واجدحسین
معطل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعظ شرعی پردہ پر قرآنی احکام کی تفصیل
(ربیع الثانی 1403ھ )الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرورانفسناو من سئیات اعمالنامن یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و نشھد ان محمد اً عبدہ ورسولہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی الہ و صحبہ اجمعین ۔امابعد
فا عوذ باللہ من الشیطن الرجیم ۔۔۔ بسم اللہ الرحمنِ الرحیم ۔
یا ایھا النبی اذاجا ٔ ک المؤمنت یبایعنک علی ان لایشرکن باللہ شئیا ولایسرقن ولا یزنین ولا یقتلن اولادھن ولایاتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن و ارجلھن ولایعصینک فی معروف فبا یعھن واستغرلھن اللہ ان اللہ غفوررحیم۔( 60 : 12 )
''اےنبی ''جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس آئیں کہ آپ انہیں ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولاد لائیں گی جسں کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بنا لیں اور مشروع باتوں میں وہ آپ کے خلاف نہ کریں گی تو آپ ان کو بیعت کر لیا کیجئے اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کیا کیجئے بے شک اللہ غفور رحیم ہے '' اس زمانہ میں ایمان پر بیعت ہوا کرتی تھی کہ ہم ایمان لے آئے، جو شخص ایمان لانا چاہتا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی درخواست کرتا تھا کہ ایمان پر بیعت کر لیجئے ،اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ''جب یہ ایمان کا دعوی کرنے والی عورتیں آئیں اور آپ سے بیعت کی درخواست کریں تو آپ ان سے چند چیزوں کا وعدہ لیں۔''
رسول ﷺ کا عورتوں کو بیعت کرنے کا طریقہ
یہ یاد رکھیں کہ عورتیں جب رسولﷺ کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوتی تھیں تو پردہ میں ہوتی تھیں، پردہ ہی کا بیان چل رہا تھا ،اس لئے یہ بتا رہا ہوں ،رسولﷺ کی ذات گرامی،اشرف المخلوقات اور امت کی عورتیں جن کورسولﷺ کی ذات گرامی پرایمان ہے، وہ عورتیں جو ایمان لانے کے لئے بیعت ہونا چاہتی ہیں تو وہ بھی پردہ سے ،رسولﷺ کے یہاں پردہ ہو رہا ہے ''آپ ﷺ پردہ کروا رہے ہیں ''اب آپ سوچیں کہ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بڑے پاک دامن ہیں ہمارے یہاں پردہ کی ضرورت نہیں ''کیا رسولﷺ سے بھی یہ لوگ زیادہ پاک دامن ہیں؟ اور صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن یعنی صحابی عورتوں سے ان کی خواتین زیادہ پاک دامن ہیں؟ رسولﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن جو امت کی مائیں ہیں ان کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے پردہ تھا،توکیا آج کل کی عورتیں جو نماز بھی صحیح نہیں پڑھ سکتیں،بلکہ پاکی اور پلیدی تک کی تمیز نہیں رکھتیں ان سے زیادہ پاک دامن ہیں؟کچھ سوچناتوچاہئے کچھ غور کرنا چاہئے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ بیعت کے وقت کوئی عورت اپنا ہاتھ رسولﷺ کے ہاتھ میں نہیں دیتی تھی ، خواتین سے بیعت کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ رسولﷺ ان کا ہاتھ پکڑیں ،ہا تھ کے اشارہ سے بیعت ہوتی تھی،ہاتھ میں ہاتھ نہیں لیا جاتا تھا،رسولﷺ پوری امت کے رسول ہیں،اور والد کے قائم مقام ہیں،یہ تعلق اور یہ رابطہ اورپھررسولﷺ کی ذات اقدس،اس پر پردہ کا اتنا اہتمام۔
