : لُغۃً جُویائے عدل، ببانگِ دُہل پکارنے والا، نالندہ، اس لفظ کے آخر پہ یائے فاعلی ہے۔
شوخی : چُہل، طراری، اضطراب، براقی
تحریر : مضمون، عبارت، اندازِ نگارش
شوخیءِ تحریر : بدیع الطرزِ تخلیق
کاغذی : وہ شے جس میں کاغذ کی آمیزش ہو یا کلیۃً وہ کاغذ سے بنی ہو۔ اس لفظ کے آخر پہ یائے نسبتی ہے۔
پیرہن : لباس، پوشاک، حصار، محور
پیکرِ تصویر : بجنسہٖ تصویر، مراد عالَمِ کُل کا وجودِ ظاہری۔

شرح :
میرے نزدیک ”فریادی“ ترکیبِ کلام میں ذوالحال واقع ہوا ہے اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر حال ہے۔ یعنی عالمِ کُل ازروئے ظاہری ہیئت کاغذی ملبوس میں ہے، کس کے دستِ تخلیق کی ساختگی کا فریادی ہے؟ لیکن اگر نقش کو ”قائل“ اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر ”مقولہ“ مانیں تو بایں صورت فریادی ”مبتداء“ اور دوسرا مصرع ”خبر“ ہوگا

سہا مجددی نے کیا خوب صورت لکھا ہے کہ یہ جسمِ فنا پیوستہ، یہ ہیولائے ضعیف البنیان، یہ قالبِ خاکی، یہ کالبدِ عنصری (تصویر بہ پیرہنِ کاغذی) کس کے دستِ رنگین کی صنعت طرازی و شوخیءِ تحریر کا مخلوق و مصنوع ہے؟ یعنی یہ جہانِ موجود کس کے کرشمۂ تخلیق پر داد خواہ ہے، کس کی اعجازِ خلّاقی کی دلیل ہے؟ واضح رہے کہ یہ دلیل ثبوتِ بدیہی کی قبیل سے ہے۔ اس استفہامِ تجاہُلانہ ( ارادتاً عدمِ واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرنا) جملے کا جواب مقدر (محذوف) یعنی محذوفِ منوی ہے اور جواب وضاحت کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ مطلع حمدیہ ہے۔
معنیٰ کی روح پہلے مصرعے ہی میں پنہاں ہے، دوسرا مصرعہ صرف داد خواہ کی ہیئتِ کذائی کا بیان ہے کہ ہستی (وجودِ شے) اگر چہ مثلِ تصاویر اعتبارِ محض (یعنی محض نظری و قیاسی) ہے، موجبِ رنج و آزار ہے۔ کاغذی پیرہن : لباس کا کاغذی ہونا عدمِ ثبات سے کنایہ ہے۔ اسی مضمون کا ایک اور شعر دیکھیں کہ :
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
دنیا کا وجود حقیقی نہیں بلکہ اس کی ہستی خالص اعتباری ہستی ہے۔ یہاں سے غالب کے فلسفۂ وحدۃ الوجود پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اور بقولِ مولانا غلام رسول مہرؔ مرزا توحیدِ وجودی کے قائل تھے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے۔ نیز نکاتِ غالب مرتبہ نظامی بدایونی میں غالب کا یہ قول نقل ہے کہ : ”میں موحّد خالص اور مؤمنِ کامل ہوں، زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ لا مؤثر فی الوجود اللہ سمجھے ہوئے ہوں۔ (صفحہ 05، نظامی پریس، بدایوں) لیکن یاد رہے کہ غالب باقاعدہ صوفی نہیں، بلکہ انھوں نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا ہے۔ جیسا کہ حالیؔ نے ”یادگارِ غالب“ میں لکھا ہے۔

مرزا عزیز احمد بیگ المتخلص بہ مرزاؔ سہارن پوری نے دیوانِ غالب کی تقریباً تمام غزلیات کی تضمین لکھی ہے۔پرلطف بات یہ کہ اس مطلع کی تضمین بہ صورتِ مخمّس میں انھوں نے اس کا مکمل معنیٰ بھی بیان کر دیا ہے، لکھتے ہیں کہ :
کیا یہ منشا تھا ازل میں کاتبِ تقدیر کا؟
ذرہ ذرہ ہو فنا اک روز اس تعمیر کا
رنگ جھلکایا ہے کیوں ہر چیز میں تغییر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
(روحِ کلامِ غالب المعروف تفسیر کلامِ غالب، مرزا عزیز احمد بیگ، صفحہ 01، مطبع نظامی پریس بدایوں)

غالب مرحوم نے اس شعر کا معنیٰ عودِ ہندی میں یوں بیان کیا ہے :
ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے
(خط بہ بنام عبد الرزاق شاکر گورکھپوری، صفحہ 153، مطبع نولکشور لکھنؤ)
اگرچہ مرزا نے معنیٰءِ شعر بہ زبانِ شاعر کی رسم کو اپنے تئیں پورا کیا، لیکن یہ شعر کم از کم دس سے زائد مختلف معانی کا متحمل ہے، جس کی تفصیل مناسب نہیں۔

کاغذی پیرہن سے متعلق طباطبائی کا کہنا کہ ”مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا“ سراسر عدمِ تحقیق اور سطحیت کا نتیجہ ہے۔ اطالوی مفکر کروشے (Benedetto Croce) کے نظریات سے ایک اہم نکتہ مستفاد ہوتا ہے کہ منصفانہ تنقید (و تشریح) کی راہ میں حائل عناصر جلد بازی، قلتِ تدبر، نظریاتی تعصب اور ذاتی پسندیدگی وغیرہ ہیں۔ یعنی کسی فن پارے کی غیر منصفانہ شرح و نقد کے اسباب یہ یہ ہو سکتے ہیں۔

فارسی شاعری میں اس کے نظائر تلاشے جائیں تو براہین کا قلعہ تعمیر ہو سکتا ہے۔ دو مثالیں حسبِ ذیل ہیں :
تاکہ دست قدر ما زدست تو بر بود قلم
کاغذ پیرہن از دست قدر باد مراد

بابا افغانی (بمدح الصدر العالم نورالدین المنش)
کاغذی جامہ بپوشید او بدرگاہ آمد
زادۂ خاطرِ من تا بدہی داد مرا
کمال اسماعیلی

اشکال : اس مکتوب سے البتہ واضح ہے کہ غالب کا ما فی الضمیر یہی ہے، اس لیے یہاں رہوارِ توجیہ و تعلیل دوڑانے سے بہتر ہے اسی مفہوم کو سمجھا جائے جو غالب مرحوم نے خود بیان کیا ہے۔لیکن یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شارحِ غالب علامہ نظم طباطبائی نے کس اشکال کی بنا پہ شعر کو بامعنیٰ کہنے سے احتیاط کی ہے؟

جواب : مرزا غالب کا ما فی الضمیر اگرچہ مکتوب سے واضح ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم انھی مفاہیم کا سہارا لیں جو خود مرزا نے بیان کیے ہیں تو ان سے بہتر مفاہیم جو متن سے نکل سکتے ہیں، وہ ضائع ہو جائیں گے۔
ششماہی مجلہ جہانِ غالب، مدیر ڈاکٹر عقیل احمد کے صفحہ نمبر 59 پہ مضمون نگار ڈاکٹر شمس بدایونی نے اپنے مضمون بعنوان "تفہیمِ غالب کے مدارج" میں بالترتيب پانچ مدارج لکھے ہیں :
تفہیمِ غالب : خود غالب کے حوالے سے
تذکرہ نویسوں کے حوالے سے
شارحین کے حوالے سے
ناقدین کے حوالے سے
محققین کے حوالے سے
مزید لکھتے ہیں کہ :
”غالب کی تفہیم کے لیے اس اول ماخذ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس میں بعض بیانات متضاد، بعض مشرقی شعریات کی روایت سے مختلف اور بعض قواعد کی شاعری کے اصول کے خلاف بھی محسوس ہوں گے۔ ایسے تمام بیانات کو محققین و ناقدین کے جائزوں، توضیح و تشریح کے مطالعے کے بعد قبول کرنا مناسب ہوگا۔“
ڈاکٹر بدایونی نے خود مصنف کے حوالے سے تفہیم کے لیے بھی ایک معیار قائم کیا ہے کہ ایسے بیانات ناقدین کی نظروں سے گزرنے کے بعد ہی قبول و رد کے لائق ہوں گے، ورنہ یہ تو اظہر کالشمس ہے کہ فقط مرادِ مصنف پہ اکتفا کرنے اور معنیٰءِ ضروریہ سے اعراض کرنے پر بیشمار خرابیاں لازم آ سکتی ہیں۔

واضح ہو کہ منشائے مصنف کسی بھی صورت میں Uniquely Privileged یعنی یکتا مختار نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ اس وقت تک ہم مصنف کا عندیہ جھٹلا نہیں سکتے، جب اسے قبول کرنے میں کوئی بڑا اقداری نقصان ہو۔ مرزا نے جو معنیٰ شاکر گورکھپوری کو لکھے، وہی درست ہیں اور اولین ترجیح اسے ہی دی جائے گی۔ رہی یہ بات کہ سید نظم طباطبائی نے اسے بے معنیٰ کہا ہے، اس کی توجیہ؟ تو المختصر یہ کہوں گا کہ علامہ نے شعر کا معنیٰ خود متعین کرکے بعدازاں متن میں تحقیق کی اور ظاہر ہے مطابقت کلی طور پر نہ ہو سکی۔ لہٰذا علامہ نے المعنیٰ فی بطن الشاعر کا فتویٰ لگا دیا۔
غالب نے گویا طباطبائی ہی کی مذکورہ شرح کے بارے میں کہا تھا کہ :
”یہ صاحبان جو شرح لکھتے ہیں، کیا یہ سب ایزدی سروش ہیں اور ان کا کلام (تشریحات) وحی ہے؟ اپنے اپنے قیاس سے معنیٰ پیدا کرتے ہیں! یہ میں نہیں کہتا کہ ہر جگہ ان کا قیاس غلط ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ یہ فرماتے ہیں، صحیح ہے۔
(نکاتِ غالب، نظامی بدایونی، صفحہ 25)

وجاہت علی سندیلوی نے طباطبائی، آسی، سنہا، سعید، بیخود، اثر، نیاز، سلیم وغیرہم کی شروح کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ :
”شاعر حیرت سے پوچھتا ہے کہ یہ سارا نگار خانۂ عالَم کس کی (مراد خدا سے ہے) تخلیق کی ستم ظریفی پر فریادی بنا ہوا ہے؟ یہاں کی ہر چیز دلآویز ہونے کے ساتھ ساتھ مبتلائے غم اور بے ثبات بھی کیوں نظر آتی ہے؟ خدا کو اسے مبتلائے غم اور فنا آمادہ بنانا تھا تو اس نے اس قدر دلآویز بنایا ہی کیوں؟“
(نشاطِ غالب، صفحہ 30، سرفراز قومی پریس، لکھنؤ)

اعتراض : زیر بحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں، لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے
جواب : لفظِ ”نقش“ کا عموم ہی اس دعویٰ کے لیے کافی ہے کہ ”ہر پیکرِ تصویر“ سے تمام موجودات و مخلوقات مراد ہیں، ورنہ شعر میں موجبِ آزار ہونے اور مائل بہ زوال ہونے کا جو مفہوم زیرِ سطح مضمر (Implied) ہے وہ فوت ہو جائے گا اور شعر محدود ہو جائے گا۔
واجدؔ دکنی کا کہنا کہ «مرزا غالب کے اس مطلع میں "ہر" اور "پیکر" کے الفاظ زائد اور حشوِ قبیح ہیں۔ کیوں کہ صرف اتنا کہہ دینا کہ ”تصویر کا پیرہن کاغذی ہے“ ادائے مطلب و اظہارِ مضمون کے لیے کافی و مکتفی ہے» درست نہیں۔ ہاں! لفظِ پیکر سے متعلق واجدؔ کا حشوِ قبیح کہنا درست ہے۔ غور کریں کہ لفظِ "ہر" سے کلیاتِ ممکنہ کا شمول مطلوب ہے جو بدونہٖ محال تھا اور لفظِ "پیکر" زائد اس لیے کہ غالب نے اس کے ذریعے تحدید کر دی، یعنی جملہ مخلوقات سے انسانوں کو منتخب کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ لفظِ "نقش" کا عموم اس پر دال ہے، یہاں صرف وہی نہیں بلکہ جمیع مخلوقات مراد ہیں۔

