پہلا باب
ہماری شرارتیں
آج ہم ناظریں کو اپنی شرارتوں کا کچھ مختصر سا حال سناتے ہیں۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمارے والد صاحب کانپور میں تھے تو ہم ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے اور گورنمنٹ بنگلہ میں ٹھنڈی سڑت پر رہتے تھے۔ اتوار کا دن تھا اور صبح تڑکے ہی ہمارے بنگلہ پر دو تین دوست وارد ہوئے۔ جب سے طے ہو گیا تھا کہ دریا کے کنارے ککڑی کھانے چلیں گے۔ ہم لوگ بنگلے سے صبح ہی صبح نکلے۔ جیسے ہی باہر نکلے کوئی صاحب باہر سڑک کے کنارے بیٹھے پیشاب کر رہے تھے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ کام کیا گیا کہ ایک دم سے ان کے دونوں کندھے پکڑ کر بالکل چِت لٹا دیا اور یہ جا وہ جا۔ گالیاں تو نہ معلوم کتنی دیں مگر دور سے یہ ضرور دیکھا کہ وہ نل پر نہا رہے ہیں۔ ڈرا آگے بڑھے تو ایک صاحب بائیسکل پر جا رہے تھے۔ لہٰذا ہم اُچک کر کیل پر پیچھے کھڑے ہو گئے تھے اچھے آدمی پنسنے لگئ۔ ہم خفیف ہو کر تھوڑی دیر میں اتر پڑے۔ ایک دوسرے صاحب ملے۔ ان کی سائیکل پر جو ہم کھڑے