ذاتی کتب خانہ شرلاکینز کے لیے ایک خوشخبری: شرلاک ہومز: قاتل نظم اور دیگر کہانیاں

کتاب کے سرِ ورق پر بڑے بڑے حروف میں شرلاک ہومز کا نام لکھا تھا لیکن اسے اٹھاتے ہی اندازہ ہوگیا کہ اس کا تعلق صحیفہ کانن ڈائل (The Canon) سے نہیں ہے۔ پھر بھی، دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ جیکو پبلشر ہند کی چھپی ہوئی خوبصورت کتاب تھی۔ شرلاک ہومز: قاتل نظم اور دیگر کہانیاں Sherlock Holmes: The verse of Death and other stories ہندوستانی قیمت کو دیکھ کر اس کا پاکستانی روپیوں میں حساب کیا ہی چاہتے تھے کہ مقامی قیمت کے ٹیگ پر بھی نظر پڑگئی۔ ذہن میں فوراً اس کا دس فیصد نکالا، اصل قیمت سے گھٹانے پر دل کو گونا تسلی ہوئی تو کتاب کو بغل میں داب لیا ۔ ایک بارگی کچھ خیال آیا تو پھر سے کتاب کے سرِ ورق کا بغور مطالعہ کرنے لگے۔ اندازہ ہوا کہ صحیفہ نہ سہی ، ڈاکٹر واٹسن کے آہنی صندوق( The Tin Dispatch Box) سے ان کہانیوں کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔، خرید ہی لیں۔ کچھ ذہنی تگ و دو کے بعد ہاتھ جیب میں چلا ہی گیا۔

آرتھر کانن ڈائل کے کردار شرلاک ہومز سے متعلق ہماری معلومات کچھ واجبی سی ہی ہیں۔ ان کی چند کہانیاں بشمول شہرہ آفاق ناول 'باسکر ول کا کتا' ( The Hound Of Baskerville ) پڑھ رکھی ہیں ۔ البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ "The Adventure of the Dancing Men" ہماری پسندیدہ ترین سراغرسانی کی کہانی ہے ۔ امید ہے اب تک آپ ہمارے شرلاکین ہونے کا یقین کرچکے ہوں گے۔ ادھر ہم اس کے برعکس آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ معلومات کچھ نہیں، ہمارے بچے شرلاک ہومز کی ٹی وی سیریز دکھ کر ہم سے بڑے شرلاکین بن چکے ہیں۔

گھر پہنچے تو کتاب شروع کرنے سے پہلے پیر گوگل شریف مد ظلہ العالی سے رجوع کیا جو دنیا کے ضخیم ترین شرلاک ہومز کی کہانیوں کے مجموعے کے بارے میں کچھ دور کی کوڑیاں لائے۔

سن دو ہزار پندرہ کے اوائل کا ذکر ہے ، ایک دن ڈیوڈ مارکم صبح سویرے نیند سے بیدار ہوئے تو ان کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال جنم لے رہا تھا۔ کیوں نہ شرلاک ہومز کی نئی کہانیوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا جائے۔ اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک کر دوبارہ نیند کی میٹھی وادیوں میں کھوجانے کے بجائے وہ سر جھٹک کر اٹھ بیٹھےاور جن کہانی نویسوں سے کہانی لکھوانی تھی ان کے ناموں کی اپنے ذہن میں فہرست بنانے لگے۔

ادھر انہی دنوں سر آرتھر کانن ڈائل کا وہ گھر جس میں بیٹھ کر انہوں نے اپنا شہرۂ آفاق ناول دی ہاؤنڈ آف باسکرولز لکھا تھا، ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ کئی پارٹیاں اسے خرید کر ڈھادینے اور اس کی جگہ شاپنگ سنٹر بنانے پر تلی ہوئی تھیں ۔ ایک ٹوٹے پھوٹے گھر سے جس کا نام انڈرشا تھا دلچسپی تھی توشرلاک ہومز کے دیوانوں یعنی عرفِ عام میں شرلاکینز ہی کو تھی۔ بات کورٹ کچہری تک جاپہنچی۔ دل کی فتح ہوئی اور اس عمارت کو اسپیشل بچوں کے ایک اسکول نے خرید لیا اور اس کی مرمت کے بارے میں سوچنے لگے۔ مرمت کے لیے اچھی خاصی رقم درکار تھی۔ اب سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اتنا بہت سا پیسہ آخر آئے گا کہاں سے؟ منچلوں نے اس مہم کو سر کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے ایک فنڈ بناکے لگے چندہ جمع کرنے۔

ڈیوڈ مارکم David Marcum نے اپنے خیالی پلاؤ یعنی شرلاک ہومز کی نئی لکھی ہوئی کہانیوں سے انتخاب میں اپنے پبلشر یعنی ایم ایکس بکس کے اسٹیو ایمکز Steve Emecz کو شریک کیا تو وہ اچھل پڑے۔

ضرور کتاب بناؤ۔ ہم اس پراجیکٹ کی تمام آمدنی انڈرشا کی مرمت کے فنڈ میں دیں گے۔ انہوں نے خوشی سے اعلان کیا۔

مارکم نے سراغ رسانی کی کہانیاں لکھنے والوں کو ای میل بھیجے اور انتظار کرنے لگے۔ انتظار کی گھڑیاں ابھی طویل نہیں ہوئی تھیں کہ کہانیوں کے ای میل آنے شروع ہوئے اور کئی ماہ تک لگاتار آتے رہے۔ کہانیوں کی تعداد چالیس ہوئی تو مارکم کا ماتھا ٹھنکا۔ ساری ہی کہانیاں اچھی تھیں اور اتنا مواد ایک جلد میں تو آنے سے رہا۔ انہوں نے پھر پبلشر کو فون کھڑکایا۔ بھائی جان ! اتنی کہانیاں ایک جلد میں تو نہیں سما سکتیں۔ پبلشر نے دو جلدوں کی حامی بھرلی تو مارکم خوشی سے پھولے نہ سمائے اور جلد جلد کہانیاں سمیٹنے لگے، لیکن خدا کی کرنی اس اثنا میں کوئی ساٹھ کہانیاں جمع ہوگئیں اور انہیں پھر پبلشر سےبات کرنی پڑی اور یوں شرلاک ہومز کی نئی کہانیوں پر مشتمل تاریخ کے ضخیم ترین مجموعے نے جنم لیا ۔ سن دو پزار پندرہ میں کتاب کی تینوں جلدیں چھپ کر بازار میں پہنچیں تو اشاعت کی دنیا میں بھونچال آگیا۔ کتاب خوب بکی۔

یہ ہے دوستو! ایم ایکس بک آف نیو شرلاک ہومز اسٹوریز کی کہانی۔ خاصے کی چیز ہے۔جیب اجازت دے تو ضرور خریدیئے اور پڑھیے۔ ہمیں یقین ہے کہ اردو محفل پر محفلین کی ایک کثیر تعداد شرلاکین ہے اوراس کتاب سے محظوظ ہوگی۔

مزید معلومات کے لیے مندرجہ ذیل ویب سائیٹس ضرور دیکھیے۔


Behind the World's Largest New Sherlock Holmes Story Collection - I Hear
of Sherlock Everywhere



(جاری ہے)
 
آخری تدوین:
(گزشتہ سے پیوستہ)
اپنے جاسوسی ناولوں اور لازوال کرداروں انسپکٹر فریدی، سارجنٹ حمید اور علی عمران ایم ایس سی ڈی ایس سی آکسن کی تخلیق کے لیے مشہور اردو کے مصنف جناب ابنِ صفی نے شرلاک ہومز ہی سے متاثر ہوکر انسپکٹر فریدی کا کردار تخلیق کیا ۔ خود کہتے تھے کہ جاسوسی دنیا سیریز کی شروع کیچند کہانیاں انگریزی سے ماخوذ تھیں۔ ہم نے خود اس کا تجربہ کس طرح کیا یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔

ہم نے کانن ڈائل کا ناول دی ہاؤنڈ آف باسکر ولز پڑھنا شروع کیااور ابھی چند ہی صفحے پڑھے تھے کہ چونک اٹھے۔ کتاب کو دوبارہ شروع سے پڑھنا شروع کردیا۔ اب کی بار اس التزام کے ساتھ کہ ہر مرتبہ جب شرلاک ہومز کا نام آتا، کرنل فریدی پڑھتے ، اسی طرح ڈاکٹر واٹسن کے نام کو کیپٹن حمید سے بدل دیا اور آخر تک اسی طرح پڑھتے رہے۔ جہاں ہم شرلاکین ہیں وہیں بچپن سے ہی ابنِ صفی کے چاہنے والے بھی۔ پڑھنے کا لطف دوبالا ہوگیا۔ سوچا کہ زندگی میں کبھی موقع ملا تو اس ناول کا اردو ترجمہ کچھ اسی انداز میں کریں گے۔