شرک سےبڑاگناہ
فرمایا کہ جب یہ عورتیں آئیں،ایمان پر بیعت کرنے کی درخواست کریں تو آپ بیعت کے وقت ان سے وعدہ لیں کہ ان لایشرکن باللہشیئاسب سے پہلی بات یہ کہ ''اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا'' گذشتہ بیان میں اس پر بات چل رہی تھی یہ آیت عورتوں کے بارے میں ہے مگر اس میں مرد بھی شامل ہیں عورتوں سے اس بات پر بیعت لینے کا ذکر ہے '' مگر ظاہر ہے کہ مردوں کے لئے بھی یہی احکام ہیں '' اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے '' سوچیں کہ آپ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک تو نہیں کرتے ؟ میرے وعظ '' ایمان کی کسوٹی '' میں تفصیل سے یہی بیان ہے ، ہر شخص یہ سوچے کہ وہ شرک سے بچتا ہے یا نہیں ؟شرک کا کیا مطلب ؟ اللہ تعالی کے مقابلہ میں غیر کو ترجیح دینا یہی شرک ہے، اللہ تعالی کے برابر کرنا شرک ہے، اور اگر اللہ تعالی سے بھی بڑھا دیا پھر تو وہ شرک سے بھی اونچی بات ہو گئی ،اگر ایک طرف اللہ تعالی کا حکم ہے اور دوسری طرف آپ کے ماحول کا، معاشرہ کا، والدین کا، بھائیوں اور بہنوں کا ، احباب و اقارب کا ،بیوی کا یا بیوی کے لئے میاں کا ، تو دونوں کے درمیان مقابلہ ہو جا تا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تمہیں یہ کام کرنے کی اجازت نہیں ،اگر کرو گے تو میں ناراض ہو جاؤں گا ، دیور اور جیٹھ کے سامنے ''چچا زاد '' پھوپھی زاد کے سامنے '' ماموں زاد ، خالہ زاد کے سامنے، بہنوئی، نندوئی کے سامنے ، پھوپھا، خالو کے سامنے اگر چہرہ کھولا تو میں ناراض ہو جاؤں گا ، میں نےا سےحرام کردیاہےایساہرگزمت کرنا اور دو سری طرف یہ سارے ''زاد '' کہتے ہیں کہ ہم سے پردہ کیا توہم ناراض ہو جائیں گے دیور کہتا ہے کہ اگر پردہ کیا تو میں ناراض ہو جاؤں گا، بہنوئی کہتا ہے پردہ کیا تو میں ناراض ہو جاؤں گا، نندوئی کہتا ہے پردہ کیا تو میں ناراض ہو جاؤں گا ، ایسی باتیں سننے میں آتی رہتی ہیں یہ واقعات میرے علم میں ہیں، ایک خاتون نے بہنوئی اور نند وئی سے پردہ کر لیا تو وہ لوگ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے یہ کہہ کر کہ ہم کبھی اس گھر میں نہیں آئیں گے ، یہ بات سمجھ میں آرہی ہے ؟ شرک سے بڑھ کر گناہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ؟ ایک طرف اللہ تعالی کا حکم اور اس کے مقابلہ میں اعزہ واقارب کے حکم پر عمل ہو رہا ہے ان کے ہر حکم پر اللہ تعالی کے حکم سے بڑھا کر عمل کر رہے ہیں '' ان کا حکم مان رہے ہیں '' اللہ تعالی کا حکم نہیں مان رہے '" شرک اسے کہتے ہیں کہ کسی کو اللہ تعالی کے برابر کردیا جائے '' مگر آج کا مسلمان برابر تو کیا اللہ تعالی سے بڑھا دیتا ہے "اپنے اعزہ واقارب سے اتنا ڈرتا ہے کہ اللہ تعالی سے اتنا نہیں ڈرتا ''اعزہ واقارب کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اتنی محبت نہیں '' غیر کے حکم کو اتنا مانتا ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کو اتنا نہیں ما نتا"اس کے بعد اپنے نفسں کی طرف آئیے '' اللہ تعالی کا حکم یہ ہے کہ گناہ کا کام مت کرنا ''اگر کرو گے تو میں ناراض ہو جاؤں گا'' مگر دل کہتا ہے کہ یہ گناہ بھی کرلو '' یہ گناہ بھی کرلو '' نفس کے تقاضے ہیں کہ گناہ کرو''اللہ تعالی فرماتے ہیں مت کرو ، نفس کہتا ہے کہ گناہ کرو ، ایسے وقت میں آپ کیا کرتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالی کے حکم کو مقدم رکھتے ہیں '' اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اللہ تعالی کا خوف زیادہ ہے '' اللہ تعالی سے محبت زیادہ ہے " ان کی محبت کی وجہ سے اور خوف کی وجہ سے نفسں کے تقاضوں کو اللہ تعالی کی رضا پر قربان کر دیتے ہیں '' اللہ تعالی کی اطاعت کرتے ہیں '' اپنے نفسں کی اطاعت نہیں کرتے تو معاملہ ٹھیک ہے ''اور اگر اللہ تعالی کے حکم کو چھوڑ دیا'' نفسں کی اطاعت کی'' گناہ کے تقاضوں کو پورا کیا '' اللہ تعالی سے نہیں ڈرے '' تو اپنے نفسں کو اللہ تعالی سے بڑا اللہ مانتے ہیں'' [arabic]أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ[/arabic] ( 45 : 23 )
ا فرمایا کہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں کہ اپنی خواہش نفسں کو اللہ بنائے ہو ئے ہیں '' اسی کی اطاعت کرتے ہیں "' اللہ تعالی کی اطاعت نہیں کرتے ''ایک بزرگ کا قصہ اکثر بتاتا رہتا ہوں ''اسے سوچتے رہنا چاہئے '' وہ اکیلے بیٹھے بول رہے تھے :
''نہ میں تیرا بندہ نہ تو میرا اللہ ،تیری بات کیوں مانوں؟''
کسی نےسن لیا حاکم سے شکایت کردی کہ یہ کفر بک رہا ہے، حاکم نے بلا کر پوچھا آپ کے خلاف شکایت ہے کہ آپ یہ کہہ رہے تھے :''نہ میں تیرا بندہ نہ تو میرا اللہ ،تیری بات کیوں مانوں ؟''انہوں نے کہا:
''ہاں ٹھیک ہے، میں یہ کہہ تورہ تھا،مگرمیرامطلب ان لوگوں نے نہیں سمجھا،میرا نفس کسی گناہ کا تقاضا کر رہا تھا،اور یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں گناہ کرو ،میں نہیں کر رہا تھا،وہ مجبور کر رہا تھا، بہت اصرار کر رہا تھا کہ یہ گناہ کرلو تومیں نے نفس کو خطاب کر کے یہ کہنا شروع کردیا کہ اے مردودنفس ! نہ میں تیرا بندہ ،نہ تو میرا اللہ ،تیر ی بات کیوں مانوں؟یہ تو میں اپنے نفسں سے کہہ رہا تھا '' نفسں سے کبھی کبھی اسیی باتیں کیا کریں ''جہاں گناہ کے تقاضے پیدا ہوں فورا سوحپئے کے میرا اللہ کون ہے میں کس کا بندہ ہوں بندہ ا یک کا اور غلامی کرے کسی دوسرے کی؟ جو ایسا کرتا ہے اس نے اپنے نفسں کو اللہ تعالی سے بڑا سمجھا ''نفسں کی عظمت زیادہ کی ۔
