فرقان احمد

محفلین
علم عروض سے ہمارا دور دور کا واسطہ نہیں، تاہم، سخن شناسی کا دعویٰ ضرور ہے۔ اسی نسبت سے ایک نئی لڑی کے ساتھ حاضر ہیں۔ اس لڑی میں اساتذہ کرام سے فیض پانے کا پورا اہتمام کیا جائے گا۔ گو کہ اس سے قبل بھی ایسے کئی سلسلے شروع کیے جا چکے ہیں تاہم اس لڑی کی انفرادیت یہ ہو گی کہ یہاں آسان اور سادہ الفاظ میں مثالوں کے ذریعے شعری اور عروضی اصطلاحات کو واضح کیا جائے گا یعنی کہ مثال پہلے پیش کی جائے گی اور اس کے بعد شعر کا اُس مخصوص اصطلاح کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا۔ گو کہ اس موضوع پر کتابیں بھی موجود ہیں تاہم باہم مکالمے کے ذریعے سیکھنے کا عمل کافی دلچسپ ثابت ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے جس پہلی اصطلاح کو لے کر ہم اساتذہء کرام سے فیض پانا چاہتے ہیں، وہ ہے: ترصیع

امید ہے کہ اس لڑی میں تبصرہ کرنے والے معزز اساتذہ کرام اور علم عروض جاننے والے دیگر محفلین مثالوں کے ساتھ ہمیں سمجھائیں گے کہ ترصیع کیا ہے؟ جب ترصیع پر سیر حاصل بحث ہو جائے گی اور کم از کم تین چار مثالیں سامنے آ جائیں گی تو پھر اگلی اصطلاح کی طرف بڑھیں گے۔

نوٹ: مدیران سے گزارش ہے کہ اگر اس سے قبل ایسی لڑی موجود ہے تو اسے حذف کر دیں، شکریہ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بھائی یہ اچھی گفتگو شروع کی ہے آپ حضرات نے۔ مجھے ٹیگ کرنے کا شکریہ اگرچہ مجھے اساتذہ کے زمرے میں شامل کرنے پر اعتراض ہے ۔ ویسے اس موضوع پر درجنوں کتب آنلائن بھی موجود ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
بہرحال ، مختصراً یہ کہ کلام میں جو صنعتیں استعمال ہوتی ہیں انہیں دو اقسام میں بانٹا گیا ہے ۔ صنائع معنوی اور صنائع لفظی ۔ ترصیع لفظی صنعت ہے ۔ اس کے لغوی معنی تونگینہ کاری اور زیور جڑنے کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں ایسے شعر کو مرصع کہتے ہیں کہ جس میں یہ التزام رکھا گیا ہو کہ دونوں مصرعوں میں الفاظ علی الترتیب ایک دوسرے کے ہم وزن ہوں ۔ مثلا اگر پہلے مصرع میں پانچ الفاظ ہیں تو مصرع ثانی میں بھی پانچ الفاظ ہوں گے اور ان میں سے ہر لفظ علی الترتیب مصرع اول کے ہر لفظ کا ہموزن ہوگا ۔ اس وقت مجھے اس کی کوئی مثال ذہن میں نہیں آرہی ۔ لیکن مثال کی خاطر ایک شعر گھڑ لیتا ہوں :
میں ۔ ترا۔ بندہ ۔ ہوں ۔ عاجز
تو ۔ مرا ۔ مالک ۔ ہے ۔ قادر

بعض مصنفین کے نزدیک صنعتِ ترصیع میں دونوں مصرعوں کے الفاظ کا ہم وزن ہونے کے ساتھ ساتھ ہم قافیہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ مثلا کسی منقبت کا یہ شعر :

وحیدِ یگانہ ریاضت میں تھے
جنیدِ زمانہ عبادت میں تھے
ہم وزن اور ہم قافیہ کی شرائط کے ساتھ بہت کم اشعار ملتے ہیں یا میرے علم میں نہیں ۔ زیادہ تر تو صرف ہم وزن الفاظ کے التزام کو ترصیع سمجھا جاتا ہے ۔

حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی

اب ان جھنجٹوں میں کون پڑتا ہے بھائی ۔ یہ تو قدما کے کھیل تماشے تھے ۔ بقول لقا منگیشکر: وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے

:):):)
 

فرقان احمد

محفلین
عباد اللہ دراصل اس لڑی میں اساتذہ کو زیادہ تنگ کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ ہم انٹرنیٹ اور مختلف ذرائع سے ان اصطلاحات کی تعاریف اور امثال پیش کریں گے اور اساتذہ 'ہوم ورک' کی پڑتال کریں گے یا بطور تبرک ایک دو مثالیں پیش فرمائیں گے۔

لیجیے، آغاز کرتے ہیں۔

ایک شعر بطور مثال ۔۔۔!!!

