شعر العجم: فارسی شاعری کی غیر معمولی تاریخ (تھوڑا پابند تھوڑا آزاد ترجمہ)

عبد الرحمن

لائبریرین
اگرچہ موازنہ انیس و دبیر کو شبلی نعمانی کا بہترین تنقیدی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، اس کے باوجود موازنہ کو کبھی کبھی شبلی کا انیس کی جانب واضح جھکاؤ ہونے کی وجہ سے جانب دار بھی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اس کے برعکس جس گہرائی اور باریک نظری سے شبلی نے شعر العجم میں فارسی شاعری کا جائزہ لیا ہے وہ ناقابلِ موازنہ ہے۔ اسی لیے یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ شعر العجم شبلی کا بہترین ادبی کارنامہ ہے۔ اردو میں لکھی گئی فارسی شاعری کی تاریخ، شعر العجم کی پانچ جلدیں ہیں۔ ابتدائی اشاعتوں کے مطابق شبلی نے شعر العجم پر ۱۳۲۴ھ بہ مطابق ۱۹۰۶ تا ۱۹۰۷ میں کام شروع کیا اور ۱۳۲۵ھ بہ مطابق ۱۹۰۷ تا ۱۹۰۸ میں یہ ہدف پورا کیا۔ پانچ جلدوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جس میں ۱۴۰۰ صفحات شامل ہوں، جہاں بہترین جسمانی اور ذہنی قوت درکار ہو، جو تاریخی حقائق پر مبنی ہو اور جو فارسی شاعری کا نمائندہ کلام منظر عام پر لانے کے لیے ادبی حوالوں اور اقتباسات سے مزین ہو، یہ خاصی متاثر کن رفتار تھی۔

پہلی جلد نے اپنی اشاعت میں کچھ وقت لیا۔ یہ پہلی بار ۱۹۰۸ میں شائع ہوئی۔ یہ جلد فارسی شاعری کے آغاز اور چند ابتدائی فارسی شاعروں کی تفصیل سے ہمیں آگہی دیتی ہے، مثلا رودکی، فردوسی، حکیم صناعی، عمر خیام، اور نظامی گنجوی۔ شعر العجم کی دوسری جلد ۱۹۰۹ میں شائع ہوئی، جو متوسط دور کے چند شاعروں کا تجزیہ کرتی ہے، مثلا نیشاپور کا عطار، سعدی شیرازی اور حافظ شیرازی۔ بعد کے فارسی شعرا جیسے عرفی، طالب آملی، کلیم اور صائب کو تیسری جلد میں زیر بحث لایا گیا ہے جو ۱۹۱۰ میں منظر عام پر آئی تھی۔ ۱۹۱۲ میں شائع ہونے والی چوتھی جلد میں مزید شعرا پر گفتگو نہیں کی گئی لیکن تنقیدی اصطلاحات کو اجاگر کیا گیا جیسے شاعری کیا ہے، شاعری ایران میں کیوں کر شروع ہوئی اور کون کون سی خصوصیات شاعری میں ہونی چاہیے۔ پانچواں اور آخری حصہ جو ۱۹۱۸ میں شبلی کی وفات کے چار سال بعد جلوہ افروز ہوا، فارسی شاعری کی چند اصناف پر مشتمل ہے۔ مزید برآں، قصیدہ نگاری، غزل گوئی، صوفی و اخلاقی شاعری اور فارسی شاعری کے فلسفیانہ پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

شبلی کو چند شعرا کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا جن کا جدید فارسی شاعری پر نمایاں اثر رہا تھا جیسے کہ جامی۔ شعر العجم پر سب سے زیادہ سخت تنقید حافظ محمود شیرانی کی جانب سے کی گئی، جو اردو کے ایک بہت ہی معزز عالم تھے۔ شیرانی لکھتے ہیں شبلی تاریخی حقائق کو قبول کرنے میں غیر محتاط تھے اور شعر العجم میں بہت سے واقعات کمزور ثبوتوں کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ شعر العجم کے تنقیدی جائزے پر مشتمل شیرانی کا مقالہ ۱۹۲۲ سے ۱۹۲۷ کے درمیان سہ ماہی اردو ناشر مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو میں منظر پذیر ہوا اور بقول چند محققین، یہ مولوی عبد الحق ہی تھے جنہوں نے ذاتی وجوہات کے باعث شیرانی کو شبلی کی مخالفت میں لکھنے پر آمادہ کیا۔ چناں چہ "شبلی شکنی" کی ایک پوری صنف وجود میں آ گئی جہاں شبلی کو ان کے بعض حقیقی اور بیشتر متصور آرا کی بنا پر زد و کوب کیا جاتا رہا۔ شبلی عداوت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لیکن شبلی آج بھی زندہ ہیں۔