جاسوسی اور سراغ رسانی کے ناولوں کی بات ہو تو کتاب نیلی چھتری اور اس کے خالق ظفر عمر کا تذکرہ کیوں نہ ہو۔ ہم اپنے محلے کے پرانی کتابوں کے ٹھیلے پر کھڑے اس کی کتابوں کے ڈھیر میں غرق تھے کہ ایک کتاب دیکھ کر چونک گئے۔ "نیلی چھتری" بمع دو اور ناولوں کے ہمارے سامنے ایک ہی جلد میں موجود تھا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ کتاب کو قابو کرتے ہوئے بھاؤ تاؤ سے فارغ ہوئے اور یوں گھر کی جانب دوڑ پڑے گویا کتب فروش پیچھے دوڑتا چلا آرہا ہو کہ صاحب یہ کتاب برائے فروخت نہیں ہے، برائے مہربانی واپس کردیجیے۔

نیلی چھتری مرتب جناب اجمل کمال مکتبۂ دانیال ۔

کتاب کھولتے ہی دل پر چھریاں چل گئیں ۔ اندر پیار کی روشنائی سے کچھ لکھا ہوا تھا۔ یہ کسی کے لیے تحفہ تھا اور اس قدر نایاب کتاب کو کسی نے یوں ردی والے کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔

ظفر عمر کا تذکرہ ہو تو ان کی ہونہار بیٹی کا تذکرہ کیوں نہ ہو جنھوں نے اپنے شوہر جناب اختر حسین رائے پوری کے انتقال کے بعد جناب جمیل جالبی کے کہنے پر لکھنا شروع کیا اور اب "نایاب ہیں ہم " کی اشاعت نے تو گویا ان کے نام کو چار چاند لگادیئےپیں۔ حمیدہ اختر اور ان کے والد ظفر عمر کا تذکرہ انتظار حسین کے کالم "کچھ چوروں ڈاکوؤں کے بارے میں" اتوار ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۴ میں پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔

جاسوسی ناولوں سے شغف رکھنے والوں نے ’نیلی چھتری‘ والے ظفر عمر کا نام بہت سنا ہو گا۔ اس ناول نے اپنے زمانے میں بہت شہرت پائی تھی۔ ظفر عمر پیشہ کے لحاظ سے پولیس افسر تھے۔ اپنے زمانے کے نامی گرامی پولیس افسر جس نے سلطانہ ڈاکو کو گرفتار کر کے اپنی پولیس افسری کی دھاک بٹھائی تھی۔ ظفر عمر کی بیگم صاحبہ کی سلطانہ ڈاکو سے جو مڈھ بھیڑ ہوئی اس کا احوال ان کی بیٹی حمیدہ اختر حسین سے سنیے۔
’’ایک لحیم شحیم پگڑ باندھے اندر داخل ہوا اور اماں کو سلام کیا۔ انھوں نے دبدبے والی آواز سے پوچھا کون ہے‘‘۔
’’میں سلطانہ ڈاکو‘‘
’’بتائیں کہ میرے خیمے میں کیسے آنا ہوا
’’معاف کیجیے گا بہن۔ میں ایک تحفہ آپ کے لیے لے کر آیا ہوں۔ میں جس دن آپ کے صاحب کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا تو ان سے کہا تھا کہ جیل سے آتے ہی ایک تلوار کا تحفہ آپ کو دوں گا۔ مگر میں وہ تحفہ یوں حاصل نہ کر سکا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وہ تلوار لندن کے میوزیم پہنچ گئی ہے۔ سوچا کہ چل کر آپ کو تحفہ دیدوں شال میں ایک چھوٹی سی گھڑی نکال کر ان کے آگے بڑھائی۔ یہ کہتے ہوئے کہ اس کو ایک بھائی کا تحفہ سمجھ کر لے لیجیے‘‘۔
سفید کپڑے کی گٹھری کھولی جس میں سچے موتیوں کی پچاسوں لڑیں تھیں۔
’’بیشک یہ موتی بڑے نادر ہیں۔ جس خلوص سے آپ نے کہا بھائی کا تحفہ۔ یعنی میں آپ کی بہن ہوں۔ صرف ایک شرط پر لے لوں گی کہ آپ مجھ سے یعنی ایک بہن سے یہ وعدہ کریں کہ آج کے بعد سے آپ کبھی ڈاکے نہ ڈالیں گے۔ باقی زندگی کے دن اپنی محنت مزدوری سے کما کر کھائیں گے‘‘۔
سلطانہ ڈاکو تن کر کھڑا ہو گیا۔ سینہ پر ہاتھ مار کر کہا ’’بہن میرا وعدہ ہے آپ کو کبھی شرمندگی نہ ہو گی۔ اچھا خدا حافظ‘‘۔
اماں نے کہا ’’خدا کرے آپ اپنے وعدے کو ہمیشہ یاد رکھیں‘‘۔
اور در حقیقت پھر کبھی سلطانہ ڈاکو کی کوئی واردات سننے میں نہ آئی‘‘۔
کچھ چوروں ڈاکوؤں کے بارے میں - ایکسپریس اردو
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
ہاؤنڈ باسکر ولز ہمارے انٹرمیڈیٹ کے سلیبس میں تھا، ناول کے پہلے ہی چیپٹر میں جب ہومز اور واٹسن چھڑی سے نتائج اخذ کر رہے ہوتے ہیں اور ہومز واٹسن کہتا ہےکہ "in noting your fallacies I was occasionally guided towards the truth." مجھے فریدی یاد آ جاتا ہے جو اکثر کہتا رہتا ہے میری بیشتر کامیابیاں تمہاری (حمید کی) حماقتوں کی مرہون ہیں۔
 
