اے اللہ! اس ’اردو محفل فورم‘ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرما۔“


  • Total voters
    25
خوب اسامہ، ابھی ایک دھاگا تخلیق کیا ہے مبارکباد کا۔۔
ہمارے نئے رکن عزیزم محمد اسامہ سَرسَری فعولن فعولن میں اکاسی بیاسی کرتے کرتے ماشاء اللہ ہزاری ہو گئے ہیں۔ ہم تو تین میں نہ تیرا میں، ہماری کیا اوقات کہ ان کو مبارکباد دیں، کیا پدی اور پدی کا شوربہ۔۔ بہر حال اس موقع پر ان کو دعائیں تو دے ہی سکتے ہیں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!!
 
اردو محفل پر دو اچھے شاعروں کا اضافہ
ادبی ذوق رکھنے والوں کے لئے باعثِ انبساط ہے
خوش رہیں محمد اسامہ سَرسَری اور کاشف عمران
اللہ کلام میں مزید روانی اور شگفتگی عطا فرمائے آمین
(واضح رہے کہ یہ دونوں استاد شاگرد ہیں، یعنی محمد اسامہ سرسری شاگرد اور جناب کاشف عمران صاحب ان کے استاد ہیں۔)
 
تعارف ہوا جب سے یاں سرسری سے
ہوا سامنا پھر عجب شاعری سے
کہیں آم و اخروٹ کے فائدے ہیں
کہیں جنتوں کے سبھی تذکرے ہیں
اور اب یہ فعولن کا دھاگہ ملا ہے
کہ جس میں ہر اک صاحبِ فن سلا ہے
تخلص عجب سرسری کر رہے ہیں
میاں آپ تو ساحری کر رہے ہیں
مجھے یاد اپنی غزل آ رہی ہے
کہو تو سنا دوں؟ مٹی جا رہی ہے:
ابھی تو میں تنہا تھا اور اب نہیں ہوں
کھڑا میں جہاں تھا اگرچہ وہیں ہوں
محقق ہوں میں اور نہ باریک بیں ہوں
مگر دستِ فطرت میں یکتا نگیں ہوں
میسر نہیں مجھ سے کچھ بھی کسی کو
الٰہی میں کس سنگ دل کی زمیں ہوں
بچا کون فاتح حسینوں کی زد سے
کہ میں بھی رہینِ خریدارِ دیں ہوں
سدا اہلِ محفل کی چاہت رہو تم
محمد اسامہ سلامت رہو تم
 
یہاں مبتدی بھی ہیں، استادبھی ہیں​
نہیں ہیں جو شاعر تو وہ فلسفی ہیں​
جو یہ بھی نہیں وہ تماشائی تو ہیں​
نہیں صاحبِ فن، مگر بھائی تو ہیں​
نہیں غم اگر کوئی کچاّ ابھی ہے​
کہ کچیّ بھی ہو، شاعری، شاعری ہے​
اسامہ سے سیکھو کہ کیا ہے ڈھٹائی​
کہ ڈھیٹوں کا سردار ہے میرا بھائی​
مگر پھر بھی لگتا ہے پیارا اسامہ​
جگر کا ہے ٹکڑا، دلارا اسامہ​
 
میں نے آج سے تقریبا پندرہ دن قبل جوش میں آ کر استاد صاحب سے کہہ تو دیا کہ میں ضرور آپ سے ملاقات کروں گا، خواہ اس کے لئے مجھے علی گڈھ ہی کیوں نہ آنا پڑے۔
استاد محترم نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا، لیکن سچ پوچھئے تو یہ ایام اور دنوں کے بہ نسبت کچھ زیادہ ہی مصروفیت میں گزرے اور میں نہ تو علی گڑھ جا سکا اور نہ ہی اس درمیان ملاقات کا خیال آیا۔
رات گئے دیر تک جاگنا اور دن میں کلاس اور ٹیوشن وغیرہ کی مصروفیات کے باعث مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا ہے۔
4مارچ کی صبح تقریبا 10بجے فون کی گھنٹی بجی، تب خیال آیا کہ میں نے کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا تھا ؟
بہر حال جب فون آیا تو پہلے پہل تو ذہن میں یہ بات آئی کہ چلو فون کاٹ دیتے ہیں، لیکن پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اس خیال کا آنا تھا کہ انگلی خود بخود ریسیو کے بٹن پر پہنچ گئی۔
ادھر سے آواز آئی:
”علم اللہ بول رہے ہو؟ میاں! میں اسٹیشن میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، کہاں ہو؟“
