ظہور احمد سولنگی
محفلین
باقی پڑہنے کئے کلک کریںشریف۔۔۔ طرزِ حکمرانی ۔ایک تجزیہ ،از؛زرقا مفتی
؛زرقا مفتی ۔لاھور
1990 کے انتخابات میں شہباز شریف صاحب اندرون شہر لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ الیکشن لڑنے کے لیے انہوں نے مقامی کونسلر حضرات کی خدمات حاصل کیں ۔ الیکشن مہم کے دوران کونسلر حضرات کی نیندیں بھی حرام رہیں ۔کیونکہ انتخابی جلسے اور کارنر میٹنگز نمازِ فجر کی اذانوں تک جاری رہتیں۔
شہباز شریف صاحب نے اس مہم کے دوران فنڈز تقسیم کیے ، ترقیاتی کام کروائے ، ایک نوکری کے لئے پانچ پانچ امیدواروں کو(مختلف الفاظ میں) سفارشی خطوط عطا کیے ظاہر ہے نوکری کسی ایک ہی کو ملتی۔ ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ پر ترقیاتی کاموں کے لیے افسران بلائے جاتے ۔ کسی بھی کام کی ڈیڈ لائن بتائی جاتی، وارننگ بھی دی جاتی افسروں کے لیے اُن کا تکیہ کلام ” آئی ول ہینگ یو“ تھا۔
انتخابات کے بعد نواز شریف صاحب وزیرِ اعظم بن گئے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ غلام حیدر وائیں صاحب کے سپرد کی گئی مگر درحقیقت پنجاب کاکنٹرول شہباز شریف صاحب کے اپنے ہاتھ میں تھا۔ الیکشن کے پلاٹوں کی بے دریغ الاٹمنٹ کی گئی حلقے کے ووٹر ز سپورٹرز کو نوازا گیا ۔
شہباز شریف بنیادی طور پر صنعتکار ہیں اور آمرانہ مزاج کے حامل بھی افسران سے اُن کا سلوک کچھ ایسا ہی ہوتاتھا جیسے کسی مل مالک کا ایک مل مزدور کے ساتھ ہوتا ہے۔
نواز شریف صاحب فوج کی نرسری سے نکل کر اقتدار کے ایوان میں براجمان ہوئے تھے۔ مگر 1993 میں نواز حکومت کی برطرفی کی ایک وجہ فوج سے اُن کے نا خوشگوار تعلقات بھی تھے۔ 1997 کے انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی حمایت کے بغیر ایک بھاری مینڈیٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔ سو انہوں نے طے کر لیا کہ اس بار فوج ، عدلیہ یا افسر شاہی کسی کا جائز ناجائز دباؤبرداشت نہیں کرنا۔ انتخابات سے پہلے چوہدری برادران سے عہد ہوا تھا کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پرویز الہی ٰ کو سونپی جائے گی مگر انتخابات کے بعد اس عہد کی پاسداری کی کوئی اہمیت نہ رہی ۔ اور شہباز شریف صاحب پنجاب کے مطلق العنان حکمران بن گئے۔