ہاؤنڈ باسکر ولز ہمارے انٹرمیڈیٹ کے سلیبس میں تھا، ناول کے پہلے ہی چیپٹر میں جب ہومز اور واٹسن چھڑی سے نتائج اخذ کر رہے ہوتے ہیں اور ہومز واٹسن کہتا ہےکہ "in noting your fallacies I was occasionally guided towards the truth." مجھے فریدی یاد آ جاتا ہے جو اکثر کہتا رہتا ہے میری بیشتر کامیابیاں تمہاری (حمید کی) حماقتوں کی مرہون ہیں۔

لیجیے! ہمارے لکھے کو سند بھی عطا فرمادی آپ نے۔ خوش رہیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خلیل بھائی ایک دفعہ پھر آپ نے ہمیں ماضی میں پہنچادیا!! کیا اچھا احساس ہوا ہے یہ سب پڑھ کر !!
شرلاک ہومز سے ہمارا تعارف کالج میں آنے کے بعد ہوا لیکن ابنِ صفی کے فریدی ، حمید اور عمران سے تعارف آٹھویں جماعت ہی میں ہوگیا تھا۔ نہ جانے اس عمر میں سبھی لڑکوں کو جاسوسی ناولوں کا اتنا شوق کیوں ہوتا تھا ۔ اس وقت حیدرآباد شہر میں کرائے پر کتابیں دینے والی کچھ دکانیں ہوا کرتی تھیں اور ہم ان سے لے کرایک دن میں دو دو تین تین ناول ختم کرلیا کرتے تھے ۔ ہمیں بھی یہ بات کئی سالوں بعد پتا چل گئی تھی کہ اردو جاسوسی ادب کم و بیش تمام کا تمام انگریزی کہانیوں سے ماخوذ ہے ۔
خلیل بھائی اگر آپ کو یاد ہو تو ستر کی دہائی میں کراچی پورٹ پر ہر چند سال کے بعد ایک بحری جہاز آیا کرتا تھا جس پر سستی کتابیں بکتی تھیں ۔ آج بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ میرا چھوٹا بھائی وہاں سے کمپلیٹ شرلاک ہومز (ایک جلد میں) اور چند دوسری کتابیں لایا تھا ۔

یہ انڈرشا والا قصہ مجھے نہیں معلوم تھا ۔ پڑھ کر اچھا لگا ۔ بیشک وہی قومیں کامیاب ہیں جو کتابوں اور کتابیں لکھنے والوں کی قدر کرتی ہیں ۔ ہمارے ہاں جو حال ادیبوں کا ہے اسے دیکھ کر تو دکھ ہی ہوتا ہے ۔ اداکار اور کرکٹر زندہ باد!
 
