سید عاطف علی

لائبریرین
سوداؔ تو۔ اس غزل کو۔۔ غزل در غزل ۔۔ہی لکھ.
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرح
مرزا رفیع سودا کا خراج تحسین میر کے نام
 
اب نظیری ہے اور نہ طالب ہے
اسداللہ خان۔۔۔۔۔ غالب ہے
مرزا کا خراج تحسین مرزا ہی کے نام (تعلّی) ۔۔۔۔ کمال کا استعمال ہے نظیری نیشاپوری اور ابو طالب کلیم جیسے اساتذہ کے ناموں کا اپنے نام کے ساتھ۔
میرے خیال سے طالب سے اشارہ طالب آملی کی جانب ہے اور اصل شعر میں غالباََ نظیری نہیں ظہوری ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
میر کی تعلیوں میں سے ایک:
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
 

فہد اشرف

محفلین
میں تو آنسوؤں کا سکوت ہوں لب شعر مجھ کو صدا نہ دے
نہ کبیر ہوں نہ نظیر ہوں نہ میں میر ہوں نہ بشیر ہوں
بشیر بدر
 

محمد فائق

محفلین
اے دیارِ لفظ و معنی کے رئیس ابنِ رئیس
اے امینِ کربلا، باطل فگار و حق نویس
ناظمِ کرسی نشین و شاعرِ یزداں جلیس
عظمتِ آلِ محمد کے مورخ اے انیس
تیری ہر موجِ نفس روح الامیں کی جان ہے
تو مری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے
(جوش ملیح آبادی)
 
مولانا کفایت علی کافؔی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے

پرواز میں جب مدحتِ شہ میں آؤں
تا عرش پر فکرِ رسا سے جاؤں
مضمون کی بندش تو میسّر ہے رضؔا
کافؔی کا دردِ دل کہاں سے لاؤں

مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا خراجِ تحسین
 
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
اس پر ارشاد فرما دیں کہ یہ شعر اعلی حضرت کا اپنا ہے یا جو مشہور ہے کہ داغ نے آپ کی نعت پرکہا۔ اصلاح درکار۔
 
سر یہ معلوم ہے کہ یہ اس نعت کا مقطع ہے. لیکن ایک رائے سنی تھی کہ یہ شعر داغ نے اعلی حضرت کے لیے فرمایا ہے

تحریری طور پر کوئی مستند ثبوت نہیں ہے اس بات کا، صرف عوام میں مشہور ہے۔
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے بھائی مولانا حسؔن رضا خان داؔغ کے تلامذہ میں شمار کئے جاتے ہیں اور انہوں نے اپنے کلام میں جابجا داؔغ کی استادی کا بھی ذکر فرمایا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب یہ نعت’ انکی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں‘ داؔغ کے پاس پہنچی تو مقطع نہیں تھا اس لئے داؔغ نے بےساختہ کہا کہ ملکِ سُخن کی شاہی۔۔۔۔۔۔ مگر جنہوں نے امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کے طویل قصائد اور دیگر کلام پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا کہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے مقطع نہ کہا ہو۔۔
واللہ تعالٰی اعلم
 
Top