یہ سنتے ہی ایک طرف تو ملنے کی خواہش اور دوسری طرف ظالم ٹیچر کی کلاس۔ بہر حال میں نے فیصلہ کیا کہ کلاس جائے بھاڑ میں۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہ سوچتے ہی میں نے جلدی جلدی بیگ اٹھایا اور بھاگا۔
بس سے جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ میرے بس کا روگ بھی نہیں ہے، سو میں نے آٹو لیا اور تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے پہنچ گیا نئی دہلی ریلوے اسٹیشن۔
اسٹیشن پہنچتے ہی استاد محترم کو فون کیا اور یوں مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا۔
محفل میں تصویر دیکھ کر میں نے اپنے ذہن میں جو ہیولیٰ بنایا تھا، اگرچہ اس سے ان کا نقشہ بالکل بھی میل نہیں کھا رہا تھا،لیکن میں نے دیکھا کہ استاد محترم دور ہی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے مسکرا رہے ہیں۔
قریب گیا، سلام کیا اور معانقہ بھی ہوا۔
یہاں پر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وہ نقشہ جو میں نے اپنے ذہن میں بنایا ہوا تھا کیسا تھا؟ ٹھیک اسی طرح جب کوئی انسان کسی کی بابت اس کی تحریریں پڑھ کر، اس کے بارے میں لوگوں سے سن کر یا پھر اس کے کام اور کارکردگی کو دیکھ کر اپنے ذہن میں خاکہ سا بنا لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ اسی طرح ہونگے۔ سو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور میں نے بھی اولاً اپنے ذہن میں ایک خاکہ سا بنا لیا تھا کہ جن سے ملنے جا رہا ہوں وہ ایسے ہونگے، ویسے ہونگے وغیرہ وغیرہ۔
میرے ذہن میں ایک بزرگ اور پیر مغاں جیسے کسی شخص کی تصویر گر دش کر رہی تھی، میں سوچ رہا تھا آگے پیچھے ان کے حواری ہوں گے، حشم و خدم ہوں گے، جیسا کہ آج کل عموما پڑھے لکھے اور مالدار لوگوں میں دیکھنے کو مل جا تا ہے۔
مگر یہ کیا۔۔۔ ۔! جب ملاقات ہوئی تو ایسا کچھ بھی نہ تھا، بلکہ ایک عام سا دبلا پتلا آدمی ،مسکراتا چہرہ ، سفید ہوتے ریش مبارک اور بال،صحت مند اور ہٹے کٹے، نہ کوئی ٹپ ٹاپ، نہ کسی قسم کا تصنع اور دکھاوا ، معمولی قسم کا ایک بیگ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں، جس میں ایک چھوٹا سا لیپ ٹاپ اور کچھ کپڑے ، ہاتھ میںایک پرانا سا تھیلا تھامے ہوئے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔
تھیلے میں سے بھی علمی و ادبی رسالوں کے کئی تازہ شمارے باہر جھانک رہے ہیں۔
جب میں نے یہ سوچ کر کہ سامان بھاری ہوگا ان کا تعاون کرنا چاہا تو فرمانے لگے:
”نہیں، نہیں، بھاری نہیں ہے۔“
میں بضد ہوا اور تھیلا اپنے ہاتھ میں لے ہی لیا تو پتا چلا کہ یہ تھیلا بھی بستہ ہی ہے،جس میں کئی کتابیں رکھی ہیں،اور کچھ معمولی سامان۔
خیر یہ تو میرا اپنا تاثر تھا ایک اور محفل کے ساتھی اشرف بستوی کی کہانی سنئے !وہ بھی ملاقات کے لئے آنا چاہ رہے تھے لیکن اپنی مصروفیت کے سبب نہیں آئے ۔ابھی میں الف عین صاحب سے بات ہی کر رہا تھا کہ ان کا فون آیا اور انھوں نے بات کرانے کی گزارش کی میں نے فون استاذ محترم کو دے دیا ۔ دونوں کے درمیان بات شروع ہوئی اورتھوڑی ہی دیرکے بعد فون کٹ گیا ۔اور دوبارہ فون کی گھنٹی بجی اشرف صاحب ذرا غصہ مگر پیار سے کہنے لگے یار ! الف عین صاحب سے بات کراﺅ !فون پرآواز بدل کر بات مت کیا کرو !
