محب علوی
مدیر
آج ایک دفعہ پھر حکومت نے ننگی جارحیت اور بدترین ریاستی تشدد کا مظاہرہ کیا جو اس حکومت کی عادت بن چکی ہے جہاں حکومت کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں وہ مخالفین کو دبانے ، ہراساں کرنے اور مارنے پر اتر آتی ہے۔ یہ کام نو مارچ کے بعد چیف جسٹس کی حمایت میں کئی جلسوں میں ہوا ، جیو کے دفتر پر حملہ ہوا ، لاہور ہائی کورٹ پر بکتر بند گاڑیاں چڑھا کر اور آنسو گیس سے ہائیکورٹ کو گھیرے میں لے کر پورا دن ریاستی تشدد ہوتا رہا۔ ١٢ مئی کو چیف جسٹس کراچی گئے تو وہاں ایم کیو ایم اور حکومت نے مل کر ٤٣ لوگوں کے خون سے کراچی کو سرخ کیا اور اسی دن اسلام آباد میں حکومتی اراکین بشمول چوہدری شجاعت ، مشرف رات کو میلہ لگایا ،بھگنڑے ڈلوائے اور کہا کہ عوام نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے اور کراچی میں بھی عوام نے طاقت دکھائی ہے۔
آج ٢٩ ستمبر کو وکلاء چیف الیکشن کمیشن میں اپنا احتجاج رقم کروانا چاہتے تھے مشرف کے کاغذات نامزدگی کی توثیق پر اور قوم کی مایوسی کی ترجمانی کرنا چاہتے تھے مگر بے حوصلہ اور غنڈہ حکومت سے یہ بھی برداشت نہ ہوا اور آج انہوں نے ایک بار پھر تشدد اور جارحیت کی راہ اپنائی جو اب اس حکومت کی پہچان بن چکا ہے۔ گجرات کے دو غنڈے جو اب وزیر اعلی پنجاب اور مسلم ق کے صدر ہیں انہوں نے سفید لباس میں غنڈے منگوا کر صحافیوں اور وکلا پر وحشتناک تشدد کیا ، اعتزاز احسن اور علی احمد کرد جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا ان دونوں کو بیدردی سے مارا اور وحشت کا یہ شرمناک کھیل کئی صحافیوں کے ساتھ بھی کھیلا۔ پنجاب کے سب سے بڑے غنڈے وزیر اعلی پرویز الہی (سندھ میں عشرت العباد اور دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کو نافذ کیا ہوا ، بلوچستان اور سرحد میں فوج کو مامور کیا ہے دہشت گردی کے لیے ) نے اپنی فرعونیت دکھاتے ہوئے گاڑی صحافیوں اور وکلا کے ساتھ ٹکرا کر نکلوائی اور ایک بوڑھے کے پاؤں کے اوپر سے رعونت کے ساتھ گاڑی گزار دی۔ اعتزاز اور علی کرد کو خصوصیت
29 صحافی زخمی ہوئے ہیں جن میں ایک ICU میں ہے اور اسے اب تک ہوش نہیں آئی۔
آج ، اے آر وائی ، جیو ٹی وی کی نشریات معطل رہیں۔
حکومت کا نعرہ رہا ہے کہ آزادی اظہار جو پہلے کبھی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی کبھی کسی ایک دن میں اتنے صحافی اتنی بیدردی سے زود کوب اور پولیس تشدد کا شکار ہوئے۔ لٹا لٹا کر صحافیوں کو مارا گیا ، وزیر اعظم اندر الیکشن کمیشن میں موجود تھے اور بے حمیتی کی تصویر بنے مجرمانہ غفلت برتے رہے۔ کئی صحافیوں کے سر پھٹ گئے ، کئی صحافیوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور کئی بیہوش ہوئے۔
آئی جی صاحب خود مارنے کا کام کر رہے تھے اور باقاعدہ بتا رہے تھے کہ اس صحافی کو مارو ، علی کرد کو مارو ، صحافی اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں انہیں صحیح سبق سکھاؤ۔
آنسو گیس کے تین شیل پھینکے گئے اور بغیر اشتعال کے جس سے بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔
ایک فارن ٹیلی ویژن کے کیمرے کو بھی توڑنے کی کوشش کی گئی ، جس صحافی کا کیمرہ توڑنے کی کوشش کی گئی اس سے جب پوچھا گیا کہ ایسے حالات کا سامنا انہیں دنیا میں اور کہاں کرنا پڑتا ہے تو جو جواب صحافی نے دیا اس کے بعد پاکستان کا جو تاثر ابھرا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ صحافی کے مطابق ایسا اب صرف چار جگہ ہوتا ہے
نیپال
برما
مقبوضہ کشمیر
پاکستان
اس میں تین جگہ حالات ایمرجنسی جیسے ہیں اور چوتھا ملک پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرم اگر ہو حکومت کو تو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جائے مگر شرم تو انہوں نے بیچ کر کھا لی ہے وہ کہاں سے آئے۔
٢١ صحافی مشرف کے دور میں مارے گئے
١٠٠ واقعات ایسے ہوئے ہیں جن میں صحافیوں کو بری طرح سے مارا گیا ہے ۔
ایسا کبھی ایوب اور ضیا کے گیارہ سالہ دور میں بھی نہیں ہوا۔ خدارا اب جو لوگ یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ اس گورنمنٹ نے صحافت کو آزادی دی ہے وہ اللہ سے معافی مانگیں اور اپنی اس رائے سے رجوع کرلیں ورنہ قیامت کے دن اللہ کے پاس کیا منہ لے کر جائیں گے۔
مشرف اور تمام حکومتی عہدیدار شرم کرو کچھ شرم کرو آخر یہ اقتدار کا سورج غروب بھی ہونا ہے۔