اشکال : بعض شارحین نے اس مطلع کی تفہیم میں باہمی تضاد کو جنم دیا ہے، یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ جبکہ اس کا متعین معنیٰ غالب خود اپنے ایک مکتوب میں دے چکے ہیں۔ کیا شعر میں کثیر المعنويت (Pluralism) یا اس کے احتمال کی گنجائش موجود نہیں ہو سکتی؟
جواب : اس کے جواب سے قبل ایک اصطلاح ”کثیر المعنويت“ کو سمجھنا بہتر ہوگا۔
جب کسی متن سے مخصوص یا بدیہی معنیٰ کے علاوہ کسی اور جہت اور زاویے سے بھی معنیٰ کی کشود ممکن ہو تو پھر سخن فہمی کا اولین فریضہ یہ ہے کہ اس متن کی وہ صفت بھی بیان کی جائے اور اس کی محتملہ معنویت کا اظہار کیا جائے۔ ظلم تو یہ ہے کہ جب کوئی شارح یا نقاد اس پہ مصر ہو کہ اس متن سے فلاں معنیٰ ہی نکل سکتا ہے یا وہ بالجبر متعین معنیٰ ہی برآمد کرے، کیوں متن کا معنیٰ معاشرہ یا وہ نظام متعین کرتا ہے جس کے تحت الفاظ استعمال ہو رہے ہوں، لہٰذا یہ کہنا روا ہے کہ معنیٰ کسی کی میراث نہیں، صرف اس کی ہے جو الفاظ کے انھی معنیٰ کو قبول کرتا ہے جو متنی نظام (Textual System) نے مقرر کیے ہیں۔ یہ سیاق و سباق سے بھی متبادر ہو سکتے ہیں اور مروجہ لسانی مختارات سے بھی۔ شارح اپنی سرشت میں توسیع پسند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اگر وہ متن میں مضمر معنویت کو متن تک محدود رہنے دیتا ہے تو وہ سراسر تنگ نظر ہے۔ بعض مغربی ناقدین مثلاً بیرڈسلی وغیرہ کے نزدیک مصنف کی مراد جاننے کے لیے ہمیں متن کے لمحۂ تخلیق کو بنیاد بنانا چاہیے، لمحۂ تخلیق سے مخصوص عصری حالت یا سیاقِ کلام میں موجود وقوعہ مراد ہو سکتا ہے۔

کثیر المعنويت تقریباً سبھی متون میں موجود ہوتی ہے لیکن بغیر قراتی تفاعل کے کسی بھی متن میں نئے معنی کا انکشاف ممکن نہیں۔ چونکہ متن کا مزاج و مذاق ہی ایسا ہے کہ وہ تعبیر و تشریح کا متقاضی ہے۔ اس لیے اگر تو ہم متنی نظام کے قواعد کی پاسداری کرتے ہوئے معنیٰ نکالیں تو ہر وہ معنیٰ برآمد کرنے کے مجاز ہوں گے جو اس کے اندر موجود یا کم از کم ممکن الحصول ہے۔ لیکن متن سے مستخرجہ معانی میں سے صرف اسی معنیٰ کی ملکیت ماتن کو دی جا سکتی ہے جو مصنف کے عصری بالخصوص معاشرتی تلازمے کو متن سے تطبیق دے کر حاصل کیا جائے، باقی معانی معاشرے کے ہیں جس کی بنیاد پر وہ تخلیقی متن رواج پاتا ہے۔ المختصر متن کو مصنف کا منشا نہیں، بلکہ عمل سمجھنا چاہیے۔ کسی متن میں معنیٰ کی کثرت خوبیوں میں سے ہے۔ نارتھ روپ فرائی نے لکھا ہے کہ :
’’ناقدین کا کام محض ان معانی کو کشید کرنا نہیں جو بوقتِ تخلیق ادیب کو معلوم تھے بلکہ ناقد تو وہ معنی بھی اخذ کرتا ہے جس سے ادیب بذاتِ خود بھی آگاہ نہ تھا۔‘‘
(بحوالہ : آزادی کے بعد دہلی میں اُردو تنقید، مصنفہ شارب ردولوی، ص۱۰۵)

اپنے ایک مضمون میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ : شعر میں کثیر معنیٰ صاف نظر آئیں یا کثیر معنیٰ کا احتمال ہو، دونوں خوب ہیں۔شارحِ غالب علامہ طباطبائی کا شرح دیوانِ غالب، غزل 96، شعر 5 کی شرح کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ”خوبی کثرتِ معنیٰ سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ احتمالاتِ کثیرہ سے“ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن کا یہاں محل نہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی مطلوبہ جگہ پر اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔

علم البلاغت کے اعتبار سے غور کریں تو درج ذیل صنعتیں بھی اپنے پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ فراز ہیں :
صنعتِ تلمیح (کاغذی پیرہَن میں فریادی کا ملبوس ہونا)
استعارہ (ناپائیداری کا مضمون کاغذی پیرہن سے مستعار ہے)
صنعتِ تجاہلِ عارفانہ (کس کی؟)
 

دائم

محفلین
شرح دیوانِ غالب [اردو]
غزل نمبر ☜ 01، شعر نمبر 02

کاؤ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

لغات :
کاؤ کاؤ : مولوی احمد دہلوی لکھتے ہیں کہ کاؤ کاؤ سے مراد کوشش، تجسس، تفتیش، تفحص۔ زخم کو ناخن سے چھیلنا اور کھجانا۔ کاوش، خلش
اور بطورِ استشہاد میر تقی میر کا یہ شعر بھی درج کیا ہے :
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاؤ کاؤ
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ
[فرہنگِ آصفیہ، جلد سوم، صفحہ 454]
کاؤ کاؤ : تلاش و کاوش، تکرارِ لفظی نے تلاش و کوششِ پیہم کا مفہوم پیدا کیا ہے۔
[مطالب الغالب شرح دیوانِ غالب، سہا مجددی، صفحہ 03]
اکثر مروجہ نسخوں میں ”کاوِکاوِ“ درج ہے اور لوگ لاپروائی (Insouciance) میں اسی طرح پڑھتے ہیں۔ علی العموم کاؤ کاؤ بہ تکرار مستعمل ہے۔ اس مصرع میں بر بنائے اضافت ”کاؤ کاوِ“ پڑھنا چاہیے۔
سخت جانی : تحمل، مشقت، جفاکشی۔ آخر پہ جو یاء ہے یہ یائے مصدری ہے۔

جوئے شیر : نہر، جو فرہاد نے شِیریں کے حکم بموجب پہاڑ سے شہر تک نکالی تھی۔ اس میں بے شمار بکریوں کا دودھ دھویا جاتا تھا اور شِیریں کے محل میں ایک حوض میں آ کر جمع ہو جایا کرتا تھا۔
(لُغاتِ فیروزی، مولوی محمد فیروز الدّین منشی، صفحہ 151]

شرح :
فارس کے مشہور سنگ تراش فرہاد ایک شہزادی (شِیریں) سے محبت کرتا تھا۔ ادھر خسرو پرویز بھی اس کا عاشق، فرہاد نے اپنی محبت ظاہر کی تو شِیریں کی طرف سے یہ شرط عائد ہوئی کہ وہ ایک نہر کھود کر اس کے گھر تک لائے۔ بعد از عرصۂ دراز فرہاد نہر کھود کر کامیاب ہوا تو اس وقت خسرو نے یہ خبر اڑا دی کہ شِیریں مَر گئی۔ فرہاد نے یہ خبر سنی تو تیشہ سر پہ مارا اور جان دے دی۔
(نور اللغات، صفحہ 583، لفظ ”فرہاد“)

شعر کا بہ ظاہر مفہوم یہ ہے : تنہائی کی اذیتیں نہ پوچھو، کہ میرے لیے اب شب ہائے ہجراں کا کاٹنا ایسا ہی آزار طلب ہے جیسا کہ کوہکن کے لیے جُوئے شیر لانا۔ شبِ تنہائی کو درونِ کوہ سے اور صبح کو جوئے شیر سے تشبیہی علاقہ ہے۔یہ نسبت تو عام کتبِ شرح میں مذکور ہیں لیکن ایک لطیف نکتے کی طرف اشارہ کروں گا جو صرف میرے ذہن کی رسائی سے ممکن الحصول ہوا کہ شام سے صبح تک کے لمحے لمحے کو نہر کھودتے ہوئے تیشہ زنی کی ہر ہر ضرب سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہایت بدیع اور تازہ تشبیہ ہے۔ یعنی میرے شکستہ دل پر ہر ساعتِ فرقت شعار تیشہ بن کر ضربیں لگا رہی ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو میرے اشکوں کی ایک نہر جو دراصل دل ہی سے نکلتی ہے، آنکھوں سے راستے وجود میں آ جاتی ہے۔ بقولِ میر تقی میرؔ
کنج کاوی جو کی سینے کی غمِ ہجراں نے
اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا
ایک اور نکتہ جو جوش ملیسانی نے بیان کیا ہے، شرح دیوانِ غالب میں لکھتے ہیں :
”مصرعِ دوم میں ایک خاص نکتہ ہے کہ «کوہکن کی موت تھی انجام جوئے شیر کا» یعنی جُوئے شیر لانے میں کامیاب ہونا کوہکن کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوا۔ اسی طرح میں بھی اس شامِ غم کو مر کر ہی ختم کر سکوں گا“
[شرح دیوانِ غالب، جوش ملیسانی، صفحہ 56-57]

ایک اہم چیز یہ کہ یہاں غالب نے روایت کی آمیزش سے مخصوص شاعرانہ واقعیت بھی پیدا ہو گئی ہے جسے جے سی رینسم (J. C Ransome) نے شاعری کی افسانویت کا نام دیا ہے۔

اس شعر میں فلسفۂ ہجر کا نہایت خوب صورت بیان ہے۔ ہجر کیا ہے؟ آخر یہ عاشقِ صادق کو اس قدر پھڑکاتا کیوں ہے؟ ہجر کے اساسی و تشکیلی عناصر اور محرکات کیا کیا ہیں؟ ان سوالات کے جواب ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

فلسفۂ ہجر اور ہماری شعری روایت :
ہجر اس کیفیت کا نام ہے جو محب و محبوب کے درمیان عنصری تفارق یا عدمِ میلان سے ترکیب پاتی ہے۔
عربی میں بفتح الھاء مستعمل ہے، حافظ شیراز نے فتح کے ساتھ برتا بھی ہے۔
شب قدر ست و طے شد نامۂ ہجر
سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر
مگر مؤلف نور اللغات (جلد 04،صفحہ 965) کے بقول فصحائے پارس کے ہاں اور ان کی تقلید سے ہمارے ہاں بھی بالکسر ہی مستعمل ہے۔