میں نے کہا آپ انھیں سے تو بات کر رہے تھے ۔مگر اشرف صاحب کو یقین ہی نہیں آتا تھا ۔آخر میں مجھے قسم کھا کر انھیں یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ آپ کی بات انھیں سے ہو رہی تھی تب انھیں سکون ملا ۔بعد میں انھوں نے مجھے بتایا محفل میں تصویر دیکھ کر میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی بزرگ ہونگے لیکن آواز سے تو ایسا نہیں لگ رہا تھا ۔پھر میں نے انھیں بتایا ہیں تو بزرگ ہی لیکن آواز 20،25والی ہی ہے تو ہنسنے لگے ۔
لیکن سہی بات تو یہ ہے کہ میری بھی جب پہلی مرتبہ بات ہوئی تھی تو میں بھی ایسا ہی سمجھا تھا ۔
خیریہاں اسٹیشن میں کھڑے کھڑے نہ جانے ہم نے کتنی باتیں کر لیں،مجھے اچانک خیال آیا کہ چائے وغیرہ پینی چاہئے کہ اسٹیشن میں اس کے علاوہ اور ملتا بھی کیا ،میں چلنے کے لئے کہا تو استاذ محرم نے بتایا ایک اور صاحب ملاقات کے لئے آنے والے ہیں اور وہ بھی محض انٹرنیٹ ہی کے ذریعے جانتے ہیں پھر چلیں گے ۔
کافی انتظار کے بعد وہ صاحب آئے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ صاحب کون ہیں؟
وہ صاحب معروف اردو ناول نگار ”مشرف عالم ذوقی“ تھے۔
آتے ہی دونوں خوب تپاک سے ملے اور پھر فورا چائے اور ناشتے وغیرہ کے لئے جگہ کی تلاش شروع ہوئی۔
سامنے ہی ایک عالی شان ریستوران تھا۔ ہم لوگ وہاں گئے اور گرما گرم پنیر، پکوڑے اور کافی پی، حالانکہ مشرف صاحب تو لنچ کرانے کے لئے بضد تھے، لیکن میری بھی طبیعت بالکل کھانے کی نہیں تھی اور استاد محترم نے تو پہلے ہی منع کر دیا تھا۔
بہر حال چائے کے دوران کافی علمی اور ادبی گفتگو ہوتی رہی جس میں ہندوستان اور پاکستان کے کئی لوگوں کے نام سننے کو ملے۔
مشرف صاحب تو ”اردو محفل “اور” بزم اردو “کا سن کر حیرت زدہ تھے کہ اردو میں اتنا اچھا کام ہو رہا ہے،لیکن وہ ہندوستانی ادیبوں سے کافی مایوس نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں جتنے بھی ادیب یا اردو لکھنے والے بڑے لوگ ہیں، ان کو انٹرنیٹ یا سائبر کی دنیا سے تو کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔
خیر اس کے بعد ہم بذریعہ کار نطام الدین ریلوے اسٹیشن پہنچے کہ استاد محترم کو یہیں سے ٹرین پکڑنی تھی۔
یہاں آنے کے بعد مشرف صاحب پھر بضد ہوکر کہنے لگے: ”نہیں، آپ لوگوں کو کچھ تو لینا ہی پڑے گا۔“
تو میں نے کوک لیا، استاد محترم کو بھی کوک دلایا اور زبردستی کھانا بھی کھلایا۔
یہاں بھی مختلف موضوعات فلم، ادب اور آرٹ کے حوالے سے کافی معلوماتی گفتگو ہوئی، دوران گفتگو کئی پردہ نشینوں کے نام بھی آئے، جو اردو کے نام میں اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو وہ کہیں بھی معیار اور کسوٹی میں نہیں ٹھہرتے۔
یہاں کچھ ہی دیر رکنے کے بعد مشرف صاحب کو چونکہ کسی ضروری اور اہم میٹنگ میں جانا تھا سو وہ چلے گئے۔ میں نے بھی سوچا جب کلاس بنک کر ہی دیا ہے تو کیوں نہ کچھ چیزیں سیکھ لوں۔ اسامہ سرسری بھائی کی وہ بات مجھے یاد آئی جو انھوں نے محفل میں اس تعلق سے کہی تھی کہ محترم سے خوب فائدہ اٹھانا۔
