شطر بے مہار


اسلام آباد کے خلوت نشینوں نے کل جہانوں کی خبر گیری کرنے والے آقا ﷺ کی ناموس میں گستاخی کی خبر لی اور تحفظِ ناموس رسالت کے دفاع میں "یوم عشق رسول ﷺ" منانے کا اعلان کر دیا۔ یہ اقدام تو بہر حال احسن ہی تھا، الگ بات ہے کہ اس میں کچھ عقل و خرد سے پیدل "حضراتِ مؤمنین" کے کہنے پر ناموسِ رسالت کے دن کو عشق رسول کا دن قرار دیا گیاحالانکہ مؤمنِ صادق تو ہر لمحہ عشق رسولﷺ سے سرشار رہتا ہے اور یہ فرض عین اور ضروریاتِ ایمان سے ہے۔
جو دم غافل سو دم کافر۔۔
مؤمن تو سانس بھی محبت رسول ﷺ ہی سے لیتا ہے اور آقائے نامدار ﷺ کی ذات ِ ستودہ صفات ہر رشتہ، تعلق، ترجیح اور مفاد سے بڑھ کر ہے اور اس پر ہمیں کچھ زیادہ کلام کی حاجت نہیں کہ یہ امر مسلمہ و مصدقہ ہے۔ عین اس وقت جب ملک کے طول و عرض میں یہ دن منایا جا رہا تھا کچھ دو "مونہے" بھی سر نکالنے اور اپنا کار شر نبھانے میں کامیاب ہو گئے۔ زبان پر حرمت و تکریمِ رسول کے نعرے اور من میں مچلتی شرارتیں اور خناس۔
بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔۔۔۔
کیچڑ پہ کیچڑ یہ کہ "اسلامی" جمہوریہ پاکستان کے میڈیا کو صرف اور صرف ملک کے چار بڑے شہر ہی نظر آئے جہاں تشدد ہوا، سوا سو زائد شہروں کے ہزاروں وہ مظاہرے جس میں درود و سلام اور عزت و توقیر کا بیان ہوا وہ ان سب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ دہکتی آگ، جلتے بازار، بہتے لہو، عوام اپنے ہی محافظوں سے دست و گریباں۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ اگر میڈیا براہ راست نا دکھاتا تو ریٹنگ کیسے بڑھتی؟ آخر ایک نادر و نایاب موقع ضائع تو نہیں کرنا تھا نا۔۔۔۔ ویسے اب تو یہ تماشا ہفتے عشرے میں ایک آدھ بار میسر رہتا ہی ہے۔
"سلطان الوقت" نے حجلہ گاہ کی حدود میں ہی "مقربین" کو دیدار کا شرف بخشا، دامن پہ لگے داغ کو دھونے کی کوشش کی اور قصہ تمام۔۔۔ کاش اللہ کریم وسیع النظری عطا کرتا اور عالم پناہ اپنی راجدھانی سے باہر نکل کر عوامی مظاہروں کی قیادت کرتے، نا توڑ پھوڑ ہوتی نا تشدد اور اہل وطن سمیت پوری دنیا کو احساس ہو جاتا کہ واقعی یہ "اسلامی" جمہوریہ پاکستان ہے۔ مگر۔۔۔
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوقِ جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ اپنوں سے بھی برابر گلہ ہے، بلکہ یہ بات گلے سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ دو "منہ" والوں کی نشاندہی کرنا بھی تو ہمارا فرض تھا، نبی ہمارا، ملک ہمارا، دن ہمارا، تقدیس و تعظیم ہماری تو پھر یہ شریر کہاں سے گھس آئے؟ یہ کہاں کی عقل مندی کہ ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ کی حرمت نشانہ بنی، ملعون زندہ ہے، اس کے آقا اور پشت پناہی کرنے والے بھی زندہ ہیں مگر ہم نے اپنوں ہی کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ منافقت کے عمیق اندھیروں میں بسنے والے ان ظالموں نے عشق رسول ﷺ کی آڑ میں بے گناہوں کے خون سے کھلواڑ کیا۔ کراچی میں تو باقاعدہ "درآمدہ" لفنگوں کو پرچموں سمیت دیکھا گیا۔ جس نبی ﷺ کے نام پر یہ دن منایا گیا اس کے ہاں تو اخلاقیات، انسانی حقوق اور آئین و قانون کی پاسداری کا معیار بلند ترین سطح پہ تھا۔ نور نظر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے قاتل ہوں یا نجران کے عیسائی، گھر آئے یہودی ہوں یا پھر مال غنیمت کی تقسیم اس کے ہاں تو آئین و قانون پر عملداری بحر حال مقدم رہی۔
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيںکچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
اس قوم کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ تنظیم کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ سرکاری محکموں سے لے کر نچلے طبقے کےعام آدمی تک، کوئی بھی قومی دھارے میں نہیں ہے۔ نظم و ظبط نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ یہ تو وہ قوم ہے جو بجلی کا بل جمع کروانے جائے تو لمبی قطار دیکھ کر غشی کا دورہ پڑھ جائے، نتیجتاً واجب الادا رقم سے کچھ زائد رقم بطور رشوت ادا کر کے جلدی بل ادا کروا لیتے ہیں۔ تعلیمی پسماندگی اور قوم کی صفوں میں یگانگت کے فقدان نے اچھے رہنما بھی پیدا نہیں ہونے دئیے۔ خود کو مسلمان کہنے والے چار فرقوں کی چار ہزار تنظیمیں ہیں۔ جذبہِ حب الوطنی اور غلبہ اسلام کے جذبے سے سرشار ہو کر ایک جماعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ دو افراد کی اس جماعت کا پہلا اختلاف سربراہ کے انتخاب سے ہی شروع ہو جاتا ہے، پھر اس "ست ماہی' جماعت کی کئی "جماعتیاں" بنتی ہیں، مثلاً مرکزی۔۔۔۔ حقیقی۔۔۔۔ عوامی۔۔۔۔۔ قائد اعظم۔۔۔۔۔ حق پرست۔۔۔ فنکشنل۔۔۔۔ شہید اور نا جانے کن کن گمناموں سے منسوب کر دی جاتی ہے۔ الغرض اس مفلوک الحال اور بار بار کی سیاسی و مذہبی "طلاقوں" سے اس جماعت کی "تیتی پھیتی" اڑ جاتی ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں۔ صاف ظاہر ہے عہدوں کا لالچ اور خود کو رہبر سمجھنا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں اس کا اس قدر تجربہ کیسے؟ تو صاحبو ہم خود اس ناسور کا شکار رہے ہیں بتا اس لیئے دیا کہ سچ لکھنے میں کسی کو کلام نہیں اور جب تک سچائی کا سامنا نہیں کریں گے تب تک یہ مکروہ سلسلہ سم قاتل بن کر ہماری رگ و پے میں دوڑتا ہی رہے گا۔ تو بات طویل ہوئی، عقل وخرد سے پیدل یہ رہبر کیا جانیں کے رہبری کتنا عظیم مقام ہے، خشک ملاں اور حقیقت سے نابلد دنیا دار قوم کی قیادت تو کرنا چاہتے ہیں مگر اصولوں سے ہٹ کر۔ اسلامی ملک میں شارعِ اسلام کے طریقے کو اپناؤ گے تو عظمت پاؤ گے۔ ذاتیات سے بالا تر ہو کر اجتماعی مفادات کے لیئے کام کیا جائے تو کامیابی ممکن ہے۔ مگر اس سے پہلے علی الاعلان منافقین کو اپنی صفوں سے نکالا جائے۔ جو اتحاد ملت کے دشمن اور امن الوطن میں بگاڑ ڈالنے والے ہیں انہیں ان کے فضلے سمیت ٹھکانے لگایا جائے، تا کہ کفر و شرک اور بدعت و گستاخی کے نامی پر فتووں کے لوٹ سیل بند ہو۔ کافر اعظم اور کافرستان کے نعرے لگانے والوں کا تخم آج بھی موجود ہے۔ انہیں بے نقاب کیا جائے۔ غیروں کی نمائندگی کرنے والوں کو ان کے آقاؤں کے سپرد کر دیا جائے۔ ایک وسیع المیعاد حکمت عملی ناگزیر ہے۔ حدود اور قانون سے تجاوز اللہ کو روا نہیں۔ مبذرین و مفسدین کے لئیے دردناک وعدیں آئی ہیں۔ دینِ متین سے حقیقی لگاؤ اور اس پر عمل ہی کامیابی کا ضامن ہے۔ اس بگڑی ہوئی اور بے راہ روی کی شکار قوم کو سدھارنے کے لئیے خاص وعام کا فرق کئیے بغیر آئین و قانون پر عمل ازحد ضروری ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ شطر بے مہار کسی بڑے قومی نقصان کا سبب بھی بن جائے گا۔
ضمير لالہ ميں روشن چراغ آرزو کر دےچمن کے ذرے ذرے کو شہيد جستجو کر دے ترے سينے ميں ہے پوشيدہ راز زندگی کہہ دےمسلماں سے حديث سوز و ساز زندگی کہہ دے
 
جزاک اللہ خیر۔ افتخار صاحب بہت ہی اچھے طریق سے آُپ نے آئینہ دیکھایا ۔ لیکن کسی نے محاورہ بہت خوب کہا “ شرم ھم کو مگر نہیں آتی۔“

مسلمانیت کا تو ایک لیبل ھم اپنے ماتھے پر سجایا ہوا ہے ورنہ منافقیت ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ھے۔
یہ کہاں کا احتجاج ہے کہ کسی غریب کی کٹیا میں آگ لگادینا ۔ روزی کے اڈا کو تباہ و برباد کردینا۔ ناجانے کتنے معصوم آج اللہ رب العزت کے سامنے اپنی دھائی دیے رہے ہوں گے اور مخاطب ء نبی کریم ہوں گے کہ کیا مسلمانوں کے اصلی چہرے یہ ھیں جو اپنے آپ کو آُپ کا عاشق کہلواتے ہیں ۔ بڑی بڑی محفلیں نعت خوانی کروانے کے لیے لاکھوں اور کڑورں روپے خرچ کردیا جاتا ھے کہ شاید آقا کی بارگاہ میں قبول ہوجاے لیکن دوسری جگہ وہی لاکھوں روپوں کی پراپرٹی تو تباہ کردیا جاتا ھے ۔کیا آقا نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ ۔۔۔

آج وہ بے غیرت یہودی بھی ھم پر خوب کھل کھلا کر ہنس رہیے ہوں گے اور کہتے ہوں گے “ یہ ہیں وہ مسلمان جو اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق کہلواتے ہیں - دیکھو ان کو اپنے ھے گھر کو اگ لگا رہے ہیں اپنے ھی چراغ سے ۔۔۔۔۔ دعا ہے اللہ عزوجل سے کہ ھم سب حقیقی محب ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم بننے کے توفیق عطا فرماے۔ آمین بجاہ النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا رب العالمین۔۔۔۔
 

زبیر مرزا

محفلین
جزاک اللہ - افتخار صاحب اللہ تعالٰی زورقلم اورزیادہ کرے بڑے مؤثرانداز میں آپ نے اس موضوع کا احاطہ کیا
میڈیا کے لیے تو بُری خبربڑی خبر ہے اور اچھا عمل نظرانداز کرنے کی پالیسی جس سے دل حددرجہ بیزار ہوتا ہے
کچھ لوگوں کا مزاج بھی اس رنگ میں ڈھل رہا ہے کہ منفی باتوں پرتوجہ زیادہ اور مثبت کاموں اور تعمیری عمل سے غفلت
کوطنزوتنقید سے کیوموفولاج کرنا ہے
اللہ تعالٰی ہمیں حضوراکرم :pbuh: کے اخلاق اور سنت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے
جو اصل عاشق رسول :pbuh: کی پہچان ہے اور اس کی طاقت بھی -
 

مہ جبین

محفلین
افتخار الحسن رضوی صاحب نے بالکل صحیح کہا
واقعی یہ کونسا طریقہ تھا احتجاج کرنے کا؟
اپنے ملک کا نقصان کرکے ، یا توڑ پھوڑ کرکے، یا جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ کرکے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اپنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اترواکر کونسا عشقِ رسولِ پاک کا تمغہ اپنے سینے پر سجا رہے ہیں؟
یہ نہ اسلام ہے اور نہ ایسا کرنے والے مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں
خود تو دنیا میں ذلیل ہوئے ساتھ امن پسند مسلمانوں کو بھی ذلت اور رسوائی کے تحفے دے رہے ہیں
اس سے وہ فیم بنانے والوں کا تو کوئی بھی نقصان نہیں ہوا بلکہ امتِ مسلمہ امن کے ساتھ جو پیغام گستاخانِ رسول کو دینا چاہتی تھی ، وہ نہ جاسکا
اور اس شر کو پوری دنیا میں پھیلانے میں تو میڈیا بھی پیش پیش رہا ۔۔۔۔پل پل کی شر انگیزی کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر دی جارہی تھیں
اس وقت ان نیز چینل والوں کو بھی تھوڑی سنجیدگی اور بردباری کے ساتھ یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اگر یہ مٹھی بھر لوگ جو فہم و فراست ، نورِ بصیرت اور اور اسلامی اصولوں سے عاری ہیں اور نام نہاد مسلمان بن رہے ہیں اگر آج ان کی فتنہ انگیزیوں کی خبروں کا بائیکاٹ کردیں اور صرف امن پسند مسلمانوں کی ریلیوں اور جلوسوں کی کوریج کریں تو پوری دنیا میں ایک زبردست پیغام جاسکتا تھا
اور ہم سفارتی ذرائع سے بھی بہت بہترین طریقے سے دباؤ ڈال سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام دشمنوں نے بہت کاری ضرب لگا کر ہمارے پُر امن احتجاج کو ناکام بنادیا ۔۔۔۔۔۔

اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے آمین
 

نیلم

محفلین
ماشاءاللہ بہت اچھی تحریرہے بھائی...یہ تحریر اس بات کا ثبوت ہےکہ ہم پاکستانی وہ نہیں جو میڈیادیکھارہاہے..ہاں کچھ لوگ ایسےضرور ہیں لیکن صرف مٹھی بھر....
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ خبر اچھی لگی فیس بک پر کہ ایک بہت بڑا لیکن پر امن جلوس نکلا ہوا ہے۔ اوریہ مقبول جان نے پوسٹ کی تھی اور پوچھا ہے کہ اس پر امن جلوس کی خبر کیوں نہیں آئی میڈیا پر؟
 

نیلم

محفلین
یہ خبر اچھی لگی فیس بک پر کہ ایک بہت بڑا لیکن پر امن جلوس نکلا ہوا ہے۔ اوریہ مقبول جان نے پوسٹ کی تھی اور پوچھا ہے کہ اس پر امن جلوس کی خبر کیوں نہیں آئی میڈیا پر؟
اس بات کا ذکر میں نے بھی اپنی ایک پوسٹ میں کیاہے.
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے آپ کی، اب یہ سمجھنے کی بات ہے۔

پاکستانی قوم بُری نہیں ہے، ہاں اس قوم میں چند گندے انڈے ضرور ہیں جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔

کل کے اخبار میں اوپر سے نیچے تک گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ کی تصاویر تھیں۔ ان میں ایک تصویر فلپائن کی بھی تھی جس میں چند لوگ سڑک کنارے بیٹھے ہیں اور گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے چندہ مانگ رہے اور ایک اور تصویر تھی امریکہ کے کسی شہر کی جہاں مسلمان اکٹھے ہو کر ایک سڑک پر کھلے عام نماز ادا کر رہے ہیں کہ سٹرک بھی بلاک ہو جائے اور احتجاج بھی ہو جائے۔

پاکستان میں ان عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز ادا کی؟
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اس طرح کے مواقع کا سب سے زیادہ وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کا کوئی دین ایمان نہیں
احتجاج تو ہمارا حق ہے لیکن احتجاج ایسا جس میں واقعی وہ کچھ ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔
بلاشبہ کچھ ایسا ہی بہت عرصہ سے ہوتا چلا آرہا ہے کہ دل شکن ،نا امیدی اور برائیاں چن چن کے دکھائی جاتی ہیں جب کہ اچھائیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
ہم سب نے ہی اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں سیدھے راستے پر گامزن کردیں۔
اور ہم کام ایسے کرسکیں جو ہمارے مسلمان ہونے کا حق ادا کرسکے۔۔
ہم اپنے دین اور ملک کی صحیح ترجمانی کرسکیں۔۔پاسبانی کرسکیں۔ آمین!
بہت اچھی اور مثبت تحریر!
جزاک اللہ
 

زبیر مرزا

محفلین
ہمارے قاری صاحب اورمسجد کے احباب بھی احتجاج کا پروگرام مرتب کررہے ہیں جس میں
با آواز بلند دوردپاک پڑھا جائے گا اور کارڈز پر احتجاجی جملے درج ہوں گے کوئی نعرے بازی نہیں ہوگی
 

میر انیس

لائبریرین
خوش آمدید رضوی صاحب۔ آپ کا پہلا مراسلہ ہی بہت جاندار ہے۔
گو کہ میں نے ایک پوسٹ میں ایک غلط فہمی کی بنیاد پر اپنے بھائی نیرنگ خیال کو بے نقط سنائیں تھیں اور جب انکی وضاحت پر جب میں نے معذرت کرنا چاہی تو وہ دھاگہ ہی مقفل ہوچکا تھا جب سے خجالت میں میں نے اپنے ہاتھوں کو زنجیر پہنادی تھی اور محفل میں لکھنا ہی چھوڑ دیا تھا کہ اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں کہیں سٹھیاہٹ میں کچھ بڑا ہی ہنگامہ نہ کر بیٹھوں پر اب کیا کروں کہ موضوع ہی ایسا ہے کہ مجھ کو یہ قفل توڑنا پڑ رہا ہے۔
اب آئیں اصل موضوع کی طرف۔ تو بھائیو کراچی کے جلوسوں اور ریلیوں کا میں چشم دید گواہ ہوں جمعہ کی نماز کہ بعد اپنے بھتیجے میثم کے ساتھ موٹر سائیکل پر مسجد و امام بارگاہ نورِ ایمان سے نکلا عباسی شہید اسپتال تک ایک جمع غفیر جمع تھا موٹر سائیکلوں ،سائیکلوں کا ایک ہجوم جمع تھا سب کا رخ سات نمبر ناظم آباد کی طرف تھا یقین کریں مین روڈ پر پہنچ کر تو ایسا لگا کہ جیسے پورا شہر امڈ آیا ہو آپ یقین کریں کہ آپ شناخت نہیں کرسکتے تھے کہ کون کس پارٹی یا کس تنظیم میں سے ہے سب آپس میں اس طرح جڑ کر چل رہے تھے کہ اگر آگے والا ایم کیو ایم کا جھنڈا لئے ہوئے ہے تو پیچھے والا سپاہ صحابہ کا اور اسکے برابر میں آئی ایس او کا مجھ کو یہ دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ اسوقت ہر شخص اپنے سیاسی اور فقہی اختلافات بھلا کر صرف ایک بات پر متفق تھا کہ ناموسِ رسالت (ص) پر جان قربان کرنے کو تیار ہے جھنڈے بہر حال وہ اپنی پارٹی کے بھی نبی کے جھنڈوں کے ساتھ اٹھائے ہوئے ضرور تھے لیکن نعرہ سب کی زبان پر ایک ہی تھا "لبیک یا رسول اللہ" سات نمبر ناظم آباد سے ہم لوگوں نے گولیمار چورنگی کا سفر آدھے گھنٹے میں طے کیا آپ اب رش کا خود اندازہ لگالیں افراد کی تعداد کا اندازہ لگالیں پر سوائے پتلوں کو سڑک کے بیچ میں رکھ کر آگ لگانے کے نہ تو کسی کی املاک کو آگ لگائی گئی نہ ہی کوئی توڑ پھوڑ کی گئی۔ پھر ہم لوگ ڈاکخانہ جانے والی روڈ کی طرف مڑ گئےیہاں نسبتاََ رش کم تھا پر لیاقت آباد کا مشہور علاقہ جو ایک زمانے میں جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے بدنام تھا وہاں بھی کسی کی املاک کو نہ تو نقصان پہنچایا جارہا تھا نہ ہی کوئی سرکاری عمارت جلائی جارہی تھی واضع رہے کہ نادرا کا آفس بھی اسی روڈ پر ہے۔ اسکے بعد ہم نے نمائش تک جو سفر کیا ہے وہ تو ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک سیلاب بہ رہا ہے نبی(ص) کے چاہنے والوں کا۔ نمائش پر پہنچ کر ہم رک گئے جہاں آئی ایس او والوں نے کیمپ لگایا ہوا تھا جس میں موجود سبیل سے لوگوں کی پیاس بھجائی جارہی تھی ۔ یہاں پر ایک کے بعد ایک شیعہ سنی عالم نے تقریر شروع کی یہ لوگ وہی تھے جو کچھ عرصے پہلے ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے تھے اسی نمائش چورنگی پر خدا گواہ ہے سپاہ صحابہ والے بھی موجود تھے اور آئی ایس او والے بھی جمیعت علمائے اسلام والے بھی تھے اور مجلس وحدت مسلمین والے بھی لیاری کی امن کمیٹی والے بھی تھے اور ایم کیو ایم والے بھی مجھ کو اللہ کو جان دینی ہے یقین کریں وہاں یہ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ کہاں سے کس کی ریلی شروع ہوتی ہے اور کہاں سے کس کی سب کی زبان پر ایک نعرہ تھا شیعہ سنی بھائی بھائی امریکہ نے آگ لگائی ۔ یہاں ناموسِ رسالت کے پہلے شہید سید علی رضا تقوی کی بہن اور بھائی نے خطاب کیا اور آخر میں اہلِ سنت کے عالم دین مولانا عقیل صاحب نے یا نبی سلام علیکَ پڑھ کر اختتام کیا ۔ ابھی ہم واپس جاہی رہے تھے احتجاج ختم کرکے کہ خبر ملی کہ 3 سینما جو ایم جناح روڈ پر لائن سے تھے جلادئے گئے ۔ یہ کون شرپسند عناصر تھے جو کم تعداد ہونے کے باوجود اتنی بڑی پر امن تعداد پر غالب آگئے یہ یقیناََ وہی تھے جن کو مسلمانوں کا اتحاد کبھی پسند نہیں آیا۔ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ آگ لگانا کسی مسلمان کا کام ہو ہی نہیں سکتا یہ کام تو امریکہ کا ہے جس نے کبھی مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کیلئے کبھی ایران اور عراق کے درمیان آگ لگوائی کبھی تو کبھی عراق اور کویت کے درمیان آگ لگوائی پاکستان میں ہی مسلمان کو مسلمان کے خلاف کردیا ۔ پتہ نہیں ہم لوگوں میں کب شعور آئے گا ۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ رسول اللہ (ص) کے جان نثار سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں پر آپ کی ناموس پر حملہ ہونے پر متحد ہوکر اپنے سارے اختلافات بھلا کر بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں اس کم بخت میڈیا کی وجہ سے جو در حقیقت ان ہی کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے نے چند واقعات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ لگا کہ پورے کراچی لاہور اور اسلام آباد میں سارے ہی دہشت گرد تھے جو احتجاج کر رہے تھے ہماری وہ پر امن ریلیاں اور جلسے اور ان میں ہونے والی تقریریں دکھائی ہی نہیں گئیں جو لاکھوں کی تعداد میں پر امن نبی (ص) کے غلاموں پر مشتمل تھیں۔کہیں کہیں تو خود پولیس اور رینجرز نے خود کسی منصوبہ بندی کے تحت حالات خراب کئے۔ پر امن ریلی پر فائرنگ اور شیلنگ شروع کرکے انکو اشتعال دلایا ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
ماشاء اللہ ، جزاک اللہ ، اللہ آپ کو خیرکثیرعطا فرمائے
اور بھائی میرانیس خدرا خود کو بوڑھا مت کہو ابھی تو کھیلنے کھانے کی دن ہیں یوں بڑھاپا طاری مت کریں
قفل ٹوٹا خدا خدا کرکے تو اب مراسلت رہے گی :)
 

S. H. Naqvi

محفلین
پاکستان میں ان عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز ادا کی؟
یہاں دیکھیں:
284352_425502597507748_16217456_n.jpg

اور کچھ فیس بک جھلکیاں پر امن احتجاج کی۔۔۔۔!
545459_288388684596377_1973497830_n.jpg


مجھے ذاتی طور پر منہاج والوں کا احتجاج پسند آیا کہ ایک تو بہت ہی منظم تھا دوسرا ہندو اور سکھ برادری کے کچھ نمائندے بھی اپنی بساط کے مطابق احتجاج میں شامل تھے:
564244_380352268701266_683308274_n.jpg
 
Top