ہجر کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو قریبی سبب محب کی لغزش قرار پائے گی۔ اکثر اوقات محبوب کا اعراض کرنا بہ سبب تقصیرِ محب ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ محبوب بہ اندازِ نخوت خود ہی عدمِ التفات کی روش اختیار کر لیتا ہے۔ محبوب کا گریز بہ وجہِ خطائے محب، اس سے متعلق فوائد الفواد میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے بہت جامع گفتگو کی ہے، (سولہویں مجلس، صفحہ 176) آپ فرماتے ہیں کہ :
عاشق و معشوق باہم محبت کرتے ہوں، اس درمیان عاشق سے کوئی ایسا جریرہ لاحق ہو جائے تو جو اس کے دوست کو مرغوب نہ ہو تو اولاً وہ اس سے اعراض کر لیتا ہے۔ یعنی منہ موڑ لیتا ہے۔ پس عاشق پر واجب ہے کہ اسی وقت معذرت کر لے۔ یقیناً اس کا دوست اس سے راضی ہو جائے گا اور معمولی سی بے توجہی جو ہوئی تھی، جاتی رہے گی۔ اور اگر وہ محبت کرنے والا اا پہ اصرار کرے تو وہ اعراض حجاب تک پہنچ جاتا ہے۔ اب بھی محبت کا دعویدار رجوع نہ کرے تو وہ حجاب تفاصل میں بدل جائے گا، پھر سلبِ مزید پھر سلبِ قدیم پھر تسلی اور آخری اور سخت تر درجہ عداوت ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ وہ جو پہلے عاشق و معشوق تھے، اب عاشق کی تقاصیر کے سبب درمیان میں عداوت کی گہری اور ضخیم فصیل کھڑی ہو گئی ہے۔
ظاہر ہے خواجہ صاحبؒ نے عاشقِ صادق اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کو بیان کیا ہے، لیکن اگر یہ کلیہ غزلیہ محبوب و محب کے مابین رکھیں اور ان کے مابین جدائی کے اسباب و محرکات کا جائزہ لیں تو کلیدی وجہ محبوب کی خاطرِ نازک کو درخورِ اعتناء نہ سمجھنے میں مضمر ہوگی۔ اگر ہم عصری بالخصوص معاشرتی رویوں کا گہرا مطالعہ کریں تو باہمی رقابت، دشمنی، حرس و ہوا، بیگانگی، وحشت، کم توجہی، عدمِ التفات، شکوک و شبہات، اوہام خیزی، طنز آمیز لہجے، معاصرانہ چشمک، انانیت، امیر و غریب کے مابین امتیازی لکیر، رشتوں کی چپقلش اور غیر معیاری انسانی تفریق کے سبب انسانیت سوزی عیاں ہے۔ ایسے میں انسانوں کی باہمی غیریّت و اجنبیّت کا ظہور لابدیّٰ امر ہے۔
نیّر مسعود لکھتے ہیں کہ :
رقیبوں کی بدآموزی، پاسبان کی بے التفاتی، محبوب کی حیا اور غرورِ عزّ و ناز، خود عاشق کا حجابِ پاسِ وضع اور اس قبیل کی کتنی رکاوٹیں اور مشکلیں ہیں جو وصل کی راہ میں دیواروں کی طرح حائل رہتی ہیں اور ان میں سے ہر دیوار کو گرانے کے لیے بعض مرتبہ ایک ایک عمر درکار ہوتی ہے۔“
(تعبیرِ غالب مصنفہ نیر مسعود، صفحہ 48)
مشرقی شعریات میں محبوب جس ناز و عشوہ کا مالک ہے، مغربی ادب اس تصور سے کوسوں دور ہے۔ یہ دوری خوش آئند ہے یا نہیں، اس سے بحث نہیں، لیکن اہم یہ ہے کہ مشرقی ادب کا محبوب اس قدر خود سر اور مغرور ہے کہ اسے اپنے چاہنے والے کی ہجر نصیبی سے چنداں غرض نہیں۔ وہ بلاوجہ بھی محب کو تڑپا کر حظ کشید کرتا ہے۔ داغ دہلوی کا محبوب تو ایسا خون خوار ہے کہ محب کو لٹا لٹا کے مارے جاتے ہیں :
رہے گا عشق ترا خاک میں ملا کے مجھے
کہ ابتدا میں ہوئے رنج انتہا کے مجھے
دیئے ہیں ہجر میں دکھ درد کس بلا کے مجھے
شبِ فراق نے مارا لٹا لٹا کے مجھے
یہ صرف معمولی سی مثال ہے ورنہ داغ کا محبوب جس طرح کی خون کی ہولیاں کھیلتا ہے، وہ ان کے دواوین میں محفوظ ہے۔ دراصل میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ ہجر کے اسباب یکسر ختم بھی ہو جائیں تو مشرقی ادب کا محبوب بلا جواز محب سے پہلو تہی اور جدائی کا مجاز ہے۔ میر تقی میر کہتے ہیں :
رنجش کی وجہ آگے تو ہوتی بھی تھی کوئی؟
روپوش ہم سے یار جو ہے بے سبب ہے اب
یعنی محبوب کا روپوش ہونا پہلے کوئی وجہ رکھتا تھا نہ اب، بلکہ وہ بلا سبب ہی اپنی عشوہ طرازیوں کی بنا پر ہر طرح کا جور و جفا روا رکھنے کا مجاز ہے۔

مرزا غالب کا یہ شعر جہاں محبوب کی عدم توجہی کا غماز ہے وہاں شبِ ہجر کی کلفتوں، خانہ خرابیوں، تیرہ بختیوں اور اندوہ ناکیوں کا شکوہ بھی ہے۔ غالب کی یہ عظمت مسلَّمہ ہے کہ وہ فقط لفظی رسومیات (Verbal Convention) کے طور پر نہیں بلکہ تجسیمی (Impersonative) اور مرئی حقائق کی حیثیت سے اپنے شعری نظام سے تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی غالب کی انفرادیت واضح ہے کہ فقط فراق کی سیہ بختیوں کا تذکرہ ہی نہ کیا بلکہ اس کے انجام کی طرف بلیغ مگر مبہم اشارہ بھی کر دیا، وہی اشارہ جو میر تقی میر نے واضح طور پر کیا کہ :
مفلس، سو مر گیا، نہ ہوا وصل یار کا
 

دائم

محفلین
شرح دیوانِ غالب [اردو]
غزل نمبر ☜ 01، شعر نمبر 03

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

لغات :
جذبۂ بے اختیار : ایسا جذبہ جو زِخودرفتگی کا باعث ہو
شوق : فرہنگِ آصفیہ، صفحہ 192 جلد 03 میں شوق کے ذیل میں ہے کہ :
خواہش، آرزو، نفس کی آزمندی، ہوسِ انسانی، اِچھّا، تمنّا، اشتیاق۔
اور بطورِ استشہاد ذوق کا یہ شعر بھی درج ہے :
یہ چاہتا ہے شوق کہ قاصد بجائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافۂ خط پر لگی ہوئی
دیکھا چاہیے : دیکھنا چاہیے
شمشیر : صاحبِ وجدانِ تحقیق عبد الواجد المتخلص بہ واجدؔ لکھتے ہیں کہ : شمشیر مرکب ہے شَم اور شَیر سے۔ شَم بمعنیٰ ناخن اور شیر بمعنیٰ اسد (Loin) درندۂ مشہور، چونکہ تلوار کی شکل ناخنِ شیر سے مشابہت رکھتی ہے، اس لیے فارسی میں تلوار کو شمشیر کہتے ہیں۔ (وجدانِ تحقیق یعنی شرح دیوانِ غالب، صفحہ 07، مطبع فیض منبع فخر نظامی، ١٣١٩ ھجری)
صاحبِ نور اللغات نے بھی اس معنیٰ کی تائید کی ہے۔ آصفیہ کے ہاں دُمِ شمشیر کے اضافے کے ساتھ اس کی بھی توثیق ہوتی ہے۔
دم : تلوار کی دھار
لفظِ دم کے دو معنیٰ ہیں :
سانس اور باڑ۔ مذکورہ شعر میں دونوں معانی درست ہیں۔ اکثر شارحین نے باڑ کے اعتبار سے تفہیم کی ہے لیکن بمعنیٰ سانس اعراض کیے رکھا۔

شرح :
غیر متداول نسخے میں اسی سے ملتا جلتا ایک شعر ہے کہ :
لذّتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا

لذتِ ایجادِ ناز : محبوب جو متنوع ناز و انداز ایجاد کرتا ہے، اس سے بھی عاشق کو مخصوص حظ میسر آتا ہے
افسون : سحر، جادو
عرضِ ذوقِ قتل : عاشق کے قتل ہونے کی خواہش
”نعل آتش میں ہونا“ محاورہ ہے، یعنی بیقراری سے۔ گیان چند نے لکھا ہے کہ اہلِ افسوں جسے بے قرار دیکھنا چاہتے ہیں، نعل پر اس کا نام لکھ کر آگ میں جلا دیتے ہیں۔
تیغِ یار : محبوب کی عشوہ طرازیاں
نخچیر : صید، شکار
شعر کا معنیٰ یہ ہے کہ محبوب کے ایجادِ ناز سے عاشق کو جو لذت ملتی ہے، وہ لذت پیش خیمہ ہے عاشق کے قتل ہونے کی خواہش کا۔ اور محبوب کی شمشیرِ غمزہ سے بے قرار ہے کہ وہ قتل میں بیجا طوالت کیوں اختیار کر رہا ہے؟
غالب نے اس شعر کو مزید ترقی دے کر «جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے» والا شعر کہا
---
متداول شعر کی شرح سے قبل اس کے کلیدی لفظ ”شوق“ کی کچھ وضاحت ضروری ہے۔ آئیے! لفظِ شوق پہ تفصیلی نظر ڈالتے ہیں :

اشتقاقی اعتبار سے شوق عربی الاصل ہے۔ عربی میں شوق کے تین کلیدی مفاہیم ہیں :
1) شوق سے محبت مراد ہے، جیسا کہ ابو الطیب متنبی کا شعر ہے :
متى يشتقى من لاعج الشوق فى الحشا
محب لها فى قربة متباعد
ترجمہ : جس کے سینے میں محبت کی آگ بھڑک رہی ہو، وہ کب شفایاب ہو سکتا ہے۔ کہ جس سے محبت کرتا ہے، وہ قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہے۔

2) کسی شے کی طرف رجحانِ قلب کو بھی شوق کہتے ہیں، معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں ہے کہ :
الشَّوقُ : نزوع النّفس إلى الشىء أو لَهفةٌ لرؤية المحبوب
ترجمہ : نفس کا کسی شے کی طرف میلان یا محبوب کے دیدار کی خاطر شدید اشتیاق شوق کہلاتا ہے۔
(معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ، مؤلفہ الدکتور احمد مختار عمر، صفحہ 1239، علم الکتاب قاھرہ)

3) شوق کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے : طلبِ وصل کی شدت، مگر حصول نا ممکن۔ جِران العود (دیوانِ حماسہ ،باب النسیب) کہتا ہے کہ :
ایا کبداً کادت عیشۃ غرّب
من الشوق اثر الظاعنین تصدع
ترجمہ : اے لوگو! مقامِ غُرّب کی شام کوچ کرنے والوں کے پیچھے شدتِ وصل کی طلب سے میرا جگر لخت لخت ہونے کے قریب ہے (مگر حصول نا ممکن ہے)۔

اردو میں یہ تینوں معانی بعینہٖ رائج ہیں۔ وصل کے لیے شدید اضطراب کے معنیٰ میں دیوانِ شمس النساء شرمؔ میں ہے :
ہر گھڑی شوقِ ملاقات ہے بڑھتا جاتا
ایک پرزہ جو لکھوں، اس سے ہو دفتر پیدا

محبت کے معنیٰ میں دیوانِ میر تقی میر (ششم) میں ہے :
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر

تلاش و جستجو کے معنیٰ میں دیوانِ استاد ابراہیم ذوقؔ میں ہے :
پھرا گر آسماں تو شوق میں تیرے ہے سرگرداں
اگر خورشید نکلا، تیرا گرمِ جستجو نکلا

کلیاتِ شاہ نصیر دہلوی میں دو غزلیں اس ردیف میں ہیں، اشتیاق کے معنیٰ میں ایک شعر ملاحظہ ہو :
پھینک دے گی زلف وھاں چاہِ ذقن پر مار کر
حسن کے کُوچے میں دل رکھتا تو ہے جانے کا شوق