بہت زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع تو نہیں ملا، لیکن ہاں مزہ آیا اور سچ مچ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع مل ہی گیا۔
استاد محترم نے اردو کمپیوٹنگ سے متعلق کئی اہم چیزیں بتائیں۔ انھوں نے ان پیج سے ڈائریکٹ کاپی پیسٹ ورڈ میں کر سکنے والا سافٹ ویر بھی دیا، لیکن افسوس کہ میں نے اس کوہاسٹل آنے کے بعد اپنے کمپوٹر میں چلانے کی کوشش کی تو وہ چلانہیں۔
سچ پوچھئے تو ہماری یہ تین چار گھنٹے کی ملاقات بڑی اچھی اور یادگار رہی۔
ٹرین کا وقت بھی ہو چکا تھا، باتیں بہت تھیں، لیکن مجھے ”الوداع“ کہنا ہی پڑا اور استاد محترم نے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے دعائیں دیں اور فرمایا: ”ٹھیک ہے بیٹا! پھر ملیں گے۔“
اور ٹرین سیٹی بجاتی ”چھک چھک“ کرتی منزل کی طرف بڑھ گئی۔ میں تھوڑی دیر تک ٹرین کو دیکھتا رہا اور پھر میں بھی ہاسٹل کی طرف چل دیا۔
 
کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے بلاگ پر لکھا تھا "ادیبوں کا کھیل"ابوظہبی جانے سے پہلے ہم تینوں بہن بھائی۔ میں بنت شبیر اور طارم نایاب مل کر ادیبوں کا کھیل کھیلتے تھے ہم جو کچھ لکھتے تھے ایک دوسرے کو سناتے تھے۔ اب اردو محفل پر آنے کی وجہ سے ان کے شوق پھر سے تازہ ہو گے ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری کزن بنت صغیر اور سندس صغیر بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ہم نے سوچا کیوں نا مل کر اردو محفل پر ایک دھاگہ بنایا جائے جس میں ہم اپنی فیملی کا ادب یعنی جو کچھ ہم لکھتے ہیں وہ یہاں پوسٹ کریں ایک تو ان کی پریکٹس بھی ہو جائے گی اور ان کا شوق بھی تازہ رہے گا اور انشاءاللہ ایک دن پھر ان کا نام بھی اچھے لکھاڑیوں میں شامل ہو جائے گا۔ آج سے یا کل سے ان کی چھوٹی چھوٹی تحریریں اس دھاگے کی رونق بنے گئی
 
یہ قطعہ آج صبح ہی کہا ہے۔​
ابر تھا، بارش تھی، وقتِ گُل تھا، تم تھے، میں نہ تھا​
قہقہے تھے،خندۂ قُلقُل تھا، تم تھے، میں نہ تھا​
اک طرف آہیں تھیں، غم تھا، رنج تھے اور اک طرف​
قُمریاں تھیں، نغمۂ بُلبُل تھا، تم تھے، میں نہ تھا​
نوٹ: اس قطعہ کے پس منظر اور اس کے پیچھے کارفرما فلسفے کی بحث یہاں ملاحظہ کی جائے۔​
 
وہ ایک اداس سی شام تھی۔ ہم نے جونہی محفل میں داخلے کا کلمہ عبور لکھا اور اپنی جانی پہچانی محفل میں وارد ہوئے، ہم حیران رہ گئے۔ کیا ہماری ویرانی ء دل اور ہماری وحشت جاں کی کیفیت اس قدر عیاں تھی، کیا ہمارا راز یوں افشاء ہوچلا تھا تھا کہ ایک بے جان کمپیئوٹر کو بھی اس بات کا علم ہوچکا تھا۔ آج ہی ہم نے محفل پر اپنے ایک ہزار مراسلے مکمل کیے تھے۔ اس وقت اطلاعات کے خانے میں ایک سرخ عدد کو دیکھ کر ہم نے وفورِ شوق سے اسے کلک کیا اور ایک عجیب و غریب پیغام ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔​