رزق کا مالک کون ؟
فرمایا کہ بیعت یوں لیجئے:علی ان لا یشرکن با اللہ شیئا ولایسرقن ولا یزنین ولا یقتلن اولا دھن ۔
''اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔''
نہ ماں کو نہ باپ ،نہ بھائی کو نہ بہن کو،نہ شوہر کونہ بہنوئی کو، نہ نندوئی اور نہ اپنے نفس کو،اللہ تعالی کے حکم کے مقابلہ میں کسی کا حکم نہیں مانیں گی۔
''چوری نہیں کریں گی،بدکاری نہیں کریں گی،اپنی اولادکوقتل نہیں کریں گی۔''
اس زمانہ میں اولاد کو قتل کرنے کا دستور تھا ''بعض لوگ تو صرف لڑکیوں کو قتل کرتے تھے اس جہالت سے کہ کوئی داماد نہ بن جائے''اور بعض لوگ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں ہی کو قتل کرتے تھے کہ رزق کہاں سےآئے گا؟ جیسے آج کل کی نالائق حکومتوں کا خیال ہے ، جب لوگ کوئی دعوت کرتے ہیں تو پچاس کو بلانا ہو تو احتیاطا ساٹھ (60) کا کھانا تیار کرواتے ہیں تاکہ وقت پر کم نہ پڑ جائے ، ضبط تولید کے مشورے دینے والوں کو اتنی عقل بھی نہیں کہ ہم تو سو (100) کی دعوت کریں تو ایک سوپچیس (125)کا کھانا پکوائیں ،اور اللہ تعالی نے جتنے نفوس پیدا فرما دئیے کیا ان کو اس کا علم ہی نہیں کہ ہمیں کتنے نفوس کو کھانا کھلانا ہے، اپنی عقل کو اللہ تعالی کے علم و مصلحت سے بڑی سمجھتے ہیں،معاذ اللہ! معاذ اللہ! اللہ تعالی کو بے وقوف سمجھتے ہیں گویا اللہ تعالی کو یہ پتا ہی نہیں کہ ہم جتنی روحیں پیدا کر رہے ہیں ان سب کا انتظام کرنا ہے، یا یہ کہ معاذ اللہ! اللہ تعالی کہیں کسی کونے میں سوئے پڑے ہیں اور روحیں خود بخود نکلی چلی جا رہی ہیں، ان کو پتا ہی نہیں کہ کتنی پیدا ہو گئیں؟ہائے آج کےمسلمان کو کیا ہو گیا؟کہلائیں مسلمان اور ایسے نظریات ؟ یا اللہ ! یا تو یہ لوگ اسلام کا دعوی چھوڑ دیں یا ان کوصحیح مسلمان بنا دے ۔
اولاد کے قتل سے بڑا جرم :
وہ لوگ اولاد کواس لئے قتل کرتے تھے کہ رزق کہاں سےآئےگا؟قتل کر کے ان کی دنیوی زندگی ختم کر دیتے تھے ، مگراس سے بچوں کا فائدہ ہو جاتا تھا ، وہ یوں کہ وہ بالغ ہو کر حالت کفر میں مر جاتے تو جہنم میں جاتے ، مگر بچپن میں مر جانے کی وجہ سےجنت میں جائیں گے اگر جنت میں نہ بھی گئے تو جہنم میں نہیں جائیں گے،کفار کے نابالغ اولاد مر جائے تواس میں کچھ اختلاف ہے لیکن بہرحال جہنم میں نہیں جائیں گے، عذاب سےبچ گئے ، دنیا کی زندگی باقی نہیں رہی ، بہر حال مرنا تو تھاہی ذرا پہلے مر گئے ، مگر آج کا مسلمان اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو جہنم میں دھکیل رہا ہے ، کافر قتل کر کے اولاد کو جہنم سے بچا لیتے تھے اور آج کا مسلمان اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو جہنم میں دھکیل رہا ہے ، برے ماحول میں بھیجنا ، برے معاشرہ میں تربیت دلانا اپنے ہاتھوں سے جہنم میں بھیجنا ہے ۔ فرمایا کہ اس بات پر بیعت کریں کہ اپنی اولادکوقتل نہیں کریں گی،اللہ ! ذرا سوچئے کہ آج کل آپ لوگ اپنی اولاد کو قتل کرنے سےکہیں زیادہ سخت سزادےرہےہیں یا نہیں دے رہے؟جہنم میں بھیج رہے ہیں یا نہیں۔