الغرض! لفظِ شوق اپنے اندر معانی کا ایک جہان رکھتا ہے۔ یہ لفظ بہت عمیق ہے۔ شوق شدتِ طلب الی الوصل کی کیفیت کا نام ہے۔ وہ ماجرا جس میں لذتِ وصال کی نیرنگیاں شعوری طور پر فی القلب موجود ہوں لیکن حصول ناممکن ہو۔ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جب اشتیاق اپنی عروج پر ہوتا ہے۔ اسی حالت کا نام شوق ہے۔ ماہر نقاد احمد جاوید صاحب نے غالباً کسی جگہ لکھا تھا کہ ”شوق وہ جذبہ ہے جس میں ہجر اٹل ہے اور وصل کی طلب اندوختۂ وجود ہے۔ ہجر کا اٹل ہونا اندوختۂ شعور اور وصل کی طلب اندوختۂ وجود ہے۔، یعنی شعور کی کُل پونجی وصل کے نا ممکن ہونے پر دال ہے اور وجود کی کل متاع یہ ہے کہ وصل ہونا چاہیے، یہ شوق ہے۔ شوق عشق کی اس خاصیت کو کہتے ہیں جس میں فراق کا تجربہ اور وصال کا یقین گندھا ہو“۔
تصوفانہ اصطلاح میں اس سے وہی مراد ہے جس پر استشہاداً ابھی بحوالۂ جِران العود دیوانِ حماسہ کا ایک شعر گزرا۔ رسالۃ القشیریۃ میں ہے کہ ایک دن حضرت داؤد علیہ السلام اکیلے جنگل کو نکل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بذریعہ وحی فرمایا : اے داؤد! تو اکیلا کیوں ہے؟ انھوں نے عرض کیا : یا الٰہی! میں دل سے تمھاری ملاقات کا مشتاق ہوں مگر مخلوق اس میں حائل ہو جاتی ہے۔ (یعنی وصال کی شدید طلب ہے لیکن حصول مشکل نظر آ رہا ہے)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان کی طرف لوٹ جاؤ، کیوں کہ اگر تو کسی نافرمان بندے کو میری طرف لے آئے گا تو لوحِ محفوظ میں تمھارا نام جهبذ (مميز بين جيدها ورديئها [بحوالہ : معجم الرائد]، یعنی کھرے کھوٹے میں امتیاز کرنے والا) لکھا جائے گا۔
( رسالۃ القشیریۃ [مترجم]، امام ابو القاسم عبد الکریم ھوازن القشیریہ، صفحہ 492، مکتبہ رحمانیہ)
استاد ابو علی دقاق سے مروی ہے کہ محبوب کی ملاقات کے لیے دلوں کا جوش مارنا شوق کہلاتا ہے۔ مزید فرمایا کہ شوق اور اشتیاق میں فرق ہے۔ کیوں کہ شوق تو محبوب کی ملاقات اور دیدار سے مدھم پڑ جاتا ہے لیکن اشتیاق ملاقات سے زائل نہیں ہوتا۔ اس کی تائید میں یہ شعر پیش کیا گیا :
ما يرجع الطرف عنه عند رؤيته
حتى يعود اليه الطرف مشتاقاً
ترجمہ : اشتیاق کی وجہ سے دیدارِ محبوب کے وقت نگاہ اس سے ہٹتی ہی نہیں، کہ اس کے دوبارہ لوٹنے کا سوال ہو“
( رسالۃ القشیریۃ [مترجم]، امام ابو القاسم عبد الکریم ھوازن القشیریہ، صفحہ 491، مکتبہ رحمانیہ)

اب آتے ہیں شعر کی شرح کی طرف :
شعر میں شوقِ شہادت کی وجہ سے شاعر کی بے اختیاری اور جذبۂ وصال کا شدید بیان ہے۔ وہ طلبِ محبوب میں اس درجہ خود رفتہ ہے کہ اس کے اعجاز سے شمشیر کی دھار باہر کو آ گئ ہے۔ دمِ شمشیر سے تلوار کا وہ جوہر مراد ہے جو شمشیر کے لیے بہ منزلہ روح کے ہے۔ بیتابی اور شوقِ شہادت کی امتزاجی کیفیت کی ایسی عمدہ مثال پیش کرنا غالب کی شاعرانہ جدّت اور فکر کی با لید گی کا کمال نہیں تو کیا ہے۔

عموماً شارحین نے ”جذبۂ بے اختیارِ شوق“ کی نسبت ”شمشیر“ کی طرف کی ہے، یعنی شمشیر کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اشتیاقِ ملاقات میں وہ بیخود ہوئی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر محاورہ ’’آپے سے باہر ہونا‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ عاشق کو قتل کر نے کے لیے تلوار اس قدر بے اختیار ہوئی جا رہی ہے کہ اس کا دم اس کے سینے سے باہر نکل آیا ہے..…الخ۔ لیکن یہ درست نہیں، کیوں کہ اگر یہ معنیٰ درست مانیں تو ”شوقِ شہادت“ کا بنیادی نکتہ حصار میں آنے سے رہ جائے گا۔ ظاہر ہے کہ شاعر کی ذات میں کوئی نہ کوئی ایسی طلسماتی وجہ ضرور ہے جس کی بدولت دمِ شمشیر کا باہر آنا عقلاً متحقق ہے، اور وہ چیز ”طلبِ وصال کی شعوری کشش“ ہے۔ وصل کی طلب کو دوسرے الفاظ میں ”شہادت کی تمنّا“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ تمنا انسان کے لیے تو ثابت کی جا سکتی ہے لیکن تلوار کے لیے نہیں، بالخصوص جبکہ وہ اس متعینہ امر [کاٹنا، قتل کرنا] میں بذاتِ خود فاعلیت کا معنیٰ رکھتی ہو۔

جوش ملیسانی لکھتے ہیں کہ :
شوق سے شوقِ شہادت مراد ہے۔ فرماتے ہیں : میرے شوقِ شہادت کی یہ کشش دیکھنے کے قابل ہے کہ تلوار خود بڑھ بڑھ کر میری طرف آتی ہے اور میرا ارمان پورا کرنے کے لیے بیتاب ہو رہی ہے۔ دمِ شمشیر سے آبدارئ شمشیر مراد ہے۔ مگر دَم کے معنیٰ سانس بھی ہیں اور بے چینی کے لیے یہ محاورہ ہے کہ کیوں دم نکلا جا رہا ہے؟ مصرعِ ثانی میں لفظِ دَم کی یہ خوبی وجدانی ہے۔
(شرح دیوان غالب از جوش ملسیانی، صفحہ 57)

بلاشبہ غالب کا یہ شعر نقطۂ عروج کو پہنچا ہوا ہے اور بیساختہ ٹائٹس برک ہارٹ (Titus Burckhardt) کے اس قول کی یاد دلاتا ہے کہ جب دانش (Wisdom) اور مہارت (Skill) جمع ہو جائیں تو کمال جنم لیتا ہے۔

علم البدیع کے اعتبار سے اس شعر میں حسنِ تعلیل کی صنعت اپنی آب و تاب سے موجود ہے۔
حسنِ تعلیل (Ascribing to a different cause) شعری صنعت (Poetic Craftsmanship) ہے۔ جس میں شاعر کسی واقعے کی اصل، منطقی، جغرافیائی یا سائنسی وجہ کو نظرانداز کر کے ایک تخیلاتی، جذباتی اور عین شاعرانہ وجہ بیان کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کسی معلول کے لیے یہ شاعرانہ علت مبالغہ لیکن جمال آفرینی ہے۔ شاعرانہ طلسم کاری کا یہ اعجاز ہے کہ پہلی مرتبہ ذہن اس استدلال کو مان بھی لیتا ہے۔

جواہر البلاغت میں ہے کہ :
حسن التعليل : هو أن ينكر الأديب صراحة أو ضمناً علة الشىء المعروفة، و يأتى بعلة أدبية طريفة تناسب الغرض الذى يرمىٰ إليه. يعنى أن الشاعر أو الناثر يدعى لوصف علة غير حقيقة، مناسبة له باعتبار لطيف، مشتملة على دقة النظر
ترجمہ : حسنِ تعلیل یہ ہے کہ انشاء پرداز (اپنے تخیل سے) صراحۃً یا ضمناً چیز کی علتِ مشہورہ کا انکار کرے اور ایسی ادبی، انوکھی علت پیش کرے جو اس کے مقصد کے مناسب ہو۔ یعنی شاعر یا نثر نگار کا باریک بینی پر مشتمل عمدہ وصف کا تخیل کرتے ہوئے مقصد کے موافق چیز کی علتِ غیر حقیقیہ کا دعویٰ کرنا۔
(جواہر البلاغت، مصنفہ السید احمد الھاشمی، صفحہ 295 ، مطبع دار ابنِ خلدون اسکندریہ)
 

دائم

محفلین
شرح دیوانِ غالب [اردو]
غزل نمبر ☜ 01، شعر نمبر 04

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

لغات :
دام : جال
شنیدن : سننا
مدعا : مقصود، مقصد، غرض، مطلب، مراد، منشا، خواہش
عَنقا : ایک خیالی پرند۔ اول مفتوح، عربی میں مع ہمزہ ہے، لیکن فارسی اردو میں بے ہمزہ رائج ہے۔ عَنقا اور ہما میں فرق یہ ہے کہ ہما کو محض چڑیا فرض کرتے ہیں، لیکن عَنقا کے ایک معنیٰ ہیولائے روحِ انسانی اور عقلِ فعال بھی ہیں۔
اپنے : "میرے" کی جگہ اپنے تاکید کے لیے ہے۔
عالمِ تقریر : گفتگو کا جہان

شرح :
طباطبائی مرحوم لکھتے ہیں کہ :
”اگر شوقِ آگہی نے صیاد بن کر شنیدن کا جال بچھایا بھی تو کیا ، میری تقریر کا مطلب طائرِ عَنقا ہے جو کبھی اسیرِ دام نہیں ہونے کا۔ غرض یہ ہے کہ میرے اشعار سراسر اسرار ہیں“۔
بلاشبہ اس مضمون کے لیے غالب نے برمحل لفظیات کا استعمال کیا ہے۔ یہ شاعر کا کمال ہوتا ہے کہ وہ طرفہ مضمون کے لیےالفاظ کا چناؤ بھی سمجھداری سے کرے۔ مغربی مفکرین میں سے دانتے (Dante) کا کہنا ہے کہ جس طرح اچھے سپاہی کے پاس اچھا گھوڑا ضروری ہے، اسی طرح اچھے شاعر کے پاس عمدہ الفاظ (Excellentia Vacabulorum) ہونے ضروری ہیں۔ آرنلڈ (Matthew Arnold) کا کہنا ہے کہ اسلوب میں ایک خاص شان اور قوت انتخابِ الفاظ (Diction) بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کی حرکت (Movement) کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ عمدہ ترین شاعری میں صداقت اور سنجیدگی کا جو اعلیٰ معیار موضوع اور مواد میں قائم ہوتا ہے، وہ انتخابِ الفاظ کی عمدگی (Superiority of diction) اور اسلوب کی قوت و حرکت کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ اور انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ فلابیر (Flaubert) نے بھی یہی بات کی ہے کہ حسین خیالات کا وجود حسین شکلوں کے بغیر ممکن نہیں۔ والٹر پیٹر (Walter Horatio Pater) کا کہنا ہے کہ کسی خیال کے اظہار کے لیے اصل چیز ”صرف ایک بے مثل لفظ، مناسب عنوان، جملے یا ایک جزو یا پورا جملہ یا عبارت کا کوئی ٹکڑا جو اس کے باطنی طرزِ احساس اور اندرونی بصیرت کو محسوس پیکر دے سکتا ہو“ ہے۔

ایک لطیف نکتہ ملاحظہ فرمائیں کہ جال عموماً چھپ کر بچھایا جاتا ہے تاکہ صید دھوکے سے پھنس جائے، کیوں کہ اگر دیکھتا ہوا تو اس کے لیے رستگاری سامنے کی چیز ہوگی، یعنی وہ جال میں آئے گا ہی نہیں۔ لیکن غالب نے کہا کہ اگر دھوکے اور چوری چھپے بھی میرے عالمِ تقریر کا مدعا کریدا جائے، تب بھی وہ عنقا کی مانند صیاد کی نگاہوں سے روپوش ہی رہے گا۔