باصر ہیں یہ بصیر ہیں اہلِ وفا ہیں یہ
قادر ہیں یہ قدیر ہیں اہلِ سخا ہیں یہ

وضاحت:
ترصیع ایسی صنعت ہے جس میں شعر کے دو مصرعوں کے تمام ارکان باہم ہم وزن اورہم سجع ہوں یعنی ایسے الفاظ جس کی آخیر آوازیں ایک جیسی ہوں جیسے یار، غار انکار، افکار وغیرہ ۔

اب علمِ عروض سے آگہی رکھنے والے دوست احباب اور اساتذہ کرام مزید تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔ جب ایک دو مثالیں پیش کر لی جائیں گی تو اگلی اصطلاح کی طرف بڑھیں گے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
ترصیع کی مزید مثالیں؛ منیر نیازی کے کلام سے

ڈاکٹر سمیرا اعجاز رقم طراز ہیں: "صنعت ترصیع کا تعلق موسیقیت اور ترنم کے ساتھ ہے۔ ایک موزوں مصرعے کے مقابل اس طریقے سے دوسرا مصرع لایا جائے کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ اور دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ ہم قافیہ ہوں۔ اگر ایک مصرعے میں ہم قافیہ الفاظ آئیں تو بھی صنعت ترصیع کا التزام ہو گا۔ موسیقیت، ترنم اور روانی منیر کی غزل کا نمایاں جزو ہے۔" اقتباس از مضمون "منیر نیازی کی غزل؛ بیان و بدیع کے تناظر میں"

چند مثالیں دیکھیے:

کئی رنگ پیدا ہوئے برق سے
کئی عکس ۔۔۔ دیوار و در پر گئے

وہی نُور کی بارشیں کاخ و کُو پر
وہی جھٹپٹے کا سماں میرے دل میں

کچھ تو اُس کے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی ۔۔۔۔۔۔ اُس کو سُریلا کر گئی
 
میں نے جہاں تک سمجھا ہے تو اس تعریف سے اتفاق کرتا ہوں۔
شعری اصطلاح میں ایسے شعر کو مرصع کہتے ہیں کہ جس میں یہ التزام رکھا گیا ہو کہ دونوں مصرعوں میں الفاظ علی الترتیب ایک دوسرے کے ہم وزن ہوں ۔ مثلا اگر پہلے مصرع میں پانچ الفاظ ہیں تو مصرع ثانی میں بھی پانچ الفاظ ہوں گے اور ان میں سے ہر لفظ علی الترتیب مصرع اول کے ہر لفظ کا ہموزن ہوگا ۔
ابھی یاد نہیں مگر شاید کبھی پہلے اس کا ذکر فاتح بھائی نے کیا ہے کہیں۔
مگر یہ صرف پہلے لفظ والی بات کم از کم مجھے نہیں درست معلوم ہوتی۔ :)
اسے میری رائے ہی سمجھا جائے۔
 