شبلی کی حمایت میں، آفتاب احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں، جو صحیفہ شبلی نمبر ۲۰۱۴ میں مکرر شائع ہوا تھا، لکھا ہے کہ شبلی نے بہت سے فارسی تذکروں اور فارسی شعرا کی تصانیف پر انحصار کیا ہے۔ ان فارسی تذکروں کے مصنفین کے درمیان تاریخ اور واقعات کے باب میں اختلاف تھا اور شبلی نے انہی کا حوالہ دیا ہے اور یوں شیرانی کی تنقید کا ہدف وہ تذکرہ نگار ہیں نہ کہ شبلی۔ دوسرا یہ کہ فارسی شعرا کے فن و سوانح پر مشتمل بیشتر علمی تحقیق شعر العجم کی اشاعت کے بعد اصلاح کے مراحل سے گزر کر شائع ہوئیں۔ جہاں تک بعض فارسی شاعروں کے متعلق شبلی کی رائے ہے وہ ذاتی پسند نا پسند اور انتہائی موضوعی مسئلہ ہے۔

یہ امر واقعہ ہے کہ شبلی نے اردو میں فارسی شاعری کی تاریخ پر جو کچھ لکھ دیا ہے اردو کا کوئی ادیب اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ شیرانی نے شعر العجم پر اپنے تنقیدی مضامین کا سلسلہ اچانک بند کر دیا اور نا معلوم وجوہات کی بنا پر اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ بڑی تعداد میں علما اور نقاد مانتے ہیں کہ شعر العجم ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور شبلی کو اس معاملے میں کوئی دوسرا عالم چھو بھی نہیں سکتا، کہ فارسی شاعری پر شبلی کا مطالعہ اور اس سے ان کی محبت اور اس پر ان کی مہارت انتہائی متاثر کن ہے۔ خصوصاً ان کا فارسی شعری انتخاب کتاب کو آج بھی شاعری کے دلدادوں میں مقبول رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ ایڈورڈ براؤن کی فارسی ادب کی تاریخ بھی اس موضوع پر ایک سحر انگیز کتاب مانی جاتی ہے۔ وہ فارسی کے ایک عظیم عالم تھے۔ لیکن شبلی نعمانی کی شعر العجم براؤن کی کتاب سے مختلف ہے۔ براؤن نے سیاسی واقعات اور فارسی شاعری پر ان کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ لیکن انہوں نے فارسی شاعری کے ادبی پہلوؤں پر براہ راست اظہار خیال سے گریز کیا ہے اور ضرورت پڑنے پر بہت کم ایرانی علما کے اقتباسات پیش کر دیے ہیں۔ لیکن شبلی، جو خود بھی فارسی کے شاعر اور فارسی شاعری کے گرویدہ تھے، شعر العجم میں فارسی شعرا پر اظہارِ خیال سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔

انگریزی مضمون: ڈاکٹر رؤف پاریکھ
اردو قالب: عبد الرحمٰن
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اگرچہ موازنہ انیس و دبیر کو شبلی نعمانی کا بہترین تنقیدی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، اس کے باوجود موازنہ کو کبھی کبھی شبلی کا انیس کی جانب واضح جھکاؤ ہونے کی وجہ سے جانب دار بھی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اس کے برعکس جس گہرائی اور باریک نظری سے شبلی نے شعر العجم میں فارسی شاعری کا جائزہ لیا ہے وہ ناقابلِ موازنہ ہے۔ اسی لیے یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ شعر العجم شبلی کا بہترین ادبی کارنامہ ہے۔ اردو میں لکھی گئی فارسی شاعری کی تاریخ، شعر العجم کی پانچ جلدیں ہیں۔ ابتدائی اشاعتوں کے مطابق شبلی نے شعر العجم پر ۱۳۲۴ھ بہ مطابق ۱۹۰۶ تا ۱۹۰۷ میں کام شروع کیا اور ۱۳۲۵ھ بہ مطابق ۱۹۰۷ تا ۱۹۰۸ میں یہ ہدف پورا کیا۔ پانچ جلدوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جس میں ۱۴۰۰ صفحات شامل ہوں، جہاں بہترین جسمانی اور ذہنی قوت درکار ہو، جو تاریخی حقائق پر مبنی ہو اور جو فارسی شاعری کا نمائندہ کلام منظر عام پر لانے کے لیے ادبی حوالوں اور اقتباسات سے مزین ہو، یہ خاصی متاثر کن رفتار تھی۔