فرہنگِ آصفیہ جلد سوم ،صفحہ 290 تا 292 میں عَنقا (بفتح العین) کے ذیل میں جو احوال مذکور ہیں، ان کا مختصر ذکر مندرجہ ذیل ہے :
⛧ عبد اللہ یافعی نے مرآۃ الخیال سے نقل کیا ہے کہ اصحاب الرس میں ایک میل اونچا پہاڑ تھا۔ جس میں ہزاروں طیور رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی برس میں ایک پرند بزرگ خلقت، طویل العَنق، جس کا منہ آدمیوں کا سا اور اعضاء میں ہر ایک پرندے کی مشابہت، اس پہاڑ پر آ نکلا۔ اول اول ان جانوروں کو ستانا اور ہلاک کرنا شروع کیا۔ ساکنانِ اصحاب الرس اس پرندے کو عَنقائے مغرب کہتے تھے۔ جب اس پرندے نے حد سے زیادہ ستانے لر کمر باندھ لی تو وہ سب جمع ہو کر اپنے پیغمبر حضرت حیطہ بن صفوان علیہ السلام کے پاس گئے اور ان کی دعا کے سبب اس آفت سے نجات پائی۔ کہتے ہیں تب سے یہ جانور کسی جزیرے میں چلا گیا ہے۔

⛧ مؤرخ فرغانی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ صعیدِ مصر (شمالی مصر) سے ایک بہت بڑا پرندہ جس کی ڈاڑھی اور غبغب آدمی سے مشابہ اور اس کے پر طرح بہ طرح کے رنگوں سے ملوّن اور اعضاء اکثر جانوروں سے ملتے تھے،عزیز کے روبرو لایا گیا تھا اور اسے عَنقا کہتے تھے۔

⛧ ویبسٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اس خیالی جانور کا وجود شیر اور عقاب کی صورت سے مرکب ہے۔ اس کے دو بازُو، ایک چونچ اور چار ٹانگیں ہوتی ہیں۔ اور جا حصہ عقاب سے مشابہت رکھتا ہے اور نیچے کا شیر سے۔ اس کی تصویر زمانۂ قدیم کے تمغوں یا زرہ بکتر پر دیکھنے میں آئی ہے، نیز ایک قسم کا گِد جو فرنگستان کے پہاڑی اضلاع شمالی افریقہ اور روم میں پایا جاتا ہے۔
⛧ رومن صاحب کی تاریخ میں لکھا ہے کہ صوبہ ڈلٹا میں ہلیو پولس کے نام سے ایک مشہور شہر تھا۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ عَنقا ایک پرندے کا نام ہے۔ تمام دنیا میں وہ اکیلا ہی رہتا ہے۔ عرب کے ملک میں اس کی پیدائش ہے۔ پانچ یا چھ سو برس تک زندہ رہتا ہے۔ اس کا قد عقاب کے برابر اور اور سر نہایت چمکدار پروں کے تاج سے آراستہ ہوتا ہے۔ گردن کے پر سنہری اور تمام جسم ارغوانی رنگ کا ہوتا ہے۔ دم سفید اور آنکھیں ستاروں کی مانند چمکتی ہوئی ہوتی ہیں۔ جب وہ بوڑھا ہو کر مرنے کے قریب پہنچتا ہے تو لکڑیوں اور خوشبودار چیزوں سے اپنا گھر، جسے مرقد کہنا چاہیے، بناتا ہے اور اسی میں گھس کر مر جاتا ہے۔ اس کی ہڈیوں اور چربی سے ایک کیڑا پیدا ہوتا ہے اور یہی کیڑا ایک دوسرا عَنقا بنتا ہے۔ اور یہ دوسرا عَنقا اس پہلے عَنقا کو، جس سے وہ پیدا ہوتا ہے، دفن کرتا ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ خوشبو دار چیزیں جمع کے بہ شکلِ بیضہ ایک اتنا بڑا گولہ، جسے وہ بخوبی اٹھا سکے، بناتا اور اس میں چھید کر کے پہلے عَنقا کے بقیہ جسم کو اس کے اندر رکھتا اور اس سوتا سوراخ کو خوشبو دار چیزوں سے نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیتا ہے۔ اس کے بعد اس عزیز اور عمدہ بوجھ لو اپنے کندھے پر اٹھا کر عین الشمس نامی شہر میں لے جاتا اور جہاں آفتاب کی پرستش کی چیزیں جلائی جاتی ہیں، وہاں اسے بطی جلایا جاتا ہے۔ ہیروڈوٹس اور اور دیگر یورپی مؤرخین کے یہ تفاصیل لکھی ہیں۔

مختلف تفاصیل کے بعد صاحبِ آصفیہ نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان جانوروں کے جو دلچسپ حالات بیان کیے گئے ہیں، واقعی صحیح ہیں اور ان کے صحیح ہونے میں کلام نہیں۔ اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حالات قصے کہانیوں کی طرح بنائے ہوئے ہیں، کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتے۔ البتہ یہ تو ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان حالات کی کچھ اصل بھی ضرور ہے۔ ؏
تا نباشد چیز کے مردم نگوید چیزہا
غرض ہر طرح اس کا معدوم اور کمیاب ہونا ثابت پے۔ لس اای وجہ سء معدوم شے اور نادر چیز کا اس پر اطلاق ہونے لگا۔

صاحبِ نور اللغات فاضل نیر کاکوروی نے اس متعلق لکھا ہے کہ :
ایک لمبی گردن کا پرند۔ جو بعض کے نزدیک صرف فرضی وجود رکھتا ہے۔ اس کو کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ اس واسطے نایاب۔ ناپیدا، نادر الوجود چیزوں سے تعبیر کرتے ہیں۔
(نور اللغات، جلد 03، صفحہ 528)

غالب کہتے ہیں کہ میرے اشعار سراسر ابہام ہیں، اور ان سے معنیٰ کشید کرنا اتنا ہی دقت طلب ہے جتنا عَنقا کو فی الحقیقت تلاشنا۔ معنیٰ کا ابہام عیب بھی ہے اور حسن بھی۔ ابہام Ambiguity کے سلسلے میں یہ نکات اہم ہیں:
٠۱۔ ابہام میں فریب، التباس اور غیر حتمیت ہوتی ہے۔
٠۲۔ ابہام میں معانی کے احتمال کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔
٠۳۔ ابہام میں لاتشکیلیت کا عنصر غالب رہتا ہے۔
٠۴۔ ابہام زیادہ متوازی و متغایر معنیٰ و مفہوم کا حامل ہوتا ہے۔
٠۵۔ ابہام اکثر کلام کا عیب نہیں بلکہ جمال اور ہنر ثابت ہوتا ہے۔
٠۶۔ ابہام تخلیقی تموّج، تموّل اور دانش وفکر کی دلیل ہے۔
٠۷۔ ابہام ابلاغ و ترسیل کی ناکامی نہیں بلکہ بدیعیات کا دوسرا نام ہے۔
٠۸۔ علمِ بلاغت میں ابہام تعقیدِ لفظی (الفاط کی غلط ترتیب) اور تعقیدِ معنوی (غیر مانوس تشبیہات، استعارات اور علامتوں کا استعمال) ہوتا ہے۔
٠۹۔ ابہام میں متن الجھا ہوا اور مبہم نظر آتا ہے مگر اس میں قاری کے لیے کشادہ تر راہیں موجود ہوتی ہیں۔
۱۰۔ ابہام میں متن تفھیم و تشریح کا تقاضا بدرجہ اتم کرتا ہے۔

شاعری جیسے جیسے ترقی کرتی جاتی ہے، اسی قدر تیز رفتاری کے ساتھ ابہام کی طرف بھی میلان رکھتی جاتی ہے۔ ابہام ایک ضرورت بھی ہے اور اس ضرورت کو واضح کرتے ہوئے آر ایل بریٹ (R. L Bret) اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ :
”(شعری) ادب ہمیشہ ابہام کا تابع ہوگا، اس معنیٰ میں کہ اس سے ایک کی بجائے کئی معانی کا انکشاف ممکن ہو سکے گا، اس لیے نہیں کہ وہ غیر یقینیت سے معمور یا الجھی ہوئی اظہار کی ہیئت ہے۔ جدید تنقید میں ابہام کی اصطلاح فیشن کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ لیکن علامتِ اساطیر، رمز و کنایہ، قولِ محال اور دوسرے روایتی خطوط وغیرہ میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہو سکتا جن کے سبب ادب کی معنویت میں زرخیزی پیدا ہو سکتی ہے۔“
(Reason & Imagination, Page 06)

واضح ہو کہ جیسے ابھی بہ حوالۂ آصفیہ گزرا کہ عَنقا کے پیچھے کوئی نہ کوئی حقیقت ایسی موجود ہے جس سے اس کا وجود اور مختلف قصّے متعلق ہیں۔ اسی طرح غالب کی معنويات میں ابہام ضرور ہے لیکن یہ ابہام اشکال سے پاک اور تہمتِ غیر معنویت سے معریٰ ہے۔ ملحوظِ خاطر رہے یہ بات کہ ابہام تب تک حسن ہے جب تک اہمال میں متشکل نہ ہو جائے۔

ہر چند شاعر کو ابلاغ پر اپنی توجہ مکمل طور پر مرکوز رکھنی چاہیے، ابہام سے بچتے ہوئے اپنی بات قاری تک پہنچانے کے لیے شاعر کو اپنے اور قاری کے بیچ فنی، فکری، مذہبی، لسانی، سماجی، نفسیاتی اور سیاسی فاصلوں کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ اور اکثر و بیشتر الفاظ کی بے ہنگم ترتیب، خیال کی موشگافی، غیر مانوس استعارے، دور از فہم علامتوں کا استعمال، تجربے کا کچا پن، فن پر کمزور گرفت، شعور سے پہلے اظہار کی کوشش، بیجا اختصار، محذوفات و مقدورات کی بھرمار (جیسا کہ غالب نے اپنی فارسی دیوان کی بابت کہا ہے) یہ سب چیزیں شعر میں ابہام کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن متعدد بار ابہام حسن کی یکتائی پیدا کرتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی تخلیقی زبان اپنی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اس لیے کہ ایک درشت اور واضح بیان علمی صداقت (Scientific Reality) کو تو بیان کرے گا لیکن شعری و تخئیلی اسلوب سے بے بہرہ ہوگا۔ لہٰذا ابہام کو سراسر عیب نہ سمجھنا چاہیے۔ ایسا سمجھنا سراسر کسی مجذوب کا مراقبانہ وظیفہ معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ابہام معنیٰ کی کثیریت اور محتملہ و ممکنہ مفاہیم کو جنم دیتا ہے۔ اگر شاعر ”اشتیاقِ تذبذب“ یعنی Suspense پیدا کرنا چاہتا ہو تو مقدورات کی اجازت ہوتی ہے، لیکن ابہام برائے ابہام کا جواز یقیناً نہیں دیا جا سکتا۔ رُوسی ہیئت پسندوں کے نزدیک اچھی تخلیق وہ ہے جو ابہام کی دھند میں ملفوف ہو۔ جس کے تحت شاعر تجربے کی پیچیدگی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس حوالے سے ولیم ایمپسن کا ”نظریۂ ابہام“ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
غالب کا ابہام بھی توضیح و تفسیر کے ہزاروں سمندر اپنے اندر موجزن رکھتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کہاں شعر کے لیے یہ زلفِ گرہ گیر کا حکم رکھتا ہے اور کہاں زنجیر پا بن جاتا ہے۔ کب یہ حسن کو گہنائے گا اور کب تزئین کا باعث ہوگا؟ اسی لیے تو وہ اپنے ابہام پہ کئی تشریحیں اور اپنے اجمال پہ بیشمار تفصیلیں قربان کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدُّق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

علم البلاغت کے اعتبار سے اس شعر میں «مدعا عنقا ہے» یہ تشبیہِ بلیغ مفرد بالمفرد ہے، یعنی مشبہ اور مشبہ بہٖ سے تشبیہ مکمل ہے، غرض بیانِ حالِ مشبہ ہے۔ بلیغ اس لیے کہ وجہِ تشبیہ اور اداتِ تشبیہ کا ذکر نہیں۔
[و کل تشبیہ تُحذَفُ منہ الاداۃ ووجہ الشبہ یسمّٰی «بلیغاً»]
(المبسط فی علوم البلاغۃ مصنفہ محمد طاہر اللادقی، صفحہ 139)
ترجمہ : ”ہر وہ تشبیہ جس سے وجہِ شبہ اور حرفِ تشبیہ حذف کر دیئے جائیں، تشبیہِ بلیغ کہلاتی ہے“
اگرچہ وجہ شبہ غالب کے مذکورہ شعر میں موجود نہیں ہے، لیکن تقدیری طور پر اس اعتبار سے یہ تشبیہِ تمثیل ہے۔ یعنی :
[فالتمثیل ما کان وجہہ منتزعاً من متعدد]
(کتاب الترصیع فی علم البیان والمعانی والبدیع، مصنفہ عبد القادر الکیلانی الاسکندرانی، صفحہ 19،مطبع دمشق ١٩٢٢)
ترجمہ : ”تشبیہِ تمثیل وہ ہے جس میں وجہِ شبہ متعدد چیزوں سے ماخوذ ہو“
عنقا ہونا سے معدوم ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے اور تلاشِ بسیار کے بعد معنیٰ کا ہاتھ آنا بھی۔ لہٰذا تشبیہِ تمثیل ہوئی۔

