فاروق سرور خان
محفلین
رہی ٹھیکیداری کی بات، تو علمائے حق کو یہ ٹھیکیداری اللہ تعالیٰ نے دی ہے نہ صرف اس امت میں بلکہ سابقہ امتوں میں بھی:
انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نور یحکم بھا النبیون الذین ءسلموا للذین ھادوا و الربانیون والاحبار بما استحفظوا من کتاب اللہ و کانوا علیہ شھداء (المائدۃ44)
“ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی جو مسلم تھے، اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اسی طرح ربانی (علماء) اور احبار (فقہاء) بھی۔ کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے”
آپ کے باقی پیغام سے میں متفق ہوں۔ لیکن مندرجہ بالا آیت کے استعمال میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ تورات سے متعلق یہ آیت ملاؤںکو کسی قسم کی ٹھیکیداری کا حق نہیں دیتی ہے۔ حکومت کرنا کسی مولوی کا حق نہیں۔ اور نہ ہی یہ مولوی کسی طور پر کسی بھی نبی کے مساوی ہیں۔ یہ ربائی اور احبار ، جن کو کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اپنا کام جس طرح بھی انجام دیتے تھے قرآن اس پر گواہ ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اس پیغام کی حفاظت کا ذمہ خود لے لیا اور یہ ملائیت ہے ہی اسرائیلیات کی پیداوار۔ مسلمانوں میں ان ہی ربانی اور احبار نے ملاؤں کا روپ دھارا اور اپنے حلوے مانڈوں سے آگے کچھ نہ سوچا۔ یہاں یہ تنقید ختم
آپ کی دیگر باتوںکی تائید میں یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کی تعلیم ہر شخص کو میسر ہو تاکہ اس ٹھیکیداری اور اس آؤٹسورسنگ کا خاتمہ ہو۔ قرآن کہ بیشتر سورتوں کی ابتدا - یا ایھا الذین امنو -- (اے تمام لوگو، جو اس پیام پر ایمان لے آئے ہو) ---- سے اسی لئے شروع ہوتی ہے کہ اس پیام الہی کو -- تمام لوگ قبول کریں - نہ کہ چند --- مولوی حضرات --- فرد واحد کی قانون سازی یا فتوی بازی قرآن کسی طور پروموٹ نہیں کرتا۔ قانون اللہ کا ہے اور ہر مسلمان پر فرضہے۔ چند لوگ مولوی بن کر اس قانون کے ٹھیکیدار ہوں یہ قرآن کا پیغام نہیں۔
مزید یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ۔۔۔
مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ نا کہ ایک مولوی اس کا ذمہ دار ہو؟
[AYAH]42:38[/AYAH] اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
عدل و انصاف کا تعین ایک جماعت کرے نہ کہ ایک مولوی؟
[AYAH]7:181[/AYAH] اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں
اچھی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے کے لئے بھی ایک جماعت کی ضرورت اللہ تعالی واضحکرتے ہیں۔ یہاںبھی ایک مولوی کا تذکرہ نہیں
[AYAH]3:104[/AYAH] اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں
اور یہ لوگ منتخب شدہ ہونگے، ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے یا ووٹ دیا جائے، منتخب لوگ ہی اولی الامر یا منتظم ہیں - ان منتخب شدہ لوگوں کی اطاعت فرضہے یا ایک مولوی کی؟
[AYAH]4:59[/AYAH] اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے
قانون سازی پر حرف آخر، یہ کتاب۔
[AYAH]5:48[/AYAH] اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے
جو قتل و غارتگری ان لوگوںنے نفاذ شریعت کے نام پر مچا رکھی ہے، وہ کسی مولوی کا حق کیسے ہوگیا؟
زندگی کی حفاظت، فرد واحد کی زندگی، ملت کی زندگی، فرد واحد کی موت، ملت کی موت
[ayah]5:32[/ayah] اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں
صاحب، اس زمیں میںفساد پھیلانے کی ذمہ داری ان ملاؤں پرنہیں تو کس پر عائد ہوتی ہے؟
رسالت تو رسول اکرم کے ساتھ ختم ہوگئی لیکن کیا یہ ملا اپنے آپ کو کسی طور کسی رسول سے کم سمجھتے ہیں؟ یہ تو کسی بھی قسم کے شورائی نظام کو اپنے لئے سمِ قاتل سمجھتے ہیں۔ ان ملاؤںنے ہندوستان میں کونسی یونیورسٹی دی؟ یہ ملا دین کے ٹھیکیدار بنتے ہیں اور مسجدوں سے اسکول جلانے کے فتوے دیتے ہیں؟ جو کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں کی خلاف ورزی ہے۔ جب یہ ملا خود اپنے اعمال کو نفاذشریعت کا نام دیتے ہیں تو اس کو کوئی اور نام دینے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ بات یہ ہے کہ مسلم کا اسلام اور ہے اور ملا کا دین اور۔
والسلام