خلیل بھائی ایک دفعہ پھر آپ نے ہمیں ماضی میں پہنچادیا!! کیا اچھا احساس ہوا ہے یہ سب پڑھ کر !!
شرلاک ہومز سے ہمارا تعارف کالج میں آنے کے بعد ہوا لیکن ابنِ صفی کے فریدی ، حمید اور عمران سے تعارف آٹھویں جماعت ہی میں ہوگیا تھا۔ نہ جانے اس عمر میں سبھی لڑکوں کو جاسوسی ناولوں کا اتنا شوق کیوں ہوتا تھا ۔ اس وقت حیدرآباد شہر میں کرائے پر کتابیں دینے والی کچھ دکانیں ہوا کرتی تھیں اور ہم ان سے لے کرایک دن میں دو دو تین تین ناول ختم کرلیا کرتے تھے ۔ ہمیں بھی یہ بات کئی سالوں بعد پتا چل گئی تھی کہ اردو جاسوسی ادب کم و بیش تمام کا تمام انگریزی کہانیوں سے ماخوذ ہے ۔
خلیل بھائی اگر آپ کو یاد ہو تو ستر کی دہائی میں کراچی پورٹ پر ہر چند سال کے بعد ایک بحری جہاز آیا کرتا تھا جس پر سستی کتابیں بکتی تھیں ۔ آج بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ میرا چھوٹا بھائی وہاں سے کمپلیٹ شرلاک ہومز (ایک جلد میں) اور چند دوسری کتابیں لایا تھا ۔

یہ انڈرشا والا قصہ مجھے نہیں معلوم تھا ۔ پڑھ کر اچھا لگا ۔ بیشک وہی قومیں کامیاب ہیں جو کتابوں اور کتابیں لکھنے والوں کی قدر کرتی ہیں ۔ ہمارے ہاں جو حال ادیبوں کا ہے اسے دیکھ کر تو دکھ ہی ہوتا ہے ۔ اداکار اور کرکٹر زندہ باد!
جزاک اللہ ظہیر بھائی آپ اور دیگر محفلین کے ہمت بندھانے پر ہی ہم لکھ پاتے ہیں۔ سدا خوش رہیے ۔

جہاز کا خوب یاد دلایا آپ نے۔ ہم کبھی جا تو نہیں سکے البتہ جب بھی وہ جہاز آتا دل میں ایک ہوک سی اٹھتی۔ سر جی جہاز کی تو کیا کہتے ہیں، چلتے چلتے فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے کسی اسٹال پر کوئی کتاب نظر آجاتی تو اس پر دل ہار بیٹھتے اور گھر جاکر اماں کی خوش آمد شروع کردیتے کہ ایک بہت اچھی کتاب نظر آئی ہے، کچھ پیسے دے دیں تاکہ ہم جاکر وہ کتاب خرید سکیں۔

سوچتے ہیں کہ اپنی کتابوں سے متعلق ان تحریروں کو ایک مستقل کالم کی شکل دے دیں۔ دوسرا کالم بھی لکھ لیا ہے اور آج نذرِ محفلین کررہے ہیں۔

ذاتی کتب خانہ - زمیں ظالم ہے از محمد خلیل الرحمٰن

امید ہے پسند آئے گا۔
 
آخری تدوین:
ہماری کیفیت اس وقت کچھ ایسی ہے جیسے کسی پیدائشی صوفی کی ادھیڑ عمری میں کوک شاستر پڑھنے کے بعد ہو سکتی ہے۔
ابو جان سخت آدمی تھے۔ ہماری کتابیں رسالے سب ان کی منظوری کے محتاج ہوا کرتے تھے۔ چند ایک بار چوری چوری عمران سیریز کے گنتی کے دو چار ناول پڑھے ہوں گے۔ مظہر کلیم شاید مصنف تھے۔ اس کے بعد پابندی لگ گئی۔ لہٰذا اب تک ہم جاسوسی ناولوں کو نہایت فرمانبرداری سے ناقابلِ اعتنا سمجھتے آئے ہیں۔ اب سوچ رہے ہیں جہاں اتنے گناہ کر لیے تھے وہاں یہ نیکی کیسے چھوٹ گئی؟ زیادہ کیا کہیں۔ دیکھو مجھے جو دیدۂِ عبرت نگاہ ہو!
 