لفظِ قدر میں طول و عرض، کیفیت، معیار، مضبوطی، جہت، طریقہ اور تعداد وغیرہم سب کا بیان آ گیا ہء، یقیناً یہاں قدر ہی کا مقام تھا، اسے کہتے ہیں شاعر کی بلاغت و کفایت، کہ سہ حرفی لفظ نے وہ سب کچھ اپنے دامن میں سمو لیا ہے جس جس کا وہ متحمل ہو سکتا تھا۔ اس شعر کی بندش جس طرفگی کی حامل ہے، ظاہر ہے۔ ایسی شاعری نہ صرف ذہنی مسرت کا باعث ہوتی ہے بلکہ اس سے علمی نکات کے کئی در بھی وا ہوتے ہیں۔ ورڈزوتھ (William Wordsworth) کا یہ تنقیدی نظریہ غالب کی اکثر شاعری پہ صادق آتا ہے کہ شاعری محض حصولِ مسرت کا ذریعہ نہیں بلکہ حصولِ علم کا وسیلہ بھی ہے۔ شاعری کُل علم کی روحِ لطیف اور علم کے سینے میں سانس کی طرح ہے۔ کولرج (Coleridge) نے بھی شاعری کے اصولوں سے زیادہ شاعر کی فطرت پر توجہ کی اور بتایا کہ اگر کسی شخص کی روح فطرت سے ہم آہنگ نہیں تو وہ شاعر نہیں ہو سکتا، خواہ وہ شاعری کے ظاہری اور میکانکی اصولوں کا لتنا ہی پابند کیوں نہ ہو۔ گویا یہاں کولرج سے ورڈزوتھ کے نظریے کی فلسفیانہ شرح کی ہے۔

مرزا عزیز احمد بیگ اس شعر کی تضمین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
کوئی کم مایہ اگر برسوں طبیعت کو لڑائے
غیر ممکن ہے کوئی نکتہ مرے نکتوں سے پائے
لاکھ سامع کان اپنے میری باتوں پر جمائے
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
(روحِ کلامِ غالب المعروف تفسیر کلامِ غالب، مرزا عزیز احمد بیگ، صفحہ 01، مطبع نظامی پریس بدایوں)
 

دائم

محفلین
شرح دیوانِ غالب [اردو]
غزل نمبر ☜ 01، شعر نمبر 05

بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

(نوٹ : مقطع کا پہلا مصرعہ یوں بھی ملتا ہے : «آتشیں پا ہوں، گدازِ وحشتِ زنداں نہ پوچھ»)

لغات :
بسکہ : دیوانِ غالب میں یہ لفظ ١١٥ مرتبہ آیا ہے۔ وجدانِ تحقیق المعروف شرح دیوانِ غالب (صفحہ 10) میں اس لفظ سے متعلق بڑی خوب صورت بحث ہے، ملاحظہ فرمائیں :
”بسکہ اور ازبسکہ اور بس اور ازبس یہ چاروں لفظ مترادف ہیں اور کثرت اور افراط و فراوانی و بہتات کے معنوں میں آتے ہیں۔ بسکہ، ازبسکہ اور ازبس اردو زبان میں مستعمل ہیں مگر بس بمعنیٰ افراط و کثرت صرف فارسی میں آتا ہے نہ اردو میں۔ اور ان لفظوں میں کاف کا حذف کر دینا جائز ہے اور کبھی حرفِ از کو بھی حذف کر دیتے ہیں۔ بسکہ یعنی کثرت اور افراط سے اور ازحدکہ۔ یہاں یہ سو پیدا ہوتا ہے کہ ازبسکہ اور بسکہ میں جو کاف ہے، یہ کس قسم کا کاف ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کاف زائد ہے اور یہ کاف کافِ صلہ اور کافِ بیان بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں از سبب اور تعلیل کے لیے آتا ہے۔ بس کے معنیٰ بہت اور کافی اور خاموش، یعنی خاموش ہو بصیغۂ امر۔“
اسیری : زندانیت، گرفتاری، محبوس ہونا
آتش زیرِ پا : پاؤں کے نیچے آگ، مراد بے قراری
مُوئے آتش دیدہ : آگ کا دکھایا ہوا بال، بال آگ کی گرمی پا کر پیچ دار ہو جاتا ہے، پیچ دار بال
حلقہ : زنجیر کی ایک کڑی، شعر میں اس حلقہ سے مراد "ہر حلقہ" ہے۔

شرح :
شعر کی شرح کرتے ہوئے طباطبائی کا یہ کہنا کہ :
”مضطرب اور بے تاب کو آتش زیرِ پا کہتے ہیں اور آتش جب دیرپا ہوئی تو زنجیرِ پا۔ گویا مُوئے آتش دیدہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ بال آگ کو دیکھ کر پیچ دار ہو جاتا ہے اور حلقۂ زنجیر کی سی ہیئت پیدا کرتا ہے“۔
درست نہیں۔ کیوں کہ یہ ٹکڑا «آتش جب دیرپا ہوئی تو زنجیرِ پا» سراسر عدمِ توجہ، سرسری نظر اور جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ بہ نظرِ غائر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے اسیری کے تلازمے کے طور پر، نہ کہ آتش کے دیرپا ہونے ہونے پر محاورۃً پاؤں کی زنجیر کہا۔ غالب کہتے ہیں کہ قید ہونے کے باوجود میری کیفیت سیمابی ہے اور میرے جوشِ جنوں کے سامنے زنجیر بھی موئے آتش دیدہ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اسیری سے اگر ظاہری معنیٰ مراد ہوں تو غالباً 1847ء کے اس خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب غالب پر اسیری کی ابتلاء نازل ہوئی۔ بعض غالب شناسوں کے نزدیک غالب نے اس نظربندی کا اشارہ ایک شعر میں بھی کیا ہے :
شادم از قید کہ از بندِ معاش آزادم
از کفِ شحنہ رسد جامہ و نانم دربند
لیکن بقول غلام رسول مہر اور میرے نزدیک بھی یہ شعر محض سخن گستری ہے، اس کا اظہارِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔
لفظِ آتش کی صفت "دیدہ" میں یہ بلاغت ہے کہ دیکھ کر سمٹ یا سہم جانے سے جو شکل بنتی ہے وہ سوختگی (یعنی جلنے سے) میں نہیں۔

سوال : غالب نے «آتشیں پا ہوں، گدازِ وحشتِ زنداں نہ پوچھ» کی بجائے «بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا» کو کیوں اختیار کیا، جبکہ معنوی تلازمہ کے علاوہ لفظی رعایت تو پہلے بھی موجود تھی۔ نیز لفظِ ”آتش زیرِ پا“ اور ”آتشیں پا“ میں سے بلیغ کون کی ترکیب ہے؟ اور وجہِ ترجیح کیا ہے؟
جواب : مابعد اختیار کیا گیا مصرع بہتر ہے۔ وجوہِ ترجیح تین ہیں :
1) ظنِّ غالب ہے کہ مقطع کہنا مقصود تھا اور پہلے والے مصرعے میں تخلص کی گنجائش نہ تھی، لہٰذا دوسرا مصرعہ کہا جس میں تخلص کا اہتمام بھی ہے۔
2) جوششِ جنوں کی جس شدت کا بیان مقصود تھا، وہ مفقود ہو گیا۔ لہٰذا ترمیم کی گئی۔
3) آتشیں پا میں استعارے کا فقدان تھا، زیرِ پا کہنے سے ایک تو تپش کی منتقلی بہ وسیلہ ٹھہری معاً ”بھی“ کہنے سے معنوی زور پیدا ہوا

علم البلاغۃ کے اعتبار سے اس شعر میں مشبہ کی مشبہ بہٖ کے ساتھ صورۃً و ہیئۃً تشبیہ ہے، اور ایسی تشبیہ شعر میں حسن کا باعث ہوتی ہے۔ جیسا کہ «عیار الشعر، مصنفہ محمد احمد بن طباطبا العلوی، صفحہ 23، دار الکتب العلمیہ بیروت» میں صراحتاً مذکور ہے۔

