ندیم مراد
محفلین
ہاسٹل کے زمانے کا قصہ ہے، ہم کسی کام سے شہر آئے ہوئے تھے لڑکوں کے مزاج میں رومانی پن غالب آیا ہوا تھا بہت عرصہ کے بعد کوئی صنف نازک نظر آ رہیں تھیں، کہیں چلتے ہوئے ایک خاتون جو ہم سے ذرا آگے تھیں نظر آئیں جو اپنے بڑے بڑے بال لہرا لہرا کے چل رہیں تھیں، کسی نے فوراً فرمائیش کی کوئی شعر ہو جائے،
میرے منہ فی البدیح نکلا
قیامت تمہارے نشیب و فراز
اور اس پہ تمہاری یہ زلفِ دراز
واہ واہ کا شور بلند ہوا
سب نے کہا اس خاتون کو دیکھنا چاہئے جو اتنے خوبصورت شعر کی تخلیق کا سبب بنی
ہم ذرا تیز تیز قدم بڑھا کر ان کے قریب ہوئے اور اتنی تیزی سے ہم اس خاتون سے دور بھی ہوگئے،
وہ کوئی جمعدارنی تھی پھر کیا تھا، کئی دن تک دوستوں میں یہ شعر پڑھ پڑھ کر میرا مزاق اڑایا جاتا تھا،
اور میرے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا کسی کو دینے کا سوائے سب کے ساتھ مل کر قہقہے لگانے کے۔
میرے منہ فی البدیح نکلا
قیامت تمہارے نشیب و فراز
اور اس پہ تمہاری یہ زلفِ دراز
واہ واہ کا شور بلند ہوا
سب نے کہا اس خاتون کو دیکھنا چاہئے جو اتنے خوبصورت شعر کی تخلیق کا سبب بنی
ہم ذرا تیز تیز قدم بڑھا کر ان کے قریب ہوئے اور اتنی تیزی سے ہم اس خاتون سے دور بھی ہوگئے،
وہ کوئی جمعدارنی تھی پھر کیا تھا، کئی دن تک دوستوں میں یہ شعر پڑھ پڑھ کر میرا مزاق اڑایا جاتا تھا،
اور میرے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا کسی کو دینے کا سوائے سب کے ساتھ مل کر قہقہے لگانے کے۔