سعادت

تکنیکی معاون
ابو جان سخت آدمی تھے۔ ہماری کتابیں رسالے سب ان کی منظوری کے محتاج ہوا کرتے تھے۔ چند ایک بار چوری چوری عمران سیریز کے گنتی کے دو چار ناول پڑھے ہوں گے۔ مظہر کلیم شاید مصنف تھے۔ اس کے بعد پابندی لگ گئی۔
یقین کیجیے، مظہر کلیم کی عمران سیریز پر پابندی لگا کر آپ کے ابو جان نے آپ کے اوپر ایک عظیم احسان کیا تھا۔
 
یقین کیجیے، مظہر کلیم کی عمران سیریز پر پابندی لگا کر آپ کے ابو جان نے آپ کے اوپر ایک عظیم احسان کیا تھا۔
متفق۔

کچھ دن پہلے ہمیں اپنے ردی والے کے پاس مظہر کلیم کی عمران سیریز کا ناول سلاسکا مل گیا۔ آج تک ہم نے مظہر کلیم کو نہیں پڑھا تھا، سوچا لگے ہاتھوں ان کا ایک ناول بھی پڑھ لیں۔ ابھی چند صفحے ہی پڑھے تھے کہ چونک گئے۔ ان کی طرح (شاید) ان کے ہر کردار کا تکیہ کلام ’’ گڈ شو‘‘ تھا۔ اب تو پڑھنا چھوڑ کر ہم ’’گڈ شو‘‘ کے مزے لینے لگے۔ ہر دس صفحوں بعد کسی نہ کسی کردار کے منہ سے ’’گڈ شو‘‘ نکل رہا تھا۔

اگر کوئی محفلین مظہر کلیم کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ہم انہیں یہ کتاب مفت بھجواسکتے ہیں۔ کبھی ہمیں ہنسنے کا دل چاہتا ہے تو کتاب نکال کر نئے سرے سے ’’گڈ شو‘‘ گننا شروع کردیتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یقین کیجیے، مظہر کلیم کی عمران سیریز پر پابندی لگا کر آپ کے ابو جان نے آپ کے اوپر ایک عظیم احسان کیا تھا۔
یہ پابندی میرے والدِ مرحوم نے بھی لگائی تھی، لیکن میں نے ان کی باتیں کم ہی مانی ہیں۔ گھر میں پڑھنا ممنوع ہوا تو میں نے گلیوں اور کتابیں کرائے پر دینے والی دوکانوں میں بیٹھ کر پڑھنے شروع کر دیے تھے :)
 

فہد اشرف

محفلین
گھر میں پڑھنا ممنوع ہوا تو میں نے گلیوں اور کتابیں کرائے پر دینے والی دوکانوں میں بیٹھ کر پڑھنے شروع کر دیے تھے :)
ایسا راحیل بھائی کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا اگر انہوں نے شروعات ابن صفی کے عمران سیریز سے کی ہوتی ؎
يہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
 

فہد اشرف

محفلین
متفق۔

کچھ دن پہلے ہمیں اپنے ردی والے کے پاس مظہر کلیم کی عمران سیریز کا ناول سلاسکا مل گیا۔ آج تک ہم نے مظہر کلیم کو نہیں پڑھا تھا، سوچا لگے ہاتھوں ان کا ایک ناول بھی پڑھ لیں۔ ابھی چند صفحے ہی پڑھے تھے کہ چونک گئے۔ ان کی طرح (شاید) ان کے ہر کردار کا تکیہ کلام ’’ گڈ شو‘‘ تھا۔ اب تو پڑھنا چھوڑ کر ہم ’’گڈ شو‘‘ کے مزے لینے لگے۔ ہر دس صفحوں بعد کسی نہ کسی کردار کے منہ سے ’’گڈ شو‘‘ نکل رہا تھا۔

اگر کوئی محفلین مظہر کلیم کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ہم انہیں یہ کتاب مفت بھجواسکتے ہیں۔ کبھی ہمیں ہنسنے کا دل چاہتا ہے تو کتاب نکال کر نئے سرے سے ’’گڈ شو‘‘ گننا شروع کردیتے ہیں۔
ایک کوشش ہم نے بھی کی تھی گولڈن کولوک نام کی ناول تھی چند صفحات پڑھ کے یہی پتا چلا کہ ناول میں جو عمران ہے وہ عمران بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اماں بی کو یہ نہیں پسند کی عمران کے پاس کافروں کے فون کیوں آتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایسا راحیل بھائی کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا اگر انہوں نے شروعات ابن صفی کے عمران سیریز سے کی ہوتی ؎
يہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
میں نے بھی شروع مظہر کلیم سے کیا تھا۔ شاید جس زمانے میں ہم نے جاسوسی ناول پڑھنے شروع کیے اسی کی دہائی کے وسط اور دوسرے نصف میں، اُس وقت تک پنجاب میں مظہر کلیم اسٹیبلش ہو چکے تھے، اور ابن صفی کی کتابیں عام نہیں تھیں۔ ابن صفی کو میں نے کافی بعد میں پڑھا، کالج کے آخر کے دور میں۔ اندرون سیالکوٹ کے ایک محلے کی ایک چھوٹی سی گلی میں کتابوں کی ایک دوکان تھی جس کے پاس ابن صفی کی کتابیں تھیں اور اس کا پتہ مجھے ایک دوست نے دیا تھا۔
 