کئی رنگ پیدا ہوئے برق سے
کئی عکس ۔۔۔ دیوار و در پر گئے

وہی نُور کی بارشیں کاخ و کُو پر
وہی جھٹپٹے کا سماں میرے دل میں

کچھ تو اُس کے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی ۔۔۔۔۔۔ اُس کو سُریلا کر گئی
میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انھیں کیسے امثالِ ترصیع قرار دیا گیا ہے.
ایک موزوں مصرعے کے مقابل اس طریقے سے دوسرا مصرع لایا جائے کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ اور دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ ہم قافیہ ہوں
ترصیع کی یہ تعریف، جو جناب ظہیر صاحب نے کہا، اس سے خاصی مختلف معلوم ہوتی ہے اور مذکورہ اشعار اس پر بھی پورا نہیں اترتے.
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انھیں کیسے امثالِ ترصیع قرار دیا گیا ہے.
لگتا ہے صاحب ِ تصنیف نے ترصیع کے دائرے کو از حد وسیع کردیا اوردو مصرعوں کے تمام الفاظ کے بجائے کسی ایک کو بھی کو مترتب اورہم وزن یا مشابہ و مطابق ہو نے کو ترصیع قرار دیا ہے۔اسے ان کی رائے کہہ سکتے ہیں اگر ایسا ہے تو۔
البتہ اگر ڈاکٹر موصوف صاحب کے بقیہ قول کو دیکھا جائے تو ترصیع کو غنائیت کا بنیادی عنصر بھی قرار دیتے ہیں ۔
یہ بات قابل قبول نہیں لگتی ۔ کیوں کہ غنائیت کی بنیاد دراصل اصواتی زیر و بم کی ترتیب میں ہوتی ہے جو درحقیقت شعر کے قالب کے پس منظر میں بحر کے خاص افاعیل کے وجود سے پیداہوتی ہے ۔۔۔ ترصیع اور قوافی وغیرہ کا کردار لفظی سطح پر شعر کی خوبصورتی میں مزید ملمع کاری اورجمالیاتی کاریگری کا اعلی تر تاثر پیدا کرنے میں ظاہر ہوتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
مولوی حکیم محمد نجم الغنی نجمی رامپوری "بحر الفصاحت" میں صنعت ترصیع کے بیان میں یوں رقم طراز ہیں:

یہ صنعت اس طرح ہے کہ ایک مصرع موزوں کریں اور اس کے مقابل دوسرا مصرع اس طریق پر لاویں کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ دوسرے مصرع کے پہلے لفظ کا قافیہ اور پہلے مصرع کا دوسرا لفظ دوسرے مصرع کے دوسرے لفظ کا قافیہ ہو۔ اسی طرح پہلے مصرع کے اور الفاظ بھی ترتیب وار دوسرے مصرع کے الفاظ کے قافیے ہوں۔ مثلاً
وحیدِ یگانہ ریاضت میں تھے
جنیدِ زمانہ عبادت میں تھے
(تاریخ بدیع)
وحید کے مقابل دوسرے مصرع میں جنید ہے اور یگانہ کے مقابل زمانہ اور ریاضت کے مقابل عبادت

اُدھر سے جہاندار کشورستاں
اِدھر سے سپہدارما زندراں
(منشی)

ہمت نے مری تجھے اڑایا
غفلت نے تری مجھے چھڑایا
(نسیم)

عالم ہیں یہ علیم ہیں یہ با خبر ہیں یہ
حاکم ہیں یہ حکیم ہیں یہ دادگر ہیں یہ
راحم ہیں یہ رحیم ہیں یہ راہبر ہیں یہ
سالم ہیں یہ سلیم ہیں یہ با ہنر ہیں یہ
باصر ہیں یہ بصیر ہیں اہلِ وفا ہیں یہ
قادر ہیں یہ قدیر ہیں اہلِ سخا ہیں یہ
(یعقوب علی خان نصرت)​

اور اگر الفاظ میں رعایت تجنیس کی بھی ہو یعنی مصرع ثانی میں بعینہٖ وہی الفاظ ہوں جو پہلے مصرع میں ہوں مگر معنے جداگانہ ہوں تو اسے ترصیع مع التجنیس کہتے ہیں۔
مثال اس کی یہ غزل کرم خان متخلص بہ کرم ساکن رامپور کی:
نہ وہ پہونچا نہ کلائی ہے ہات
نہ وہ پہونچا نہ کل آئی ہیہات
برسے کیوں جائے ہے رَہ رَہ برسات
بر سے کیوں جائے ہے رَہ رَہ بر سات
بُول میٹھا تو سنا جائے نہ بات
بول میٹھا تو سنا جائے نبات
آپ بس جائیں نہ گھر ہوتا رات
آپ بس جائیں نہ گھر ہو تارات (تاراج)
کہ کرم سے وہ بس آوے دے ہات
کہ کرم سے وہ بساوے دیہات​
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مولوی حکیم محمد نجم الغنی نجمی رامپوری "بحر الفصاحت" میں صنعت ترصیع کے بیان میں یوں رقم طراز ہیں:

یہ صنعت اس طرح ہے کہ ایک مصرع موزوں کریں اور اس کے مقابل دوسرا مصرع اس طریق پر لاویں کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ دوسرے مصرع کے پہلے لفظ کا قافیہ اور پہلے مصرع کا دوسرا لفظ دوسرے مصرع کے دوسرے لفظ کا قافیہ ہو۔ اسی طرح پہلے مصرع کے اور الفاظ بھی ترتیب وار دوسرے مصرع کے الفاظ کے قافیے ہوں۔ مثلاً
وحیدِ یگانہ ریاضت میں تھے
جنیدِ زمانہ عبادت میں تھے
(تاریخ بدیع)
وحید کے مقابل دوسرے مصرع میں جنید ہے اور یگانہ کے مقابل زمانہ اور ریاضت کے مقابل عبادت