پہلی جلد نے اپنی اشاعت میں کچھ وقت لیا۔ یہ پہلی بار ۱۹۰۸ میں شائع ہوئی۔ یہ جلد فارسی شاعری کے آغاز اور چند ابتدائی فارسی شاعروں کی تفصیل سے ہمیں آگہی دیتی ہے، مثلا رودکی، فردوسی، حکیم صناعی، عمر خیام، اور نظامی گنجوی۔ شعر العجم کی دوسری جلد ۱۹۰۹ میں شائع ہوئی، جو متوسط دور کے چند شاعروں کا تجزیہ کرتی ہے، مثلا نیشاپور کا عطار، سعدی شیرازی اور حافظ شیرازی۔ بعد کے فارسی شعرا جیسے عرفی، طالب آملی، کلیم اور صائب کو تیسری جلد میں زیر بحث لایا گیا ہے جو ۱۹۱۰ میں منظر عام پر آئی تھی۔ ۱۹۱۲ میں شائع ہونے والی چوتھی جلد میں مزید شعرا پر گفتگو نہیں کی گئی لیکن تنقیدی اصطلاحات کو اجاگر کیا گیا جیسے شاعری کیا ہے، شاعری ایران میں کیوں کر شروع ہوئی اور کون کون سی خصوصیات شاعری میں ہونی چاہیے۔ پانچواں اور آخری حصہ جو ۱۹۱۸ میں شبلی کی وفات کے چار سال بعد جلوہ افروز ہوا، فارسی شاعری کی چند اصناف پر مشتمل ہے۔ مزید برآں، قصیدہ نگاری، غزل گوئی، صوفی و اخلاقی شاعری اور فارسی شاعری کے فلسفیانہ پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

شبلی کو چند شعرا کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا جن کا جدید فارسی شاعری پر نمایاں اثر رہا تھا جیسے کہ جامی۔ شعر العجم پر سب سے زیادہ سخت تنقید حافظ محمود شیرانی کی جانب سے کی گئی، جو اردو کے ایک بہت ہی معزز عالم تھے۔ شیرانی لکھتے ہیں شبلی تاریخی حقائق کو قبول کرنے میں غیر محتاط تھے اور شعر العجم میں بہت سے واقعات کمزور ثبوتوں کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ شعر العجم کے تنقیدی جائزے پر مشتمل شیرانی کا مقالہ ۱۹۲۲ سے ۱۹۲۷ کے درمیان سہ ماہی اردو ناشر مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو میں منظر پذیر ہوا اور بقول چند محققین، یہ مولوی عبد الحق ہی تھے جنہوں نے ذاتی وجوہات کے باعث شیرانی کو شبلی کی مخالفت میں لکھنے پر آمادہ کیا۔ چناں چہ "شبلی شکنی" کی ایک پوری صنف وجود میں آ گئی جہاں شبلی کو ان کے بعض حقیقی اور بیشتر متصور آرا کی بنا پر زد و کوب کیا جاتا رہا۔ شبلی عداوت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لیکن شبلی آج بھی زندہ ہیں۔

شبلی کی حمایت میں، آفتاب احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں، جو صحیفہ شبلی نمبر ۲۰۱۴ میں مکرر شائع ہوا تھا، لکھا ہے کہ شبلی نے بہت سے فارسی تذکروں اور فارسی شعرا کی تصانیف پر انحصار کیا ہے۔ ان فارسی تذکروں کے مصنفین کے درمیان تاریخ اور واقعات کے باب میں اختلاف تھا اور شبلی نے انہی کا حوالہ دیا ہے اور یوں شیرانی کی تنقید کا ہدف وہ تذکرہ نگار ہیں نہ کہ شبلی۔ دوسرا یہ کہ فارسی شعرا کے فن و سوانح پر مشتمل بیشتر علمی تحقیق شعر العجم کی اشاعت کے بعد اصلاح کے مراحل سے گزر کر شائع ہوئیں۔ جہاں تک بعض فارسی شاعروں کے متعلق شبلی کی رائے ہے وہ ذاتی پسند نا پسند اور انتہائی موضوعی مسئلہ ہے۔

یہ امر واقعہ ہے کہ شبلی نے اردو میں فارسی شاعری کی تاریخ پر جو کچھ لکھ دیا ہے اردو کا کوئی ادیب اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ شیرانی نے شعر العجم پر اپنے تنقیدی مضامین کا سلسلہ اچانک بند کر دیا اور نا معلوم وجوہات کی بنا پر اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ بڑی تعداد میں علما اور نقاد مانتے ہیں کہ شعر العجم ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور شبلی کو اس معاملے میں کوئی دوسرا عالم چھو بھی نہیں سکتا، کہ فارسی شاعری پر شبلی کا مطالعہ اور اس سے ان کی محبت اور اس پر ان کی مہارت انتہائی متاثر کن ہے۔ خصوصاً ان کا فارسی شعری انتخاب کتاب کو آج بھی شاعری کے دلدادوں میں مقبول رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ ایڈورڈ براؤن کی فارسی ادب کی تاریخ بھی اس موضوع پر ایک سحر انگیز کتاب مانی جاتی ہے۔ وہ فارسی کے ایک عظیم عالم تھے۔ لیکن شبلی نعمانی کی شعر العجم براؤن کی کتاب سے مختلف ہے۔ براؤن نے سیاسی واقعات اور فارسی شاعری پر ان کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ لیکن انہوں نے فارسی شاعری کے ادبی پہلوؤں پر براہ راست اظہار خیال سے گریز کیا ہے اور ضرورت پڑنے پر بہت کم ایرانی علما کے اقتباسات پیش کر دیے ہیں۔ لیکن شبلی، جو خود بھی فارسی کے شاعر اور فارسی شاعری کے گرویدہ تھے، شعر العجم میں فارسی شعرا پر اظہارِ خیال سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔

انگریزی مضمون: ڈاکٹر رؤف پاریکھ
اردو قالب: عبد الرحمٰن
کیا اصل مضمون آنلائن موجود نہیں؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اگرچہ موازنہ انیس و دبیر کو شبلی نعمانی کا بہترین تنقیدی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، اس کے باوجود موازنہ کو کبھی کبھی شبلی کا انیس کی جانب واضح جھکاؤ ہونے کی وجہ سے جانب دار بھی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اس کے برعکس جس گہرائی اور باریک نظری سے شبلی نے شعر العجم میں فارسی شاعری کا جائزہ لیا ہے وہ ناقابلِ موازنہ ہے۔ اسی لیے یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ شعر العجم شبلی کا بہترین ادبی کارنامہ ہے۔ اردو میں لکھی گئی فارسی شاعری کی تاریخ، شعر العجم کی پانچ جلدیں ہیں۔ ابتدائی اشاعتوں کے مطابق شبلی نے شعر العجم پر ۱۳۲۴ھ بہ مطابق ۱۹۰۶ تا ۱۹۰۷ میں کام شروع کیا اور ۱۳۲۵ھ بہ مطابق ۱۹۰۷ تا ۱۹۰۸ میں یہ ہدف پورا کیا۔ پانچ جلدوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جس میں ۱۴۰۰ صفحات شامل ہوں، جہاں بہترین جسمانی اور ذہنی قوت درکار ہو، جو تاریخی حقائق پر مبنی ہو اور جو فارسی شاعری کا نمائندہ کلام منظر عام پر لانے کے لیے ادبی حوالوں اور اقتباسات سے مزین ہو، یہ خاصی متاثر کن رفتار تھی۔