آپ کو تمغہ فورم کا نشہ ہو گیا ہے دیا گیا ہے۔​
کیا واقعی ایسا ممکن ہے۔ کیا آرٹی فیشیل انٹیلیجنس کا شعبہ اس قدر ترقی کرگیا ہے کہ ایک کمپئیوٹر ہزاروں میل دور سے بھی اپنے سحر میں گرفتار شخص کی ذہنی حالت کا ادراک کرسکتا ہے؟ واقعی حیرت انگیز!​
کیا ہم اپنی اصل دنیا ء سے رفتہ رفتہ منہ موڑتے ہوئے اس سرئیل دنیاء میں اس قدر محو ہوچکے ہیں کہ اب یہی ہماری اصل دنیاء بن چکی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے؟ ہمیں تو واقعی فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ کوئی ہے جو ہمیں اس تخیلاتی دنیاء سے واپس لے جانے کی ہمت رکھتا ہو؟ ارے کوئی ہے؟​
’’ سب سے پہلی چیز جس کا میں نے ادراک کیا وہ ارد گرد کے ماحول کا واضح پن اور غیر مبھم انداز تھا، یہی حال ارد گرد کی زمین کا تھا۔ جو انتہائی صاف ستھری اور چمکدار سبزی مائل مٹیالے رنگ کی تھی۔ کہیں کسی جانب بھی کسی خوابناک ابہام اور نرمی کا شائبہ تک نہ تھا۔ افق پر نظر آنے والے پہاڑ آسمان کے ساتھ ملتے ہوئے نظر نہیں آرہے تھے، بلکہ سخت اور گہرے انداز میں الگ الگ سر اُٹھائے کھڑے تھے۔ اور اتنے قریب تھے کہ میں چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر انھیں چھو سکتا تھا۔ ان کی یہ قربت مجھے یوں حیرت میں ڈالے ہوئے تھی گویا ایک بچے کے وہ محسوسات جب وہ پہلی مرتبہ دوربین سے دور افق پر نظر آنے والے مناظر دیکھتا ہے اور انھیں بہت قریب محسوس کرتا ہے۔​
وقوع پزیر ہونے والی اس تبدیلی کے بارے میں میرا خیال تو صرف اتنا تھا کہ میں صرف ایک دوسری قسم کی ہیئت کی تبدیلی کے امکانات پر غور کرتا رہا تھا۔ کیف و سرور کا ایک نشئی انداز، ایک خوابناک سی کیفیت جس میں ارد گرد کی ہر شے دھندلی ، مبھم اور غیر واضح سی ہوتی۔ نہ کہ یہ عجیب و غریب اور اچھوتا صاف شفاف پن، حقیقت کا پہلے سے زیادہ واضح انداز میں ادراک، جس کا میں نے ابھی تک سوتے یا جاگتے میں تجربہ نہیں کیا تھا۔اب تو میرا ہر احساس پہلے سے زیادہ حقیقی اور غیر مبھم انداز میں ذہن پر کچوکے لگارہا تھا۔ صرف لمس کے علاوہ، دیگر حواسِ اربعہ دیکھنے ، چکھنے سننے اور سونگھنے کی حسیں پہلے سے زیادہ قوی انداز میں میرے اندر جانگزیں ہوچکی تھیں۔ ، البتہ میں کسی مرئی شے کو محسوس نہیں کرپارہا تھا۔‘‘​
(’’مٹی کا گھروندا ‘‘۔ از ڈیفنی ڈی موریئر)
اس طرح وہ ناول شروع ہوتا ہے جس میں ہیرو اپنے دوست پروفیسر میگنس کی ایجاد کردہ دوائی پی کر ماضی کی سرئیل اور غیر مرئی دنیا میں چلا جاتا ہے۔۔​