جنونی اضطرار، علمِ نفسیات اور غالب :
طبعی ہیجان و اضطرار داخلی اور خارجی عوامل کے بہ سبب فطرتاً پیدا ہوتا ہے۔ آب و ہوا، معاشرت، عصری طرز ہائے معاملت، تعلیم، روابط کی نوعیت، غیر شعوری انسلاک، ناموافق سوچیں، گھٹن اور خلوت شعاری وغیرہم ایسے اجزائے مؤثرہ ہیں جو نفسیاتی سطح پہ طبعی برانگیختگی کا سبب واقع ہوتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات مثلاً الفرڈ ایڈلر، ایرک فروم اور کیرن ہورنی وغیرہم کے نزدیک باطنی محرّکات اور نفسیاتِ عمق کو سماجی پسِ منظر کے تحت سمجھنا چاہیے تاکہ خارجی اور ظاہری عوامل کے ساتھ ساتھ ہم شخصیت کے داخلی اور لاشعوری عوامل تک بھی رسائی حاصل کر سکیں اور یہ جان سکیں کہ سمندر کی تہ میں کس نوعیت کا طوفان پوشیدہ ہے۔ ماہرِ نفسیات سی جی یُنگ نے Introvert Personality کی اصطلاح خاص داخلی نوعیت کے شخصی تجربات و ذاتی مشاہدات کے مطالعے کے لیے وضع کی ہے جس کے تحت ہم شخصیت کی عادات، جوشش، غم و غصہ، معاملہ بندی، حسِّ ادراک اور سوچنے سمجھنے کے کلیدی معیار کو جان سکتے ہیں۔ داخلیت کے تحت آنے والے وہ تمام عوامل جن کا تعلق باطنیت سے ہو، انھیں اسی زمرے میں رکھ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو کہ Introvert Personality دراصل شخصیت کا کوئی مفرد وصف نہیں بلکہ ایسا میلانِ طبع ہے جس کا سایہ زیادہ تر اوصافِ شخصیت پر پڑتا ہے۔ یہ کیفیتی موضوعہ اصطلاح نفسیاتی طور پر بڑی عمر کے لوگوں پر منطبق ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف بچوں اور جوانوں کی طبعی و نفسیاتی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے یُنگ نے Extrovert Personality کی اصطلاح وضع کی ہے، جس کی تفصیل و توضیح کا یہاں مَحل نہیں۔
انسانی کارکردگی کے اہم رجحانات میں غالب کا تعلق وجدانی رجحانِ کارکردگی سے ہے۔ کیوں کہ غالب کے ہاں کسی عمل یا شے کے ادراک کی کسوٹی جذبہ ہوتی ہے نہ فکر، بلکہ اس شے کا وجدانی ادراک ہوتا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ فلاسفہ کا ادراک عقلی ہوتا ہے جا کا تعلق دلائل و براہین سے ہوتا ہے اور شعراء کا ادراک وجدانی ہوتا ہے۔فلسفی عقل کے پیمانوں اور منطقی فکر کی مدد سے حقیقت کی تلاش و جستجو اور ترجمانی کرتا ہے اور اسباب و علل کے پیمانوں سے حقیقت کو پہچانتا ہے۔ اس کی دریافتیں جب تک عقلی دلائل پر پوری نہ اتریں اور غور و خوض کے راستوں سے نہ گزریں، وہ اپنا اعتبار قائم نہیں کر سکتیں۔ ان کی تشریح زینہ بہ زینہ کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس شاعر ایک ہی جَست میں اپنی وجدانی قوتوں سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے ادراکِ حقیقت کو عقلی دلائل کی احتیاج ہوتی ہے تدریجی تشریح کی۔ شاعرانہ انکشافات کو اگر عقلی براہین پر پرکھا جائے تو وہ اپنی دلکشی اور مخصوص جمالیاتی حس کھو دیتے ہیں۔
مرزا غالب کا آتشیں پا ہونا بہ سبب نفسیاتی محرک یعنی جنونی اضطرار کے ہے۔ اور شخصیت میں ان عوامل کا پنپنا کیوں کر ہوتا ہے؟ یہ طویل بحث ہے۔ المختصر مشرقی شعریات میں جنون و وحشت کا تصور نفسیاتی سطح سے ہوتا ہوا ایک علامتی قدر کے طور پر رائج پاتا ہے۔ غالب کے اس شعر میں جو عامل کارفرما ہے، وہ ہے ”معاشرت“۔ آتش زیرِ پا ہونا جوشِ جنوں کا علامتی استعارہ ہے۔ زنداں میں بھی وحشت کی حرارت اس قدر زبانہ کش ہے کہ پا بستگی بھی رستگاری کا پیشِ خیمہ ہے۔ کیوں کہ زنجیریں تو اضطراری کیفیات میں موئے آتش دیدہ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ غالب کے ہاں شورشِ جنوں کی وہ زور انگیزیاں جو اسیری میں بھی سرد نہیں ہوتیں، میر تقی میر کی دَین ہیں۔ کیوں کہ میر تقی میر نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ «زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جُنوں کی»۔ یہی بات غالب نے بھی کہہ دی کہ «بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا»۔
غالب کا آتشیں پا ہونا اور اس کے نتیجے میں سلاسل کا موئے آتش دیدہ کی طرح ہو جانا، ایک ماورائی طاقت کی کارفرمائی ہے اور وہ ہے جوشِ جنوں۔ یہ وہ قوت ہے جو اسیری میں بھی برنائی کی کیفیتوں سے سرشار کرتی ہے۔ یہ قوت تب تک قوت نہیں جب تک اس میں ثروتِ محبت اور خود رفتگی کی بہرہ یابی نہ ہو۔ اور اصل الاصول طاقت یعنی (Fundamental Principal) عشق کا وہ آخری درجہ ہے جس کا اظہار غالب نے بایں طور کیا ہے :
عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ!
کہ لگائے نہ لگے اور بُجھائے نہ بنے
غالب نے جذبۂ عشق کو لازوال اور فانی قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ پا بہ زنجیر کر دینے سے بھی غالب کی آتشِ عشق جب سرد نہ ہوئی تو وہ تجاہلِ عارفانہ کے لہجے میں اس تجسس میں لگ گئے کہ :
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا؟
یعنی یہ آزار عہدِ شباب سے پِیری تک اور حریت سے زندانیت تک آکاس بیل کی مانند شجرِ روح سے چمٹا رہے گا۔ اسی لیے غالب نے مقطع «بسکہ غالب ہوں.... الخ» میں لفظِ ”بھی“ کا اندراج نہایت سوچ سمجھ کر کیا۔ اس سے آزارِ عشق کا لایزال ولایموت ہونا متحقق ہوتا ہے۔
مقطع کا خطابیہ خود اکتشافیت (Self-Revelation) سے رنگین ہے اور یہ غالب ہی کا اعجاز ہے کہ درونِ خمیر صفات کی تجسیم کے بعد ان میں انکشاف کی رَو دوڑا دی۔مزید یہ کہ یہاں ذہنی وقوعے (Mental-Event) کا بالواسطہ اظہار بھی ہے۔

The End
 
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دل بے قرار کے
غالب

السلام علیکم، کوئی صاحب اگر اس شعر کی تشریح کر پائے تو نوازش ہو گی اگر مکمل شرح مل جائے تو بہت ہی خوب، شکریہ
 

دائم

محفلین
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دل بے قرار کے
غالب

السلام علیکم، کوئی صاحب اگر اس شعر کی تشریح کر پائے تو نوازش ہو گی اگر مکمل شرح مل جائے تو بہت ہی خوب، شکریہ

و عليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ اس نمبر پر ویٹس ایپ پہ رابطہ کریں:
03115929589
 

دائم

محفلین
قیدِ ہستی سے رہائی معلوم
اشک کو بے سر و پا باندھتے ہیں


قیدِ ہستی سے مراد قیدِ غمِ ہستی۔
بے سر و پا : بے ثبوت، لغو، غیر مربوط
باندھنا : قَید کرنا اور شعر میں نظم کرنا۔ دونوں معانی شعر میں مفیدِ مطلب ہیں۔

اشکوں کی بے سر و پائی بھی ان رہائی میں اُن کی معاون نہیں۔ چہ جائیکہ قیدِ ہستی سے رہائی۔
اَشک اپنی سرشت میں بے سر و پا ہونے کے باوجود قیدِ ہستی میں جکڑے ہیں کہ شعراء انھیں باندھ لیتے ہیں۔ یعنی نظم میں باندھ کر قَید کر لیتے ہیں۔ جب ایک نظم میں بندھے جانے سے رستگاری کی سکت ان میں نہیں تو قیدِ ہستی سے کیوں کر چھٹکارا مل سکتا ہے؟

طباطبائی لکھتے ہیں :
”لطف یہ ہے کہ ممکن پر عدمِ سابق بھی ہے اور عدمِ لاحق بھی۔ تو اشک کی طرح انسان بھی بے سر و پا ہیں۔ اور اشک کو باوجود بے سر و پا ہونے کے باندھتے ہیں اور کسی کے باندھنے سے بندھ جانا فرع ہے ہستی کی۔ غرض یہ کہ ہم ہستی کی قید میں ضرور رہیں گے اور مرتبۂ فنا جو عَین آزادی ہے، حاصل نہیں ہوگا“
(شرح دیوانِ اردوئے غالبؔ، صفحہ 550)

شاداںؔ کو شکوہ ہے کہ طباطبائی کا بیان سمجھ سے وراء ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ طباطبائی نے ہستی سے مطلق ہستی مراد لے کر رہائی کو مرتبۂ فَنَا سے تعبیر کیا ہے۔ اشک کی بے سر و پائی کو بالترتيب عدمِ سابق و عدمِ لاحق سے واضح کیا۔ یعنی وہ اَشک جو حالتِ وجود میں ہے۔ اس کا سَر (عدمِ سابق) اور پاؤں (عدمِ لاحق) دونوں نہیں اور اِس کا نظم میں بندھ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مقامِ وجود میں ہے، یعنی ہستی اس پر طاری ہے۔ اسی طرح اِنسان جو عدمِ سابق میں ہے نہ عدمِ لاحق میں، بلکہ یہ دنیاے امکان میں ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بھی امکان کا ایک عدمِ سابق ہوتا ہے اور ایک عدمِ لاحق۔ [حاشیہ دیکھیں] عدمِ سابق سے مراد عدم کا وہ مرحلہ جس سے قبل وجود نہ ہو اور عدمِ لاحق سے مراد عدم کا وہ مرحلہ جس کے بعد وجود نہ ہو۔ اِنسان عالمِ امکان میں ہے لہٰذا اس پر وجود فی الامکان کا اِطلاق کیا جانا اس کی ہَستی پر دَال ہے۔ اور اس ہَستی سے رہائی معلوم۔ پس جب تک عدمِ لاحق نہ ہو جو بظاہر فَنا لیکن غمِ ہستی سے آزادی کا پروانہ ہے، غمِ حیات سے چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ اسی کو غالبؔ نے یوں کہا کہ :
ع ۔ غم سے پہلے آدمی موت سے نجات پائے کیوں؟

بلکہ غالبؔ سے پہلے میرؔ نے بھی یہی فلسفہ منظوم کیا ہے :
ہم سے بِن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد

حاشیہ
(سوائے ذاتِ باری تعالیٰ کے، اس لیے کہ وہ ممکن الوجود نہیں بلکہ واجب الوجود ہے۔ واجب الوجود کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شے میں وجود مگر ہر شے کے جسمانی ہیکل کے مادی تقاضوں سے منزّہ۔ علماے متکلمین کے نزدیک وجود اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور صفات قائم بالذات تو ہیں، لیکن زائد بر ذات ہیں۔ جبکہ صوفیاے وجودیہ کے نزدیک وجود عینِ ذات ہے۔ امام ربانی اور بعض صوفیاء کے نزدیک حق یہ ہے کہ واجب تعالیٰ بذاتِ خود موجود ہے، وجود کے ساتھ نہیں۔ برخلاف تمام موجودات کے کہ وہ وجود کے ساتھ موجود ہیں۔ شیخ علاؤ الدین سمنانی لکھتے ہیں کہ فَوقَ عالَمِ الوجود عالَمُ الملک الودُود [مکتوباتِ امام ربانیؒ] یعنی عالمِ وجود سے اللہ تعالیٰ کا عالم اوپر ہے۔اس قول کا مطلب یہ ہے کہ وجود ذاتِ باری تعالیٰ کا عَین نہیں بلکہ غیر ہے اور کائنات سے فوق اور بلند ہے۔ واضح رہے کہ شیخ سمنانی نے نظریۂ عَینیت یعنی ہمہ اوست کے مقابلے میں ہمہ از اُوست پیش فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ اور کائنات ایک دوسرے کا عَین نہیں یہ کائنات ذات کے اسما و صفات کے ظلال کی مظہر ہے۔)

دائمؔ
 

دائم

محفلین
غَلَطی ہاے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رَسَا باندھتے ہیں



غَلَطی : یہاں اسلوبِ اظہار کی غلطی نہیں بلکہ مضمون کی غَلطی مراد ہے۔
رَسَا : رسیدن سے فاعل کا صیغہ۔ پہنچنے والا

سہلِ ممتنع میں کہے گئے اس شعر سے دو مفاہیم متبادر ہوتے ہیں۔ پہلا واضح ہے، دوسرا ذرا خفیف۔

1۔ نالہ نا رسا ہے، اور لوگ اسے مضمون کی غَلطی کی بنا پر رسا باندھتے ہیں
2۔ نالہ نارسا ہوتا تو باندھتا ہی کیوں؟ لوگوں کا اسے رسا باندھنا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ نارسا نہیں۔

شعر کی شرح میں مولانا آسیؔ اور منظور احسن نے سخت ٹھوکر کھائی ہے۔
مولانا آسیؔ نالہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ عَنقا صفت معدوم ہے۔ اور منظور احسن کے نزدیک "رسا" کا معنیٰ آنے والی چیز ہے جبکہ نالہ تو منہ سے باہر آتا ہے۔ اس سے دونوں کی شعر فہمی بلکہ زبان دانی کا تخمینہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ دونوں شارحین کو غالبؔ کے بعض اشعار کی تفہیم میں تفرُّد حاصل ہے مگر ایسی فاحش غَلَطیوں کا صُدور ان کی علمی ثقاہت اور لسانی دسترس پہ سوالیہ نشان ہے۔ واللَّهُ أَعلَمُ بالصَّوَاب

دونوں مصرعوں کے کلیدی ٹکڑے دو ہیں۔ "غلطی ہاے مضامین" اور "نالے کا رسا باندھنا"۔ شعر کی طلسم کاری کی شان دیکھیے کہ ہر ایک ٹکڑا ایک طرح غالبؔ کا نکتۂ اعتراض بھی ہے اور دوسرے مقام پر ثبوت بھی۔ مثلاً مندرجہ بالا دونوں معانی کو سامنے رکھیں تو پہلی صورت میں "غلطی ہاے مضامین" موردِ اعتراض ہے اور "نالے کا رسا باندھا جانا" ثبوت ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں نالے کا رسا باندھا جانا" محلّ اعتراض اور "غلطی ہاے مضامین" ثبوت۔ سُبحٰنَ اللَّهِ! یہ عجیب و غریب صنعت غالبؔ کا حصّہ ہے۔ اردو میں اس کی مثال مفقود۔ فارسی کا حال معلوم۔