اُدھر ست جہاندار کشورستاں
اِدھر سے سپہدارما زندراں
(منشی)

ہمت نے مری تجھے اڑایا
غفلت نے تری مجھے چھڑایا
(نسیم)

عالم ہیں یہ علیم ہیں یہ با خبر ہیں یہ
حاکم ہیں یہ حکیم ہیں یہ دادگر ہیں یہ
راحم ہیں یہ رحیم ہیں یہ راہبر ہیں یہ
سالم ہیں یہ سلیم ہیں یہ با ہنر ہیں یہ
باصر ہیں یہ بصیر ہیں اہلِ وفا ہیں یہ
قادر ہیں یہ قدیر ہیں اہلِ سخا ہیں یہ
(یعقوب علی خان نصرت)​

اور اگر الفاظ میں رعایت تجنیس کی بھی ہو یعنی مصرع ثانی میں بعینہٖ وہی الفاظ ہوں جو پہلے مصرع میں ہوں مگر معنے جداگانہ ہوں تو اسے ترصیع مع التجنیس کہتے ہیں۔
مثال اس کی یہ غزل کرم خان متخلص بہ کرم ساکن رامپور کی:
نہ وہ پہونچا نہ کلائی ہے ہات
نہ وہ پہونچا نہ کل آئی ہیہات
برسے کیوں جائے ہے رَہ رَہ برسات
بر سے کیوں جائے ہے رَہ رَہ بر سات
بُول میٹھا تو سنا جائے نہ بات
بول میٹھا تو سنا جائے نبات
آپ بس جائیں نہ گھر ہوتا رات
آپ بس جائیں نہ گھر ہو تارات (تاراج)
کہ کرم سے وہ بس آوے دے ہات
کہ کرم سے وہ بساوے دیہات​

فاتح بھائی ، بحرالفصاحت کے اس اقتباس کو ٹائپ کرنے اور یہاں پوسٹ کرنے کے لئے بہت بہت شکریہ !! یقیناً بہت سارے لوگوں کے لئے مددگار ہوگا ۔ اور اس میں اچھی خاصی مثالیں بھی آگئی ہیں ۔
ویسے نجم الغنی صاحب کی اس تعریف (ہموزن و ہم قافیہ) کو اگر ترصیع کا معیار مان لیا جائے تو پھر اردو کے بہت ہی کم اشعار مرصع کہلائیں گے ۔ ا اس تعریف پر پورا اترنے والے مرصع اشعار مجھے تو زیادہ متاثر کن بھی نہیں لگتے بلکہ کچھ کچھ تک بندی سی لگتی ہے ۔ لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ صرف ہم وزن ہونے کی شرط اگر رکھی جائے تو یقینا بہت سارے اشعار مرصع کہے جاسکتے ہیں ۔ اور میں نے کئی اساتذہ اور اہلِ علم لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ وہ ایسے ہی اشعار کو مرصع کہتے تھے ۔
یقینا مرصع شعرحشو و زوائد سے پاک اور بندش مین چست ہوتا ہے ۔
فاتح بھائی ، اوپر منشی کے شعر میں ایک ٹائپو ہوگیا ہے ۔ اگر آپ کو وقت ملے تو بہتر ہے کہ اسے درست کردیں ورنہ کچھ نو آموز یہ مثال پڑھ کر کنفیوز ہوسکتے ہیں ۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی ، بحرالفصاحت کے اس اقتباس کو ٹائپ کرنے اور یہاں پوسٹ کرنے کے لئے بہت بہت شکریہ !! یقیناً بہت سارے لوگوں کے لئے مددگار ہوگا ۔ اور اس میں اچھی خاصی مثالیں بھی آگئی ہیں ۔
ویسے نجم الغنی صاحب کی اس تعریف (ہموزن و ہم قافیہ) کو اگر ترصیع کا معیار مان لیا جائے تو پھر اردو کے بہت ہی کم اشعار مرصع کہلائیں گے ۔ ا اس تعریف پر پورا اترنے والے مرصع اشعار مجھے تو زیادہ متاثر کن بھی نہیں لگتے بلکہ کچھ کچھ تک بندی سی لگتی ہے ۔ لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ صرف ہم وزن ہونے کی شرط اگر رکھی جائے تو یقینا بہت سارے اشعار مرصع کہے جاسکتے ہیں ۔ اور میں نے کئی اساتذہ اور اہلِ علم لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ وہ ایسے ہی اشعار کو مرصع کہتے تھے ۔
یقینا مرصع شعرحشو و زوائد سے پاک اور بندش مین چست ہوتا ہے ۔
فاتح بھائی ، اوپر منشی کے شعر میں ایک ٹائپو ہوگیا ہے ۔ اگر آپ کو وقت ملے تو بہتر ہے کہ اسے درست کردیں ورنہ کچھ نو آموز یہ مثال پڑھ کر کنفیوز ہوسکتے ہیں ۔
بجا فرمایا آپ نے۔۔۔ معدودے چند "مرصع" اشعار بچتے ہیں اس تعریف کے مطابق۔
ٹائپو کی نشان دہی کا شکریہ۔ درست کر دی۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فاتح بھائی نے مرصع کا لفظ واوین میں لکھا تو خیال آیا کہ اس لفظ کی وضاحت بھی اس لڑی میں کردی جائے تو بہتر ہے ۔ چونکہ یہاں صنعتِ ترصیع کے حوالے سے گفتگو ہورہی ہے تو مرصع اس شعر کو کہا جارہا کہ جس میں یہ صنعت استعمال ہوئی ہو ۔ شعری اصطلاح مین مرصع کا یہی مفہوم ہوگا ۔ لیکن اس کے علاوہ عام گفتگو اور شعر پر تنقید و تبصرہ کے ضمن میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’’واہ واہ کیا مرصع غزل ہے اور کیا مرصع اشعار ہیں‘‘ تو یہاں اس سے مراد خوش بیانی اور اشعار کی مجموعی خوبصورتی مراد ہوتی ہے ۔ اس بات کی وضاحت اس لئے کردی ہے کہ گفتگو مین کوئی ابہام نہ رہے ۔
 

