نے خاموشی کو توڑا اور باتیں کرتے کرتے وہ آہستہ آہستہ اور رفتہ رفتہ اس کی کرسی کی طرف بڑھنے لگے۔
اس وقت چاندنی کی عجیب حالت تھی اس جانور کی مانند تھی جو شیر کو دیکھ کر بے بس ہو اجاتا ہے کہ وقت رفتار کھو بیٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ شیر آ رہا ہے مگر جنبش نہیں کر سکتا۔ وہ خاموش تھی اور اس سے کوئی جواب ہی نہ بن پڑتا تھا ۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور ہونٹ بالکل خشک تھے جب کامل بالکل ہیی قریب آگئے تو نہ معلوم کس کوشش سے اس نے کہا۔
’’پانی عنایت کیجئے گا۔‘‘ اور صراحی کی طرف ہاتھ اٹھا دیا۔ کامل نے پانی دیا ۔ پانی پی کر کامل کو گلاس واپس دیا۔ کامل نے دیکھا کہ چاندنی کے ہاتھ میں رعشہ ہے۔ جس کے انہوں نے شاید غلط معنی لئے اور گلاس کو میز پر رکھ کر کرسسی کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ چاندنی بت کی طرح خاموش تھی اور انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چاندنی کی جو حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔
ہاتھ برف کی طرح سرد تھے۔ کامل نے اور جرات کی اور اب وہ کرسی کے سامنے گھنٹوں کے بل اس طرح کھڑے ہو گئے کہ اٹھنے کا راستہ رک گیا۔ اس نے ارادہ کیا کہ چیخ کر بھاگ جاؤں۔ مگر وہاں اب وقت گفتار یا رفتار کہاں؟ کامل کی رفتار افعال اس قدر آہستہ تھی کہ کوئی بات کیا کی پیش ہی نہ آ رہی تھی۔ جو بجلی کی طرح گر کر اس جمود کو توڑتی اور طبیعت کی رفتار کو ہیجان میں لا کر وقت پیدا کرتی جو قریب قریب مفقود تھی۔ ایسے موقع پر اگر کسی چیز کے گرنے کا دھماکہ بھی ہوتا ہے تو طبیعت کی جنبش ہو جاتی ہے اور انسان