یوں تو یہ ناول دوکہا نیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جن میں سے ایک کہانی پروفیسر میگنس اور اس کے دوست یعنی ہمارے ہیرو کی کہا نی ہے جو زمانہ حال میں جی رہے ہیں اور اسی طرح دوسری کہانی ماضی کی ہے جہاں پر ہیرو اس دوائی کے زیرِ اثر پہنچتا ہے۔ہمیں فی الوقت ان دونوں ہی کہانیوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہاں پر خاص طور پر اس ناول کا تذکرہ دراصل اس احساسِ شمولیت کا تذکرہ ہے جو ہیرو اُس ماضی کے لیے محسوس کرتا ہے ۔پہلے پہل وہ اس عجیب و غریب دنیا (ماضی) کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر رفتہ رفتہ اس کا ذہن اس ماضی کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اب وہ اس ماضی سے الگ رہ کر جی نہیں سکتا، یہی ماضی جواسکی پہچان بن چکا ہے۔​
اسی طرح ہمارے مطالعے میں ایک اور ناول بھی رہا جس کا نام اسٹرینجرز ( یعنی اجنبی ) ہے۔ جو ایک جاپانی مصنف جناب تائی چی یامادا کا لکھا ہوا ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ جناب وائن پی لیمرز نے کیا ہے۔​
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم برسرِ مطلب آنے سے پہلے اس ناول کے فلیپ پر لکھے ہوئے تبصرے اور مختصر کہانی کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کردیں۔​
’’ٹیلیویژن کے لیے کہانیاں لکھنے والا ادھیڑ عمر ہیراڈا جو اپنی طلاق کے حادثے اور دیگر مایوس کن واقعات کے سبب زندگی سے اکتایا ہوا ہے، اپنے گھر کو چھوڑ کر اپنے دفتر میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہےجو ایک اونچی عمارت کے اندر واقع ہے، جس کی بالکونی سے ٹوکیو کا مصروف کاروباری مرکز نظر آتا ہے۔ ایک رات اپنے کھوئے ہوئے بچپن کی یادوں میں غلطاں ، چلتے چلتے، وہ ٹوکیو کے بدنام علاقے میں جاپہنچتا ہے۔ وہیں ایک بائیسکوپ دیکھتے ہوئے اس کی ملاقات ایک پرکشش شخصیت سے ہوجاتی ہے جو ہو بہو اس کے باپ کی شکل کا ہے جو کئی سال ہوئے مرچکا ہے۔​
اس طرح ہیراڈا کی زندگی کی اس کشمکش کا آغاز ہوتا ہے ، جس میں وہ اپنے مردہ ماں باپ سے یوں ہر روز ملاقات کررہا ہوتا ہے گو یا دونوں زندہ اسی شہر کی ایک گمنام اور غریب بستی میں ایک معمولی سے گھر میں رہ رہے ہیں۔ ان دونوں اجنبیوں کی شکلیں ہوبہو اس کے مردہ ماں باپ جیسی ہیں جب ان کا انتقال ہوا تھا۔ اگرچہ اسے علم ہے کہ یہ دونوں اسکے اصلی ماں باپ نہیں بلکہ شاید ان کے بھوت ہیں اسےان سے ملکر اور ان کی محبت کو دوبارہ پاکر ایک گونہ سکون و اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے۔ ان سے ہر ملاقات کے بعد وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ کمزور محسوس کرتا ہے گویا وہ اسے رفتہ رفتہ زندگی کی بشاشت سے محروم کررہے ہیں اور اسے اپنے ماضی میں رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنے آپ میں اتنی قوت نہیں پاتا کہ ان سے جدا ہوکر ایک عام اور صحت مند انسان کی مانند اپنے ماضی سے رشتہ توڑ کر صرف اپنے حال میں جی سکے۔‘‘​
(اجنبی از تائی چی یماڈا)
اب ذرا اسکرین پر اسکرول کرتے ہوئے اس مضمون کے شروع میں پہنچ جائیے جہاں ہم نے ’’مٹی کا گھروندا ‘‘ نامی ناول کے ابتدائی پیراگراف کا ترجمہ پیش کیا ہے۔​