شوکت پرویز

محفلین
مولوی حکیم محمد نجم الغنی نجمی رامپوری "بحر الفصاحت" میں صنعت ترصیع کے بیان میں یوں رقم طراز ہیں:

یہ صنعت اس طرح ہے کہ ایک مصرع موزوں کریں اور اس کے مقابل دوسرا مصرع اس طریق پر لاویں کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ دوسرے مصرع کے پہلے لفظ کا قافیہ اور پہلے مصرع کا دوسرا لفظ دوسرے مصرع کے دوسرے لفظ کا قافیہ ہو۔ اسی طرح پہلے مصرع کے اور الفاظ بھی ترتیب وار دوسرے مصرع کے الفاظ کے قافیے ہوں۔ مثلاً
وحیدِ یگانہ ریاضت میں تھے
جنیدِ زمانہ عبادت میں تھے
(تاریخ بدیع)
وحید کے مقابل دوسرے مصرع میں جنید ہے اور یگانہ کے مقابل زمانہ اور ریاضت کے مقابل عبادت​

فاتح بھائی!
یہاں وَحید اور جُنید ہم قافیہ ہیں؟

میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ یہ ‘بحر الفصاحت‘ سے اقتباس ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
بزمِ قولی میں بس اقرار ہوئے جاتے ہیں
رزمِ فعلی میں بس انکار ہوئے جاتے ہیں

کس صفائی سے گنہگار ہوئے جاتے ہیں
کس سفیدی سے سیہ کار ہوئے جاتے ہیں

میری ایک طویل غزل کے پہلے دو اشعار۔
 

فہد اشرف

محفلین
ترصیع: جب دونوں مصرعوں کے الفاظ بالترتیب ایک دوسرے کے ہموزن ہوں۔
مثال
اے شہنشاہِ فلک منظر بے مثل و نظیر
اے جہاندارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل
پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ اورنگ
فرق سے تیرے کرے کسب سعادت اکلیل
تیرا اندازِ سخن شانۂ زُلفِ الہام
تیری رفتارِ قلم جنبشِ بالِ جبریل۔

ترصیع مع التجنیس: جب الفاظ ہموزن میں رعایت تجنیس کی بھی ہو اس کو ترصیع مع التجنیس کہتے ہیں۔
مثال
نہ وہ پہونچا نہ کلائی ہے ہات
نہ وہ پہونچا نہ کل آئی ہیہات

(آئینۂ بلاغت از محمد عسکری)
 
Top