محمد یعقوب آسی
محفلین
محترمی جناب خرم شہزاد خرم صاحب۔
یہ بات درست ہے کہ کوئی لفظ بذاتِ خود گالی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ لفظ ’’گالی‘‘ بھی گالی نہیں ہے، ’’گالی‘‘ سے مراد ہے: ’’ایسی کوئی بھی بات جس میں کسی کی توہین کا عنصر ہو اور اس کا کہنا معیوب سمجھا جاتا ہو‘‘۔ میں نے مختصر ترین الفاظ میں بات کی ہے آپ اس کو پھیلا سکتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ’’ کوئی لفظ یا نام گالی کب بنتا ہے‘‘۔ جب اس کے مفاہیم اس کو گالی بنا دیں۔ مثال کے طور پر کتا ایک عام سا جانور ہے، اس سے پیار بھی کیا جاتا ہے، لیکن کسی شخص کو نفرت وغیرہ کی بنا پر کتا کہنا ہمارے معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے، دوسروں کا مجھے نہیں پتہ۔ ایسا ہی معاملہ کچھ انسانی اعضاء کے ساتھ ہے۔
ایک سادہ سی مثال لیجئے۔ ایک شخص کسی دوسرے شخص کی برائی بیان کر رہا ہے اور اس تناظر میں اس کے لئے لفظ خنزیر استعمال کرتا ہے، یہ گالی ہے۔ اور اگر یہی لفظ خنزیر قرآنِ کریم کی تلاوت میں آ رہا ہے تو اس کا ادا کرنا عرفِ عام میں پچاس نیکیاں کمانا ہے۔ بات سیاق و سباق کی ہوتی ہے اور اس کے کہنے والے کی نیت (جس حد تک سمجھ میں آ سکے) کسی بات کو گالی بناتی ہے۔
رہی بات ایک لفظ ’’شرم ناک‘‘ کے عدالتی اور سیاسی تناظر کی، تو مجھے اس سے کوئی دل چسپی نہیں اور میں نے یہ خبر اگر کہیں دیکھی بھی ہو گی تو بھول چکا ہوں۔ ’’جس پِنڈ نوں نہ جانا ہووے، اوہدا کاہنوں راہ پچھنا!‘‘ (جس گاؤں کو جانا ہی مقصود نہ ہو، اس کا راستہ کیا معلوم کرنا!)
بہت آداب۔
یہ بات درست ہے کہ کوئی لفظ بذاتِ خود گالی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ لفظ ’’گالی‘‘ بھی گالی نہیں ہے، ’’گالی‘‘ سے مراد ہے: ’’ایسی کوئی بھی بات جس میں کسی کی توہین کا عنصر ہو اور اس کا کہنا معیوب سمجھا جاتا ہو‘‘۔ میں نے مختصر ترین الفاظ میں بات کی ہے آپ اس کو پھیلا سکتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ’’ کوئی لفظ یا نام گالی کب بنتا ہے‘‘۔ جب اس کے مفاہیم اس کو گالی بنا دیں۔ مثال کے طور پر کتا ایک عام سا جانور ہے، اس سے پیار بھی کیا جاتا ہے، لیکن کسی شخص کو نفرت وغیرہ کی بنا پر کتا کہنا ہمارے معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے، دوسروں کا مجھے نہیں پتہ۔ ایسا ہی معاملہ کچھ انسانی اعضاء کے ساتھ ہے۔
ایک سادہ سی مثال لیجئے۔ ایک شخص کسی دوسرے شخص کی برائی بیان کر رہا ہے اور اس تناظر میں اس کے لئے لفظ خنزیر استعمال کرتا ہے، یہ گالی ہے۔ اور اگر یہی لفظ خنزیر قرآنِ کریم کی تلاوت میں آ رہا ہے تو اس کا ادا کرنا عرفِ عام میں پچاس نیکیاں کمانا ہے۔ بات سیاق و سباق کی ہوتی ہے اور اس کے کہنے والے کی نیت (جس حد تک سمجھ میں آ سکے) کسی بات کو گالی بناتی ہے۔
رہی بات ایک لفظ ’’شرم ناک‘‘ کے عدالتی اور سیاسی تناظر کی، تو مجھے اس سے کوئی دل چسپی نہیں اور میں نے یہ خبر اگر کہیں دیکھی بھی ہو گی تو بھول چکا ہوں۔ ’’جس پِنڈ نوں نہ جانا ہووے، اوہدا کاہنوں راہ پچھنا!‘‘ (جس گاؤں کو جانا ہی مقصود نہ ہو، اس کا راستہ کیا معلوم کرنا!)
بہت آداب۔
آخری تدوین: