مولوی حکیم محمد نجم الغنی نجمی رامپوری "بحر الفصاحت" میں صنعت ترصیع کے بیان میں یوں رقم طراز ہیں:
یہ صنعت اس طرح ہے کہ ایک مصرع موزوں کریں اور اس کے مقابل دوسرا مصرع اس طریق پر لاویں کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ دوسرے مصرع کے پہلے لفظ کا قافیہ اور پہلے مصرع کا دوسرا لفظ دوسرے مصرع کے دوسرے لفظ کا قافیہ ہو۔ اسی طرح پہلے مصرع کے اور الفاظ بھی ترتیب وار دوسرے مصرع کے الفاظ کے قافیے ہوں۔ مثلاً
وحیدِ یگانہ ریاضت میں تھے
جنیدِ زمانہ عبادت میں تھے
(تاریخ بدیع)
وحید کے مقابل دوسرے مصرع میں جنید ہے اور یگانہ کے مقابل زمانہ اور ریاضت کے مقابل عبادت
اُدھر سے جہاندار کشورستاں
اِدھر سے سپہدارما زندراں
(منشی)
ہمت نے مری تجھے اڑایا
غفلت نے تری مجھے چھڑایا
(نسیم)
عالم ہیں یہ علیم ہیں یہ با خبر ہیں یہ
حاکم ہیں یہ حکیم ہیں یہ دادگر ہیں یہ
راحم ہیں یہ رحیم ہیں یہ راہبر ہیں یہ
سالم ہیں یہ سلیم ہیں یہ با ہنر ہیں یہ
باصر ہیں یہ بصیر ہیں اہلِ وفا ہیں یہ
قادر ہیں یہ قدیر ہیں اہلِ سخا ہیں یہ
(یعقوب علی خان نصرت)
اور اگر الفاظ میں رعایت تجنیس کی بھی ہو یعنی مصرع ثانی میں بعینہٖ وہی الفاظ ہوں جو پہلے مصرع میں ہوں مگر معنے جداگانہ ہوں تو اسے ترصیع مع التجنیس کہتے ہیں۔
مثال اس کی یہ غزل کرم خان متخلص بہ کرم ساکن رامپور کی:
نہ وہ پہونچا نہ کلائی ہے ہات
نہ وہ پہونچا نہ کل آئی ہیہات
برسے کیوں جائے ہے رَہ رَہ برسات
بر سے کیوں جائے ہے رَہ رَہ بر سات
بُول میٹھا تو سنا جائے نہ بات
بول میٹھا تو سنا جائے نبات
آپ بس جائیں نہ گھر ہوتا رات
آپ بس جائیں نہ گھر ہو تارات (تاراج)
کہ کرم سے وہ بس آوے دے ہات
کہ کرم سے وہ بساوے دیہات