اللہ اوراس کےرسول ﷺ پر بہتان لگانا :
ولایاتین ببہتان۔
''کسی پر بہتان نہیں لگائیں گی''۔
سوچئےکہ کیا آپ خانہ زادرسوم اورخودساختہ بدعات کودین اسلام میں داخل کر کے اللہ تعالی اوراس کےرسولﷺ پر بہتان نہیں لگا رہے؟اس کی تفصیل میرے وعظ"' بد عات مروجہ میں دیکھیں ، جب کسی انسان پر بہتان لگانا جائز نہیں ،اور یہ ایساسخت جرم ہے کہ اس سےبچنے پر بیعت لی جا رہی ہے تو غور کیجئے کہ اللہ تعالی اوراس کےرسول ﷺ پر بہتان لگانا کتنا بڑا جرم ہو گا؟
شرک کے بعد چار باتیں گنوا کر آگے ایک قاعدہ بیان فرما دیا:
ولایعصینک فی معروف۔
''کسی نیک کام میں آپ کے خلاف نہیں کریں گی۔''
آپ کا جو حکم بھی ہوگااس کوتسلیم کریں گی۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا:
میں بیعت ہونے والے کو پہلے کفر، شرک ، بدعت، اور ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کرواتا ہوں ، پھر نماز، زکوٰۃ ، حج ادا کرنے کا وعدہ لیتا ہوں، اس کے بعد یہ وعدہ لیتا ہوں کہ ''میں پوری زندگی شریعت کے مطابق گذاروں گا ''اس زمانے کامسلمان جہادسےبہت ڈرتا ہے،لمبے لمبے وظیفے تو پڑھ لے گا مگر جہاد کے تصور سے بھی جان نکلتی ہے،اس لئے میں بوقت بیعت یہ وعدہ بھی لیتا ہوں:
''اگر اللہ کی راہ میں جان یا مال د دینے کا موقع پیش آیا تو بخوشی دوں گا۔''
اگر کوئی صدق دل سے یہ وعدہ کرتا ہے اور اس پر قائم رہتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے ،انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے دستگیری ہوتی ہے، مدد ہوتی، وہ آخرت کے لئے کوشش کرنے والے کو کبھی محروم نہیں فرماتے۔
رسولﷺ سے جو خواتین بیعت کی درخواست کرتی تھیں ان کے لئے آخری جملہ بیعت میں وعدہ لینے کا یہ ہوتا تھا کہ کسی بات میں بھی آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گی، جوخواتین رسولﷺ پرایمان کا دعوی کرتی ہیں وہ آپ کی بیعت میں شامل ہو جاتی ہیں، رسولﷺ سے بیعت ہو گئیں، پھر بیعت ہونے کے بعد کہتی ہیں ،کہ جی!پردہ کرنا تو بڑا مشکل ہے، فلاں گناہ چھوڑنا تو بڑا مشکل ہے، مسلمان بنناتو بڑا مشکل ہے ، اگرمسلمان بننا بڑا مشکل ہے تو اس مشکل کام کو چھوڑ دیجئے، کون کہتا ہے کہ آپ مسلمان بنیں، اسلام کو چھوڑ دیجئے، اسلام کوتو نہیں بدلاجاسکتا، اسلام تو وہی رہے گا جو اللہ تعالی نے رسول ﷺ پر نازل فرمایا ، اس کاقانون نہیں بدل سکتا،اگر کسی کو یہ اسلام مشکل لگتا ہے تو چھوڑ دے، اس کومسلمان رہنے کی کیامجبوری ہے ؟جودین بھی آسان لگتا ہے وہی دین اختیار کر لے ۔
یا مکن با پیل بانان دوستی
یا بنا کن خانہ برا انداز پیل
''یا تو ہاتھی والوں سے دوستی مت رکھو ، یا پھر مکان اتنا بڑا تو بناؤ کہ جس میں ہاتھی سماسکے۔''یا بنا کن خانہ برا انداز پیل
ان کے ساتھ دوستی ہے تو نبھانے کے طریقے سوچو۔