لفظِ غَلَطی کے آخر میں یاے مَصدری پہ طباطبائی سَخت نالاں ہیں اور اسے غَلط در غَلط گردانتے ہیں اور بزعمِ خویش یہاں تک لکھ بیٹھتے ہیں فارسی میں کسی نے ایسا تصرّف نہیں کیا۔ بلکہ قدیم اردو میں بھی کسی کے ہاں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ لیکن سَچ یہ یہ ہے کہ طباطبائی کا یہ دعویٰ خود غَلَط در غَلط ہے۔ کیوں کہ غالبؔ سے پہلے سوداؔ، مصحفیؔ اور انشاؔ کے ہاں یہ لفظ یاے مصدری کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ غالبؔ کے معاصرین میں نواب یوسف علی خان ناظمؔ کے ہاں اس کی مثال موجود ہے۔ ذیل میں متقدمینِ غالبؔ میں سے مصحفیؔ اور معاصرین میں سے ناظمؔ کا شعر لکھتا ہوں :
مصحفیؔ (کلیاتِ مصحفیؔ، قطعہ در جوابِ اعتراضاتِ انشاؔ) :
اس سے بھی میں گذرا، غَلَطی اور یہ سنیے
بندھے ہے کوئی خوشۂ انگور کی گردن
ناظمؔ (کلیاتِ ناظم) :
میری قسمت سے پڑی کچھ غَلطی روزِ حساب
سب کہیں کاتبِ اعمال رقم بھول گئے

طباطبائی کا ایک اور اعتراض ہے کہ غَلطی چونکہ ہندی تصرف سے گذر چکا ہے لہٰذا فارسی ترکیب میں اس کا لانا، فارسی جمع بنانا یا فارسی اضافت اس کو دینا صحیح نہیں۔ بطورِ دلیل غالبؔ کے ایک خَط کا حوالہ دیا جس میں مرزا نے چوہدری عبد الغفور سرور کو لفظِ "انتظاری" بمعنیٰ انتظار باندھنے سے منع کیا ہے۔ طباطبائی کے اعتراضات غَلَط نہیں ہیں۔ لیکن اردو میں اگر اسی شدّت پہ تعامُل جاری رہے تو اُردو کے دامَن میں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ہمیں اُردو کے حَق میں توسیع پسندانہ رویّہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہی بقاے اردو کی ضمانت کا پروانہ ہے۔ قواعد کی پاسداری اَہمّ الامور سہی لیکن مرورِ زمانہ کے باعث ان میں ترمیم و تغییر کا در آنا لازمی اَمر ہے۔

دائمؔ
 

دائم

محفلین
عمدہ سلسلہ ہے۔

اگر ٹائپنگ مکمل ہو جائے تو ایپ میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ :)
السلام علیکم سر!
میں بھی دیوانِ غالب کی شرح لکھ رہا ہوں اور اس کی نوعیت کا اندازہ آپ اسی لڑی میری بھیجی ہوئی دو پوسٹیں دیکھیں۔ صرف نمونہ کے طور پر۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر میری اس شرح کی ایپ بنا لی جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ میری رواں شرح کی نوعیت کا اندازہ اس سے لگائیں......



کلامِ غالبؔ - تعبیر و تجزیہ

غالبؔ ہندوستان کا وہ عظیم شاعر ہے جو فکر و وجدان کے تخلیقی عمل میں تمام تر معنویت اور جمالیاتی قضایا کو یوں سمو دیتا ہے کہ اس کے خامۂ اعجاز سے معنیٰ آفرینی کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں۔ وہ لفظوں کو ان کے عام منہج سے بلند کر کے علامتی اور تمثیلی سطح پہ یوں باندھتا ہے کہ فن پارہ اس کا منشا نہیں عمل بن جاتا ہے۔
شعر کی زبان ہمیشہ اختصاری مزاج رکھتی ہے۔ کنایہ اس کا جوہر اور تہ داری اس کا لہجہ ہے۔ شعر برتا گیا ہر لفظ اپنی منطقی ضرورتوں کے حوالے سے خود مکتفی ہو تو تخیلاتی پرتیں اپنے اعلیٰ مظاہر میں متشکل ہوتے حشوِ کلام کی محتاج نہیں ہوتیں۔

میں نے کلامِ غالبؔ کا مطالعہ کرنے کے لیے تقابلی طریقہ اختیار کیا ہے۔ کیوں کہ یہی وہ وسیلہ ہے جس سے شاعر کا تخلیقی اسلوب، فن پارے کا معیار، فنّی لوازم کا عمل اور جمالیاتی بناوٹ کا مرتبہ معلوم ہوتا ہے اور بعض امور میں اس کے تفرّدِ شاعرانہ سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ مشرقی و مغربی شعریات کی روشنی میں کلامِ غالبؔ کی تفہیم کا سلسلہ اگرچہ حالیؔ نے شروع کیا تھا لیکن باضابطہ اور جامع پیرائے میں اس کام کا سہرا شمس الرحمان فاروقی کے سر ہے۔ لہٰذا مغربی شعریات کے حوالے سے ذاتی مطالعے کے علاوہ فاروقی کے مندرجات پر اعتماد کرتے ہوئے باحوالہ ان کا ذکر کیا ہے۔

میں نے ”کلامِ غالبؔ - تعبیر و تجزیہ“ کے ضمن میں ان مقاصد کو اپنا مطمعِ نظر رکھا ہے :
✴️ شعر میں کارفرما معنوی اور فنی تشکیل کے عمل کو سامنے لایا جائے۔
✴️ شعر میں موجود معنوی تنوعات کا احاطہ کیا جائے اور معانی کی درجہ بندی کرکے ان میں ایک ترجیح قائم کی جائے تاکہ مرادات کی کثرت انتشار کو مستلزم نہ ہو۔ نیز تشریح کی بجائے تعبیر سے کام لیا جائے۔
✴️ مختلف الدرجات معانی کا تعین اور ان کے مابین فنی اور تخلیقی ربط کو دریافت کیا جائے اور فرانس کے رولاں بارتھ (Roland Barthes) کے اس خیال ”متن کی تفہیم اور توضیح صرف قاری سے منسلک ہے اس عمل میں مصنف کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں“ سے قطعِ نظر متن فہمی کے عمل میں منشاے مصنف کو بھی حسبِ ضرورت اہمیت دی جائے۔ (منشا وہ تہذیبی عنصر ہے جو عصری تلازمے کے اثرات قبول کرکے مخصوص پیش منظر کا حامل بنتا ہے۔ لیکن چونکہ متن تخلیق کرنے والے کا اپنا تخلیقی زور اور فکری عمل خود شریکِ عمل ہوتا ہے، اس لیے متن میں مصنف کا عندیہ کلیۃً جھٹلایا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی اہمیت مسلَّمہ ہے۔)
✴️ وہ الفاظ جن کی حیثیت علامتی ہو، انھیں پیشِ نظر رکھا جائے تاکہ معنویتِ شعر کا جمالیاتی جوہر گرفت میں آئے۔
✴️ شعر کے فنی در و بست پہ معترضین کے بیجا اعتراضات کا جائزہ لیا جائے اور اس کی نوعیت اور موضوعیت پر ممکنہ فیصلے صادر کیے جائیں۔
✴️ تجزیاتی و تقابلی طریقہ کار سے اشعارِ غالبؔ کا جائزہ لیا جائے تاکہ غالبؔ کے تخئیلی و تشکیلی مرتبے کی اونچ نیچ کا تخمینہ لگایا جا سکے۔
✴️ عموماً یہ کوشش رہی ہے کہ کلامِ غالبؔ کی شرح کے لیے سادہ اسلوب اختیار کیا جائے تاکہ اس سے بالخصوص طالب علم اور بالعموم نیم خواندہ طبقہ فیض یاب ہو سکے لیکن جہاں ضرورت محسوس کی وہاں عالمانہ طرزِ شرح بھی اپنائی ہے تاکہ مقامِ شعر اور روحِ غالبؔ دونوں کی حرمت مجروح نہ ہو۔
✴️ وہ الفاظ جو معانئ لطیفہ یا تاویلیہ کے حامل ہوں، ان کی تہ میں کارفرما تخلیقی جوہر کا پتہ لگایا جائے۔ نیز بین المصرعَین تناسب و تلازم کی نشاندہی کی جائے، خواہ وہ صراحۃً مذکور ہو یا کنایۃً، ضمناً ہو یا دلالۃً۔
✴️ مطلبِ شعر حل کرنے کے بعد اس میں پنہاں نکات، فوائد اور لطائف کو بیان کیا جائے۔ نیز الفاظ کی لغوی حیثیت سے بھی حسبِ ضرورت بحث کی جائے۔
✴️ شبہاتِ ظاہر الورود کو رفع کیا جائے۔ مثلاً بعض اشعار سے متعلق سرقہ کا الزام ہے، حال آنکہ وہ اس زمرے میں نہیں آتے، ایسے اشعار سے الزامِ سرقہ اٹھا کر حقیقتِ حال واضح کی جائے۔

یوں تو کلامِ غالبؔ کی درجنوں شروح لکھی جا چکی ہیں لیکن اب تک کوئی ایسی شرح نہیں آئی جس میں مندرجہ بالا تمام مقاصد کی روشنی میں اشعارِ غالبؔ کو حل کیا گیا ہو۔ پس یہی مقاصد ایک نئی شرح کا جواز بلکہ وجوب ثابت ہوتے ہیں۔
کلامِ غالبؔ کی شرح کے سلسلے میں سابقہ شروح سے استفادہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ درجِ ذیل شارحین کی شرحیں میرے پیشِ نظر رہی ہیں :
خواجہ الطاف حسین حالیؔ
مولوی عبد العلی والہؔ حیدر آبادی
محمد عبد الواجد واجدؔ دکنی
درگا پرشاد نادرؔ
سید علی حیدر نظمؔ طباطبائی
سیّد آل حسین شاداںؔ بلگرامی
فضل الحسن حسرتؔ موہانی
پنڈت لبھو رام جوشؔ ملسیانی
پروفیسر یوسف سلیم چشتی
ڈاکٹر سید عبد اللہ
مولانا عبد الباری آسیؔ
نندلال کول طالبؔ کاشمیری
مولانا ناطقؔ گلاؤٹھوی
سید وحید الدین بیخودؔ دہلوی
بیخودؔ موہانی
شہاب الدین مصطفیٰ
آغا محمد باقرؔ
ناصر الدین ناصرؔ
نظام الدین حسین نظامیؔ بدایونی
قاضی خلیل الرحمان بینا بجنوری
علامہ نیازؔ فتح پوری
مولانا غلام رسول مہرؔ
ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری
منظور احسن عباسی
مختار علی خان پرتوؔ روہیلہ
مولانا ممتاز احمد سہاؔ مجددی بلند شہری
جعفر علی خان اثرؔ لکھنوی
وجاہت علی سندیلوی
قاضی سعید الدین احمد علیگ
شمس الرحمان فاروقی
پروفیسر ملک عنایت اللہ
ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

ان کے علاوہ غالبؔ شناسوں کی سیکڑوں کتب اور ہزاروں مضامین میرے مطالعے میں ہیں۔ ان سے حسبِ ضرورت استفادہ کرتا ہوں اور جس نکتے کو مفید جانتا ہوں، باحوالہ نقل کرتا ہوں۔ تقابلی و تجزیاتی طریقہ کار میں قدیم و جدید شعرا کے کلام ہاے اردو و فارسی سے بھی موقع محل کی مناسبت سے اشعار پیش کرتا ہوں۔ بطورِ سند ہو یا مضمونِ شعر کی ہم آہنگی کے طور پر۔ نقلِ اشعار کے بعد محاکمہ قائم کرتا ہوں اور ترجیحی بنیادوں پر غالبؔ کی انفرادیت کا تعین کرتا ہوں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ متنِ شعر میں کسی مقام پر اغلاق کا اندیشہ ہو تو اس کی ماہیۃً، لغۃً، تقسیماً، تصریفاً اور ترکیباً تحقیق کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں بعض اوقات اشہبِ خامہ کی سمت بدل ضرور جاتی ہے لیکن مقصود بہرحال تفہیم و تعبیرِ شعر ہی ہوتا ہے اس لیے اسے بھی گوارا کر لیا جاتا ہے۔
 
Top