خرم شہزاد خرم
لائبریرین
ہم تو ہے ہی بے وقوف، جس کام پر لگاو لگ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں لگتی کہ حکمران ہم سے کام کیا لیے رہے ہیں۔ دیکھو جی کل تک یہ شور تھا نواز شریف ایم کیوں ایم سے کیوں مل گیا ہے۔ اب یہ شور ہے کہ عدالت نے شرم ناک کہنے پر عمران پر توہین عدالت لگا دی ہے اور عمران کہتے ہیں شرم ناک کوئی گالی نہیں ہے لیکن عدلیہ کہتی ہے کہ گالی ہے۔ اب نون لیگ والے شرم ناک کو گالی ثابت کر رہے ہیں اور تحریک انصاف والے اس کو گالی مانے پر تیار ہی نہیں ہیں (وہ تو میں بھی شرم ناک کو گالی نہیں تسلیم کرتا)۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔
مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ یہ جو دو بڑے بڑے مواقعات ہو گزر ہیں۔ ایک ایم کیو ایم والا اور دوسرا شرم ناک والا ان دونوں واقعات کے دوران کیا کیا ہو گیا کیا ہمیں اس بات کا پتہ ہے۔ بجلی کی قیمت میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا، چیزیں بہت مہنگی ہوگئی، کتنے ہی قیدی قید سے نکال کر لے گے، کیری نے پاکستان کی کوئی بات نہیں مانی لیکن پھر بھی دورا کامیاب ہو گیا۔ یہ ساری باتیں کہاں ہیں۔
ہم لوگوں کو یہ لوگ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور ہم اس بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور باقی کے کام ہوتے رہتے ہیں اور ہمیں اس وقت پتہ چلتا ہے جب کام حقیقت میں ہو چکا ہوتا ہے۔ اس وقت نا ہم بات کر سکتے ہیں اور نا ہی شور ڈال سکتے ہیں۔ ادھر حامد میر نے غرداری میں ڈپلومے لیے رکھے ہیں۔ ادھر ڈاکٹر صاحب نے اپنے کلینک میں انعامات تقسیم کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ادھر میڈیا رمضان کے مقدس مہنے میں کنجروں کے ساتھ پروگرام کر رہے ہیں۔ لیکن ہم بس اس بات پر لگے ہوئے ہیں نواز ٹھیک ہے عمران غلط ہے، عمران ٹھیک ہے نواز غلط ہے۔
اصل میں غلط ہم لوگ ہیں اور ہمیں یہ بات اس وقت پتہ چلے گی جب ہم کچھ کرنے جوگے نہیں ہونگے۔ آنکھیں کھولو اور دیکھو ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اگر آنکھیں نا کھولی تو پھر سمجھ لیں ہم سے بڑا شرم ناک کوئی نہیں ہوگا
مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ یہ جو دو بڑے بڑے مواقعات ہو گزر ہیں۔ ایک ایم کیو ایم والا اور دوسرا شرم ناک والا ان دونوں واقعات کے دوران کیا کیا ہو گیا کیا ہمیں اس بات کا پتہ ہے۔ بجلی کی قیمت میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا، چیزیں بہت مہنگی ہوگئی، کتنے ہی قیدی قید سے نکال کر لے گے، کیری نے پاکستان کی کوئی بات نہیں مانی لیکن پھر بھی دورا کامیاب ہو گیا۔ یہ ساری باتیں کہاں ہیں۔
ہم لوگوں کو یہ لوگ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور ہم اس بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور باقی کے کام ہوتے رہتے ہیں اور ہمیں اس وقت پتہ چلتا ہے جب کام حقیقت میں ہو چکا ہوتا ہے۔ اس وقت نا ہم بات کر سکتے ہیں اور نا ہی شور ڈال سکتے ہیں۔ ادھر حامد میر نے غرداری میں ڈپلومے لیے رکھے ہیں۔ ادھر ڈاکٹر صاحب نے اپنے کلینک میں انعامات تقسیم کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ادھر میڈیا رمضان کے مقدس مہنے میں کنجروں کے ساتھ پروگرام کر رہے ہیں۔ لیکن ہم بس اس بات پر لگے ہوئے ہیں نواز ٹھیک ہے عمران غلط ہے، عمران ٹھیک ہے نواز غلط ہے۔
اصل میں غلط ہم لوگ ہیں اور ہمیں یہ بات اس وقت پتہ چلے گی جب ہم کچھ کرنے جوگے نہیں ہونگے۔ آنکھیں کھولو اور دیکھو ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اگر آنکھیں نا کھولی تو پھر سمجھ لیں ہم سے بڑا شرم ناک کوئی نہیں ہوگا