شعرا کے چند لطیفے

سیما علی

لائبریرین
انور مسعود کے فن میں محنت، ہنر مندی اور پالش کاری کی جو سندرتا اور جلا نظر آتی ہے، یہ جوہر اُس کی ذاتی زندگی کی عطا ہے۔

یہاں پر اُس کی برجستہ گوئی کی چند مثالوں کا بیان بے محل نہیں ۔ حسِ ظرافت کا یہ چونچال پن شروع ہی سے اُس کی طبیعت کا خاصہ رہا ہے۔

کسی موقع پر بی اے کی کلاس میں مصحفی کے یہ شعر پڑھا گیا:
------

کاندھے پہ مَشک دھر کر جب قدم کو خم کرے ہے
ظالم کا حُسنِ کافر ہو جائے ہے دوبالا
------
انور مسعود نے فی البدیہہ دوسرا شعر جڑ دیا:
------
جس دن سے کامنی کو دیکھا ہے پانی بھرتے
میرے گلے سے آگے جاتا نہیں نوالا
 

سیما علی

لائبریرین
ایک روز مرحوم پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے چپراسی سے چاک لانے کے لئے کہا کہ وہ بلیک بورڈ پر کچھ لکھ کر سمجھانا چاہتے تھے، چپراسی بہت سے چاک جھولی میں ڈال کر لے آیا اس سے پہلے کہ عابدی صاحب چپراسی کی ’’چاک آوری‘‘ پر ناراض ہوتے، انور مسعود نے چپراسی کی جھولی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’سر! دامنِ صد چاک اِسی کو کہتے ہیں؟‘‘
 
Top