ربیع م

محفلین
میں نے دس سال کی عمر میں قریبی لائبریری سے مظہر کلیم کو پڑھنا شروع کیا، دو سال تک خوب پڑھا اور اس کے بعد ابن صفی سے متعارف ہوئے تو مظہر کلیم سے جی اچاٹ ہو گیا!
 

سعادت

تکنیکی معاون
میں نے بھی شروع مظہر کلیم سے کیا تھا۔ شاید جس زمانے میں ہم نے جاسوسی ناول پڑھنے شروع کیے اسی کی دہائی کے وسط اور دوسرے نصف میں، اُس وقت تک پنجاب میں مظہر کلیم اسٹیبلش ہو چکے تھے، اور ابن صفی کی کتابیں عام نہیں تھیں۔ ابن صفی کو میں نے کافی بعد میں پڑھا، کالج کے آخر کے دور میں۔ اندرون سیالکوٹ کے ایک محلے کی ایک چھوٹی سی گلی میں کتابوں کی ایک دوکان تھی جس کے پاس ابن صفی کی کتابیں تھیں اور اس کا پتہ مجھے ایک دوست نے دیا تھا۔

میں نے دس سال کی عمر میں قریبی لائبریری سے مظہر کلیم کو پڑھنا شروع کیا، دو سال تک خوب پڑھا اور اس کے بعد ابن صفی سے متعارف ہوئے تو مظہر کلیم سے جی اچاٹ ہو گیا!
میں نے بھی عمران سیریز کی ابتدا مظہر کلیم کی کتابوں ہی سے کی تھی، میں اور میرا ایک دوست مختلف دکانوں اور لائبریریز سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مظہر کلیم کے ناولز پڑھا کرتے تھے۔ پھر ایف‌ایس‌سی میں ایک دن ابن صفی کی ویب‌سائٹ پر علی عمران کا خاکہ پڑھا تو شوق ہوا کہ ابن صفی کی عمران سیریز بھی پڑھنی چاہیے۔ کتابوں کی ایک مقامی دکان سے ابن صفی کی عمران سیریز کے پہلے دو ناولز خریدے، اور انہیں پڑھنے کے بعد مظہر کلیم کے ناولز کو پرانی کتابوں کی ایک دکان پر بیچ آیا۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ دن پہلے ہمیں اپنے ردی والے کے پاس مظہر کلیم کی عمران سیریز کا ناول سلاسکا مل گیا۔ آج تک ہم نے مظہر کلیم کو نہیں پڑھا تھا، سوچا لگے ہاتھوں ان کا ایک ناول بھی پڑھ لیں۔ ابھی چند صفحے ہی پڑھے تھے کہ چونک گئے۔ ان کی طرح (شاید) ان کے ہر کردار کا تکیہ کلام ’’ گڈ شو‘‘ تھا۔ اب تو پڑھنا چھوڑ کر ہم ’’گڈ شو‘‘ کے مزے لینے لگے۔ ہر دس صفحوں بعد کسی نہ کسی کردار کے منہ سے ’’گڈ شو‘‘ نکل رہا تھا۔
اردو جاسوسی ادب میں ابن صفی کا مقام اپنی جگہ اور اس سے انکار ممکن نہیں ۔ لیکن سچی بات یہ ہےکہ جاسوسی ادب کا جو معیار انگریزی میں ہے اس تک شاید ہی کوئی اردو مصنف پہنچ پایا ہو ۔ میں اب بھی کبھی کبھی detective stories بہت شوق سے پڑھتا ہوں ۔یہاں ہر لائبریری میں شیلف بھرے ہوتے ہیں ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے ہائی اسکول کے زمانے میں سب رنگ ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ وغیرہ کی مترجم کہانیوں سے متاثر ہو کر میں نے بھی ایک طبع زاد کہانی لکھی تھی جو ایک بینک لوٹنے سے متعلق تھی ۔ پلاٹ اس کا یوں تھا کہ کچھ بدمعاشوں نے بینک کے برابر ایک دکان کرائے پر لیکر اس میں اجناس کا کاروبار شروع کیا لیکن دراصل وہ اپنی دکان کے فرش میں سرنگ کھود کر بینک کے اندر نقب لگارہے تھے ۔ :) ہر شام کئی بوری مٹی دکان سے لےکر کہیں دور ڈال آتےتھے ۔ قصہ مختصر ، ہفتوں کی کھدائی اور کامیاب نقب کے بعد ڈاکوؤں نے تمام رقم تھیلوں میں بھرلی لیکن عین وقت پر بینک کا الارم بج گیا اور وہ جلدی میں نوٹو ں کے بجائے مٹی سے بھرے تھیلے اپنےساتھ لے گئے ۔ اب اپنی اس سادگی کے بارے میں سوچتا ہوں تو ہونٹوں سے بہت دیر تک مسکراہٹ غائب نہیں ہوتی ۔ :):):) ۔ کبھی ہم خوبصورت تھے !