چیف جسٹس صاحب آپ کہاں سوئے پڑے ہیں ، اعتزاز ، علی کرد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن رات ایک کرکے آپ کو دوبارہ بحال کروایا اور آج ان پر بدترین تشدد ہوا ہے ، آپ کو خبر ہوئی یا آپ بھی کسی مصلحت کا شکار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ لوگوں نے آپ کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں ، خدارا انصاف کے لیے نہ سہی لوگوں کا احسان اتارنے کے لیے ہی ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
آج ٢٩ ستمبر کو وکلاء چیف الیکشن کمیشن میں اپنا احتجاج رقم کروانا چاہتے تھے مشرف کے کاغذات نامزدگی کی توثیق پر اور قوم کی مایوسی کی ترجمانی کرنا چاہتے تھے مگر بے حوصلہ اور غنڈہ حکومت سے یہ بھی برداشت نہ ہوا اور آج انہوں نے ایک بار پھر تشدد اور جارحیت کی راہ اپنائی جو اب اس حکومت کی پہچان بن چکا ہے۔ گجرات کے دو غنڈے جو اب وزیر اعلی پنجاب اور مسلم ق کے صدر ہیں انہوں نے سفید لباس میں غنڈے منگوا کر صحافیوں اور وکلا پر وحشتناک تشدد کیا ، اعتزاز احسن اور علی احمد کرد جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا ان دونوں کو بیدردی سے مارا اور وحشت کا یہ شرمناک کھیل کئی صحافیوں کے ساتھ بھی کھیلا۔ پنجاب کے سب سے بڑے غنڈے وزیر اعلی پرویز الہی (سندھ میں عشرت العباد اور دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کو نافذ کیا ہوا ، بلوچستان اور سرحد میں فوج کو مامور کیا ہے دہشت گردی کے لیے ) نے اپنی فرعونیت دکھاتے ہوئے گاڑی صحافیوں اور وکلا کے ساتھ ٹکرا کر نکلوائی اور ایک بوڑھے کے پاؤں کے اوپر سے رعونت کے ساتھ گاڑی گزار دی۔ اعتزاز اور علی کرد کو خصوصیت
29 صحافی زخمی ہوئے ہیں جن میں ایک ICU میں ہے اور اسے اب تک ہوش نہیں آئی۔
آج ، اے آر وائی ، جیو ٹی وی کی نشریات معطل رہیں۔
حکومت کا نعرہ رہا ہے کہ آزادی اظہار جو پہلے کبھی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی کبھی کسی ایک دن میں اتنے صحافی اتنی بیدردی سے زود کوب اور پولیس تشدد کا شکار ہوئے۔ لٹا لٹا کر صحافیوں کو مارا گیا ، وزیر اعظم اندر الیکشن کمیشن میں موجود تھے اور بے حمیتی کی تصویر بنے مجرمانہ غفلت برتے رہے۔ کئی صحافیوں کے سر پھٹ گئے ، کئی صحافیوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور کئی بیہوش ہوئے۔
آئی جی صاحب خود مارنے کا کام کر رہے تھے اور باقاعدہ بتا رہے تھے کہ اس صحافی کو مارو ، علی کرد کو مارو ، صحافی اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں انہیں صحیح سبق سکھاؤ۔
آنسو گیس کے تین شیل پھینکے گئے اور بغیر اشتعال کے جس سے بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔
ایک فارن ٹیلی ویژن کے کیمرے کو بھی توڑنے کی کوشش کی گئی ، جس صحافی کا کیمرہ توڑنے کی کوشش کی گئی اس سے جب پوچھا گیا کہ ایسے حالات کا سامنا انہیں دنیا میں اور کہاں کرنا پڑتا ہے تو جو جواب صحافی نے دیا اس کے بعد پاکستان کا جو تاثر ابھرا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ صحافی کے مطابق ایسا اب صرف چار جگہ ہوتا ہے
نیپال
برما
مقبوضہ کشمیر
پاکستان
اس میں تین جگہ حالات ایمرجنسی جیسے ہیں اور چوتھا ملک پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرم اگر ہو حکومت کو تو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جائے مگر شرم تو انہوں نے بیچ کر کھا لی ہے وہ کہاں سے آئے۔
٢١ صحافی مشرف کے دور میں مارے گئے
١٠٠ واقعات ایسے ہوئے ہیں جن میں صحافیوں کو بری طرح سے مارا گیا ہے ۔
ایسا کبھی ایوب اور ضیا کے گیارہ سالہ دور میں بھی نہیں ہوا۔ خدارا اب جو لوگ یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ اس گورنمنٹ نے صحافت کو آزادی دی ہے وہ اللہ سے معافی مانگیں اور اپنی اس رائے سے رجوع کرلیں ورنہ قیامت کے دن اللہ کے پاس کیا منہ لے کر جائیں گے۔
مشرف اور تمام حکومتی عہدیدار شرم کرو کچھ شرم کرو آخر یہ اقتدار کا سورج غروب بھی ہونا ہے۔
چیف جسٹس صاحب آپ کہاں سوئے پڑے ہیں ، اعتزاز ، علی کرد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن رات ایک کرکے آپ کو دوبارہ بحال کروایا اور آج ان پر بدترین تشدد ہوا ہے ، آپ کو خبر ہوئی یا آپ بھی کسی مصلحت کا شکار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ لوگوں نے آپ کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں ، خدارا انصاف کے لیے نہ سہی لوگوں کا احسان اتارنے کے لیے ہی ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے