شعر، غیر شعر اور نثر
(شمس الرحمٰن فاروقی)
در مکتب نیاز چہ حرف و کدام صوت
چوں نامہ سجدہ ایست کہ ہر جانوشتہ ایم
(بیدل)
"نئی شاعری کی بنیاد ڈالنے کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس کے عمدہ نمونے پبلک میں شائع کیے جائیں، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شعر کی حقیقت اور شاعر بننے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے۔" (حالی: مقدمۂ شعر وشاعری)
کیا شاعری کی پہچان ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو کیا اچھی اور بری شاعری کو الگ الگ پہچاننا ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو پہچاننے کے یہ طریقے معروضی ہیں یا موضوعی؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ ایسے معیار، ایسی نشانیاں، ایسے خواص مقرر کیے جائیں یا دریافت کیے جائیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اگر یہ کسی تحریر میں موجود ہیں تو وہ اچھی شاعری ہے، یا اچھی شاعری نہ سہی، شاعری تو ہے؟ یا اس سوال کو یوں پیش کیا جائے، کیا نثر کی پہچان ممکن ہے؟ کیوں کہ اگر ہم نثر کو پہچاننا سیکھ لیں تو یہ کہہ سکیں گے کہ جس تحریر میں نثر کی خصوصیات نہ ہوں گی، اغلب یہ ہے کہ وہ شعر ہوگی۔
لیکن پھر یہ بھی فرض کرنا پڑے گا کہ شعر اور نثر الگ الگ خوص وخصائص رکھتے ہیں اور ایک، دوسرے کو خارج کر دیتا ہے۔ تو کیا ہم یہ فرض کر سکتے ہیں؟ یا ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ شعر اور نثر کے درمیان بال برابر حد فاصل ہے جو اکثر نظر انداز بھی ہو جاتی ہے، یا ایسی بھی منزلیں ہیں جہاں نثر اور شعر کا ادغام ہو جاتا ہے؟ پھر یہ بھی سوال اٹھے گا کہ نثر سے ہماری مراد تخلیقی نثر ہے (یعنی جس طرح کی نثر کا تصور افسانے یا ناول، ڈرامے سے منسلک ہے۔) یا محض نثر، (یعنی ایسی نثر جس کا تصور تنقید، سائنسی اظہار تاریخ وغیرہ سے منسلک ہے؟)
اتنے سارے سوالات اٹھانے کے بعد آپ کو مزید الجھن سے بچانے کے لیے کچھ توضیحی مفروضات یا مسلمات کا بیان بھی ضروری ہے، تاکہ حوالہ میں آسانی ہو سکے۔ پہلا مفروضہ یہ ہے کہ بہت موٹی تفریق کے طور پر وہ تحریر شعر ہے جو موزوں ہے، اور ہر وہ تحریر نثر ہے جو ناموزوں ہے۔ موزوں سے میری مراد وہ تحریر ہے جس میں کسی وزن کا باقاعدہ التزام پایا جائے، یعنی ایسا التزام جو دہرائے جانے سے عبارت ہو اور ناموزوں وہ تحریر ہے جس میں وزن کا باقاعدہ التزام نہ ہو۔
اگر چہ یہ ممکن ہے کسی ناموزوں تحریر میں اکا دکا فقرے یا بہت سے فقرے کسی باقاعدہ وزن پر پورے اترتے ہوں، لیکن جب تک یہ باقاعدہ وزن یا باقاعدہ اوزان دہرائے نہ جائیں گے یا ان میں ایسی ہم آہنگی نہ ہوگی جو دہرائے جانے کا بدل ہو سکے، تحریر ناموزوں رہے گی اور نثر کہلائے گی۔ یہ قضیہ اتنا واضح ہے کہ اسے مثالوں کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی اتمامِ حجت کے لیے یہ تحریریں پیش خدمت ہیں۔
(1) میں گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ میرے بچے سارے گھر میں ادھم مچاتے پھر رہے ہیں۔
(2)
بادل جو گھرے ہیں قریے قریے پر
اٹھ کر آتے ہیں بحروں سے اکثر
گھر گھر پہ پڑے ہیں ابرِ اسود کے پرے
دیکھو دیکھو اڑے ہیں کیا کالے پر
پہلی عبارت میں مندرجہ ذیل اوزان موجود ہیں جن کی وجہ سے تحریر کے یہ ٹکڑے الگ الگ موزونیت کے حامل ہیں،
میں گھر گیا۔۔۔ مستفعلن
تو میں نے دیکھا کہ میرے بچے۔۔۔ فعل فعولن فعل فعولن
سارے گھر میں۔۔۔ فاعلاتن
ادھم مچاتے۔۔۔ فعل فعولن
پھر رہے ہیں۔۔۔ فاعلاتن
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی علاحدہ موزونیت نے اس تحریر کو ایک ڈھیلا ڈھالا آہنگ تو بخش دیا ہے، لیکن تکرار یا التزام کی شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سے میں اسے نثر کہوں گا۔ دوسری تحریر ایک خود ساختہ فی البد یہہ رباعی ہے، اس کی معنویت سے قطع نظر کیجیے، یہ ملاحظہ کیجیے کہ چار مصرعوں میں چار الگ الگ اوزان استعمال ہوئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے، (1) مفعول مفاعلین مفعولن فع (2) مفعولن مفعولن مفعولن فع (3) مفعول مفاعلن مفاعیل فعل (4) مفعولن فاعلن مفاعیلن فع۔
ظاہر ہے کہ یہ اوزان ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور ان میں بھی عدم تکرار کی وہی کیفیت ہے جو عبارت نمبر ایک میں تھی۔ لیکن چوں کہ ان میں ایسی ہم آہنگی ہے جو التزام یا تکرار کا بدل ہو سکتی ہے اس لیے میں اس تحریر کو شعر کہوں گا۔ ویسے بھی یہ بات ظاہر ہے کہ محولہ بالا رباعی میں جو صورت حال ہے وہ استثنائی ہے، عام طور پر شعر میں ایک ہی وزن کو دہرایا جاتا ہے۔ بہر حال، سب سے مستحکم اور سمجھنے کے لیے سب سے کار آمد تفریق یہ ہے کہ کلام موزوں شعر ہے اور کلام ناموزوں نثر ہے۔ ہماری ساری مشکلیں بھی اسی تفریق سے پیدا ہوتی ہیں لیکن اسے ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ ہمیں بہت سی مثنویوں کے بارے میں یہ کہنا پڑے گا کہ ان میں اتنے فی صدی اشعار، اشعار نہیں ہیں اگر چہ موزوں ہیں۔
(جاری ہے)