لمبی چوڑی بات سے کیا فائدہ؟دو ٹوک بات کرو، دو کاموں میں سے ایک کام کرلو، دوغلاپن صحیح نہیں ، یا تو اپنا بدن دوست کی رضا میں فنا کردو، دوست کا جو حکم ہو اس پر اپنے آپ کو مٹا دو''مردہ بدست زندہ''بن جاؤ۔ مردہ کو زندہ لوگ الٹیں پلٹیں،جیسے جی چاہے کریں، دوست کی ر ضاپر اپنی خواہشات کو قربان کردو، مکمل مسلمان بن جاؤ،کوئی اپنی خواہش باقی نہ رہے،اپنے آپ کو اس دوست کے سپردکردو،اور اگرایسا نہیں کرسکتے تو محبت کا دعوی چھوڑ دو، محبت کا دعوی کر کے حکم کے خلاف کرنانفاق ہے، بچپن میں جب مجھے پوری طرح ہوش بھی نہیں آیا تھا ایک شعر کہیں سےسن کر یاد ہو گیا تھا اور وہ میں بہت پڑھا کرتا تھا
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
دوغلاپن چھوڑ دیجئے،یاتو موم بن جائیے اور اگر موم بننے کو تیار نہیں تو پتھر بن جایئے ۔سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
احسب الناس ان یترکواان یقولوا اٰمناوھم لا یفتنون ۔ولقد فتناالذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکذبین(29 : 1 تا 3 )
''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا؟اور ہم تو ان لوگوں کو آزما چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں سو اللہ تعالی ان لوگوں کو جان کر رہے گا جو سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا
قالت الااعراب امنا قل لم تو منو اولکن قولو اسلمنا ولمایدخل الایمان فی قلو بکم (49 :14 )
ایمان کا دعوی کرنے والے تو بہت ہیں '' فرمایا '' بہت سے لوگ کہتے ہیں : امنا '' وہ غلط کہتے ہیں'' جھوٹ بولتے ہیں '' مومن کون ہوتے ہیں
وما کان لمو من ولا مومنۃ اذاقضی اللہ ورسلہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم من یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا'' (33 : 36 )
'' کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کیلئے کوئی گنجائش نہیں کہ جہاں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ آجائے پھر وہ اسے قبول نہ کرے ''
یہاں صرف ''مومن '' پر اکتفاء نہیں فرمایا ، تاکہ مومن عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ یہ تو مردوں کو کہا گیا ہے ہم تو آزاد ہیں ، ہمارے لئے کچھ نہیں ہے ،اس لئے خاص طور پر صراحت کے ساتھ فرمادیا کہ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لئے کوئی گنجائش نہیں کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ نے کوئی حکم دے دیا تو پھر بندہ کا اپنا اختیار بھی کچھ اس میں ہو، ان کو کوئی اختیار نہیں ،جو حکم ہو گا اس پر عمل کرنا ہو گا اور جو نہیں کرتا وہ سخت گمراہ ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما۔ (4 : 65 )
