معصومہ نے ان باتوں پر غور بھی نہ کیا اور گاڑی چلدی اور وہ بھی خوب تیز۔ معصومہ سمجھی کہ قلیوں کے پاس پہنچ کر گاڑی روکی جائے گی اور اصغر معہ اسباب کے اکر بیٹھ جائے گا ۔ وہاں گاڑی تو بے تحاشا جا رہی تھی وہ بالکل نہ گھبرائی مگر یہ سوچتی تھی کہ آخر کس سے اور کیسے پوچھوں کہ اسباب کیوں نہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو ملازم سے بات کرسکتی تھی اور نہ کوچوان سے اور نہ کھڑکی کھول کر کسی سٹرک واے کو پکارسکتی تھی۔ یہ سب کیوں ؟ محص اس وجہ سے کہ جس ماحول میں اس نے تربیت پائی تھی اس کے مزہب میں یہ سب منع تھا ۔ وہ چاہتی بھی تو ممکن نہ تھا کیونکہ وہ اس قدر کمزور طبیعت اور معصوم تھی کہ اس سے یہ سب ناممکن تھا ۔
اب معصومہ کو نہ معلوم کیا شبہ ہو رہا تھا ۔ کیونکہ گاری بجائے بازار کے سنسان راستہ پر جا رہی تھی اور اس کے اندازہ کے مطابق اب تک گاڑی کو گھر پہنچ جانا چاہیے تھا ۔ اس نے سب باتوں پر یکجائی میں غور کیا ۔ اور جھاکر باہر جو دیکھا تو اس کا کلیجہ بیٹھ گیا ۔ اس نے پریشان ہو کر کھڑکی پر ہاتھ مارنا شروع کیا اور جب گاڑی نہ رکی تو اس نے کھڑکی کو بلا مارا۔ گاڑی ایک دم سے رکی ۔ کھڑکی کھلی اور وہی شخص یہ کہہ کر اندر داخل ہوا کہ اگر چلائی تو جان سے مار دوں گا ا س نے کھڑکی بند کر لی اور پھر گاڑی چل دی ۔ خدا کی پناہ غریب معصومہ کا اس وقت کیا ہوگا۔ کسی قلم میں طاقت نہیں کہ صحیح حالات قلمبند کرسکے۔ ورہ زندہ تھی مگر مردہ سے بدتر وہ سہم کر کونہ میں سرک گئی۔
وہ شریف عورت معصوم اور فرشتہ سیرت جس نے کبھی کسی نامحرم سے بات تک نہیں کی ہو۔ وہ بھلا کیونکر کسی وحشی ظالم کی دھمکیوں یا دست درازیوں کی متحمل ہوسکتی تھی ۔ انتہائی دہشت سے اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔
(5)
معصومہ کو ہوش جو آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک ذلیل بستر پر پڑا پایا چاروں طرف اندھیرا چھایا ہو ا تھا ۔ کیونکہ اس جگہ قید کی سی تاریکی تھی ۔ ہوا میں نمی اور تعفن تھی اور بھاری معلوم ہوتی تھی ۔ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتاتھا اور وہ یہی خیال کر رہی تھی کہ میں زندہ ہوں یا مردہ۔ ایک ہو کا عالم تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا اور معصومہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا کہ ایک دم سے ایک سمت سے کچھ کھٹکا سا ہوا۔ وہ سہم گئی اور تاریکی میں نے ایسی آہٹ سنی کہ جیسے کوئی سانپ کی طرف آرہا ہے ظالم آپہنچا۔ اس نے اپنے دل کو کہا ہائے معصومہ اب یہاں تیرا کوئی یارومددگار نہیں۔
اتنے میں ایک دیاسلائی جلی اور اس نے اس خوفناک چہرہ کو دیکھا اسکے بعد ایک کڑوے تیل کا چراغ روشن کیا۔ معصومہ نے چاروں طرف نظر ڈالی تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ شاید کسی تہہ خانہ میں ہے۔
یہ ظالم چاپائی کے پاس آکر ایک تخت پربیٹھ گیا ۔ معصومہ سکڑ علیحدہ ہو گئی۔ اس نے معصومہ کو کچھ مٹھائی اور دودھ دیا ۔ اور اس افسوس کہ اس کو اس نے مارمار کر کھلایا۔