اس ناول کی کہانی بھی ہیرو کی اس کشمکش کی کہانی ہے جس میں وہ اپنے حال سے رفتہ رفتہ جدا ہورہا ہے۔ اور اپنے ماضی میں اس قدر محو ہوتا جارہا ہے گویا حال سے اس کا رابطہ منقطع ہورہا ہو۔ باوجودیکہ ماضی میں اس کا یوں کھویا جانا ، اسے اپنے حال سے دور کررہا ہے ، لیکن وہ ماضی میں اس قدر محو ہوچکا ہے اور اس قدر کشش محسوس کرتا ہے کہ اس کی زمانہء حال میں واپسی قریب قریب ناممکن معلوم ہوتی ہے۔​
بہت سال گزرے، کہیں کسی ادبی رسالے میں ہم نے ایک ڈرامہ پڑھا تھا۔ ڈرامے کا اور مصنف کا دونوں نام گوذہن سے یکسر محو ہوچکے ہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ اس میں ہماری طرح کا ایک اینٹی ہیروجو شہرت کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود اس سے کوسوں نہیں بلکہ برسوں دور ہے، ایک رات شہرت کی دیوی کو اپنی خواب گاہ میں موجود پاکر حیران رہ جاتا ہے۔ دیوی اسے یہ خوش خبری دیتی ہے کہ وہ ایک مشہور مصنف بن چکا ہے۔​
دیوی اس سے اس کی پسندیدہ اشیاء کے بارے میں پوچھتی ہے، پھر بالکونی کا دروازہ کھول کر نیچےجھانکتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ لوگو! تمہارے پسندیدہ مصنف کو فلاں فلاں چیزیں بہت پسند ہیں۔ نیچے مجمع سے داد و تحسین اور مصنف کے لیے نعرے لگانے کی آواز آتی ہے۔​
آج سے چھ سو نوری سال ( چھ سو دن) اور ایک ہزار پیغامات کی دوری پر ، ۲۳ دسمبر ۲۰۱۰ء وہ دن ہے جب ہمیں اپنے کمپئیوٹر پر اردو لکھنا سیکھے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے اور ہم شاید اردو لکھ کر گوگل کررہے تھے کہ اچانک ہماری نگاہ اردو محفل پر پڑی اور ہم نے فوراً ہی رجسڑیشن کے مراحل طے کرلیے۔​
اس کے بعد کی کہا نی ایک رولر کوسٹر رائیڈ ہے۔​
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر​
ہم اپنے آپ کو اس جسم کی مانند محسوس کرتے ہیں جو ایک طوفانِ گرد باد میں پھنسا ، اپنے آپ سے بے خبر، اپنے مستقر کی جانب اڑا چلا جارہا ہو۔ یا ان اجرامِ فلکی کی مانند جو روشنی کی سی تیز رفتار کے ساتھ اپنے لمبے ہوتے ہوئے، کھنچتے ہوئے جسموں سمیت کسی بلیک ہول کے مرکز کی جانب بہے چلے جاتے ہوں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ہم ایونٹ ہورائزن کو پار کر جائیں گے اور ایک قصہء پارینہ بن جائیں گے۔​
ہمیں فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں فورم کا نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں نشہ ہوگیا ہے۔ ہمیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔​
 
اسامہ بھائی اگر آپ ساتھ ساتھ ان دھاگہ کے ربط بھی دیتے جائیں تو بہت اچھا ہوگا
پیغامات کے اقتباس میں صاحب پیغام کے نام کے بعد ایک تیر کا نشان بنا ہوتا ہے۔ اس نشان پر کلک کر کے آپ متعلقہ دھاگے میں متعلقہ پیغام تک پہونچ سکتے ہیں۔ :) :) :)
 
Top