کیسا ظالم انسان ہے کہ اللہ تعالی کو بھی قسم کھلا رہا ہے ، اللہ تعالی جانتے ہیں کہ میں نے جن بندوں کو پیدا کیا وہ ایسے نالائق ہوں گے، ایسے نالائق ہوں گے ان کو سمجھانے کی خاطر مجھے قسمیں بھی اٹھانا پڑیں گی، ''فلا وربک''ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، تیرے رب کی قسم! ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا، قسم کھا کر اللہ تعالی نے فرمایا، کیا؟ کبھی کوئی فرد ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتا خواہ وہ کچھ بھی کہتا رہے ، اسلام کے کیسے ہی دعوے کرتا رہے، مسلمان ہوں ، مسلمان کا بیٹا ہوں، آج کا مسلمان''عبدالرحمن''سے''رحمن''بن گیا ہے، یہ اچھی ترکیب سوچی ہے،''عبدالرحمن''کہلاتا ہے تو پھرتو کام کرنے پڑیں گے نا، اس لئے''عبد''اتار دو''رحمن''بن جاؤ اب یہ خود ''رحمن''بن گیا ہے خود اللہ بن گیا ہے،اب اس کی حکومت ہے، معاذ اللہ! اللہ بھی اس کا بندہ بن گیا ہے۔ ایک شخص کا نا م '' عبدا اللہ'' تھا ، وہ ٹیلیفون پر بتاتا تھا کہ '' اللہ بو ل رہا ہو ں ''سب ایسے ہی ،'' روف صاحب'' ''حق صاحب'' شکو ر صاحب ''اور اگر کسی نے بہت ہی ر عایت کی تو کیا ہوا؟ ا ے رحمن'' بن گئے، یعنی '' عبد ''بننے میں ذلت ٘محسوس کر تا ہے ، '' عبد'' کے معنی ہیں '' بند ہ اور بند ہ کے معنی ہیں '' غلام '' احکام کوتسلیم کرنے والا اس کو بندہ بننے میں، احکام تسلیم کرنے میں اللہ تعالی کا غلام بننے میں ،اللہ تعالی کے سامنے ذلیل ہونے میں عارآتی ہے، جب اللہ تعالی کا حکم نہیں مانتا تو''رؤف''بھی خود ہی بن گیا، ''رحیم''بھی خود ہی بن گیا ''رحمن''بھی خود ہی بن گیا''عظیم''بھی خود ہی بن گیا، اور اگر کسی نے کہا کہ ارے! کیا کہہ رہے ہو تم اللہ نہیں ہو، تو کہتے ہیں میں تو''اے رحمن''ہوں ''عبد الرحمن '' کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالی کا بندہ نہ بن جائے ، اللہ تعا لی کا بندہ بن گیا تو مصیبت آ جا ئے گی ، '' عبدالرحمن '' کبھی نہیں کہے گا ، والد ین نے تو بندہ بنانے کی کوشش کی مگر یہ بندہ بننا نہیں چاہتا ، اللہ کے بند و ! آیندہ ایسا نام کبھی نہ رکھنا'' عبد '' والا نام رکھنا چھوڑ دیجئے ، نتیجہ سامنے ہے ، نام '' عبد الرحمن '' رکھتے ہیں وہ رحمن بن جا تا ہے ۔ ایسے نام رکھنے ہی نہیں چا ہئیں جن کا نتیجہ برا ہو۔
معیاری ایمان
ہاں تو بات چل رہی تھی کہ ہر گز ایمان کا دعوی قبول نہیں ہو گا جب تک کہ آپس کے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کا حکم تسلیم نہیں کر لیتے ، صرف یہی نہیں کہ حکم تسلیم کر لیں اس کے سا تھ ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ کے حکم میں ذرہ برابر بھی شک و شبہہ نہ ہو ، اس پر عمل کرنے میں ذرہ برابر بھی نا گواری نہ ہو ، تو مو من ہوں گے ورنہ مو من نہیں ہوں سکتے ،لوگ کہتے ہیں کہ یہ پردہ وردہ کے احکام بہت مشکل ہیں، آج کل ان پرعمل کرنا بہت مشکل ہے، ذراسوچئےکہ اگر کسی حکومت نے ایسے قوانین بنا دئیے جن پر رعیت کو عمل کرنا مشکل ہو توکیا ہو گا؟ لوگ شور کریں گے کہ یہ بہت سخت قانون ہے، اس پرعمل کرنا بہت مشکل ہے، یہ تو ظلم ہے، یہ حکومت بڑی ظالم ہے، اس کے خلاف جلسے کرو،جلوس نکالو، مردہ باد کے نعرے لگاؤ وغیرہ وغیرہ ۔