دو تین سال پہلے نجانے کس خیال کے تحت اپنے بچوں کو میں نے یہ کہانی سنائی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہانی کے پرخچے اڑادیئے کہ یہ کہانی تو ممکن ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ بینک کے اسٹرانگ روم کی دیواریں فولاد کی ہوتی ہیں اور اس میں پھاؤڑوں اور بیلچوں سے کھدائی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لیجئے صاحب کہانی ختم ، پیسہ ہضم ۔ خلیل بھائی ، اب یہ بات ہمیں نویں دسویں جماعت میں تو معلوم نہیں تھی نا ۔ اگر ہوتی تو ہم اجناس کے بجائے وہاں ویلڈنگ کی دکان کھلوادیتے ۔ :D:D :D
 

فہیم

لائبریرین
میں نے بھی شروع مظہر کلیم سے کیا تھا۔ شاید جس زمانے میں ہم نے جاسوسی ناول پڑھنے شروع کیے اسی کی دہائی کے وسط اور دوسرے نصف میں، اُس وقت تک پنجاب میں مظہر کلیم اسٹیبلش ہو چکے تھے، اور ابن صفی کی کتابیں عام نہیں تھیں۔ ابن صفی کو میں نے کافی بعد میں پڑھا، کالج کے آخر کے دور میں۔ اندرون سیالکوٹ کے ایک محلے کی ایک چھوٹی سی گلی میں کتابوں کی ایک دوکان تھی جس کے پاس ابن صفی کی کتابیں تھیں اور اس کا پتہ مجھے ایک دوست نے دیا تھا۔

میں نے بھی عمران سیریز کی ابتدا مظہر کلیم کی کتابوں ہی سے کی تھی، میں اور میرا ایک دوست مختلف دکانوں اور لائبریریز سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مظہر کلیم کے ناولز پڑھا کرتے تھے۔ پھر ایف‌ایس‌سی میں ایک دن ابن صفی کی ویب‌سائٹ پر علی عمران کا خاکہ پڑھا تو شوق ہوا کہ ابن صفی کی عمران سیریز بھی پڑھنی چاہیے۔ کتابوں کی ایک مقامی دکان سے ابن صفی کی عمران سیریز کے پہلے دو ناولز خریدے، اور انہیں پڑھنے کے بعد مظہر کلیم کے ناولز کو پرانی کتابوں کی ایک دکان پر بیچ آیا۔ :)

میں نے دس سال کی عمر میں قریبی لائبریری سے مظہر کلیم کو پڑھنا شروع کیا، دو سال تک خوب پڑھا اور اس کے بعد ابن صفی سے متعارف ہوئے تو مظہر کلیم سے جی اچاٹ ہو گیا!

یقین کیجئے یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا کہ عمران سیریز کی شروعات مظہر کلیم سے ہوئی اور بہت ذوق و شوق سے مظہر کلیم کی عمران سیریز پڑھی۔ پھر کافی مدت بعد ابن صفی کو پڑھا تو پہلے پہل تو کافی عجیب سی عمران سیریز لگی۔ لیکن پھر اس کا مزہ ایسا لگا کہ ابن صفی کی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے تمام کے تمام ناول پڑھ ڈالے۔ اور مظہر کلیم سے دل بالکل اچاٹ ہو کر رہ گیا :)
 
Top