پہلی جلد نے اپنی اشاعت میں کچھ وقت لیا۔ یہ پہلی بار ۱۹۰۸ میں شائع ہوئی۔ یہ جلد فارسی شاعری کے آغاز اور چند ابتدائی فارسی شاعروں کی تفصیل سے ہمیں آگہی دیتی ہے، مثلا رودکی، فردوسی، حکیم صناعی، عمر خیام، اور نظامی گنجوی۔ شعر العجم کی دوسری جلد ۱۹۰۹ میں شائع ہوئی، جو متوسط دور کے چند شاعروں کا تجزیہ کرتی ہے، مثلا نیشاپور کا عطار، سعدی شیرازی اور حافظ شیرازی۔ بعد کے فارسی شعرا جیسے عرفی، طالب آملی، کلیم اور صائب کو تیسری جلد میں زیر بحث لایا گیا ہے جو ۱۹۱۰ میں منظر عام پر آئی تھی۔ ۱۹۱۲ میں شائع ہونے والی چوتھی جلد میں مزید شعرا پر گفتگو نہیں کی گئی لیکن تنقیدی اصطلاحات کو اجاگر کیا گیا جیسے شاعری کیا ہے، شاعری ایران میں کیوں کر شروع ہوئی اور کون کون سی خصوصیات شاعری میں ہونی چاہیے۔ پانچواں اور آخری حصہ جو ۱۹۱۸ میں شبلی کی وفات کے چار سال بعد جلوہ افروز ہوا، فارسی شاعری کی چند اصناف پر مشتمل ہے۔ مزید برآں، قصیدہ نگاری، غزل گوئی، صوفی و اخلاقی شاعری اور فارسی شاعری کے فلسفیانہ پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

شبلی کو چند شعرا کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا جن کا جدید فارسی شاعری پر نمایاں اثر رہا تھا جیسے کہ جامی۔ شعر العجم پر سب سے زیادہ سخت تنقید حافظ محمود شیرانی کی جانب سے کی گئی، جو اردو کے ایک بہت ہی معزز عالم تھے۔ شیرانی لکھتے ہیں شبلی تاریخی حقائق کو قبول کرنے میں غیر محتاط تھے اور شعر العجم میں بہت سے واقعات کمزور ثبوتوں کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ شعر العجم کے تنقیدی جائزے پر مشتمل شیرانی کا مقالہ ۱۹۲۲ سے ۱۹۲۷ کے درمیان سہ ماہی اردو ناشر مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو میں منظر پذیر ہوا اور بقول چند محققین، یہ مولوی عبد الحق ہی تھے جنہوں نے ذاتی وجوہات کے باعث شیرانی کو شبلی کی مخالفت میں لکھنے پر آمادہ کیا۔ چناں چہ "شبلی شکنی" کی ایک پوری صنف وجود میں آ گئی جہاں شبلی کو ان کے بعض حقیقی اور بیشتر متصور آرا کی بنا پر زد و کوب کیا جاتا رہا۔ شبلی عداوت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لیکن شبلی آج بھی زندہ ہیں۔

شبلی کی حمایت میں، آفتاب احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں، جو صحیفہ شبلی نمبر ۲۰۱۴ میں مکرر شائع ہوا تھا، لکھا ہے کہ شبلی نے بہت سے فارسی تذکروں اور فارسی شعرا کی تصانیف پر انحصار کیا ہے۔ ان فارسی تذکروں کے مصنفین کے درمیان تاریخ اور واقعات کے باب میں اختلاف تھا اور شبلی نے انہی کا حوالہ دیا ہے اور یوں شیرانی کی تنقید کا ہدف وہ تذکرہ نگار ہیں نہ کہ شبلی۔ دوسرا یہ کہ فارسی شعرا کے فن و سوانح پر مشتمل بیشتر علمی تحقیق شعر العجم کی اشاعت کے بعد اصلاح کے مراحل سے گزر کر شائع ہوئیں۔ جہاں تک بعض فارسی شاعروں کے متعلق شبلی کی رائے ہے وہ ذاتی پسند نا پسند اور انتہائی موضوعی مسئلہ ہے۔

یہ امر واقعہ ہے کہ شبلی نے اردو میں فارسی شاعری کی تاریخ پر جو کچھ لکھ دیا ہے اردو کا کوئی ادیب اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ شیرانی نے شعر العجم پر اپنے تنقیدی مضامین کا سلسلہ اچانک بند کر دیا اور نا معلوم وجوہات کی بنا پر اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ بڑی تعداد میں علما اور نقاد مانتے ہیں کہ شعر العجم ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور شبلی کو اس معاملے میں کوئی دوسرا عالم چھو بھی نہیں سکتا، کہ فارسی شاعری پر شبلی کا مطالعہ اور اس سے ان کی محبت اور اس پر ان کی مہارت انتہائی متاثر کن ہے۔ خصوصاً ان کا فارسی شعری انتخاب کتاب کو آج بھی شاعری کے دلدادوں میں مقبول رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ ایڈورڈ براؤن کی فارسی ادب کی تاریخ بھی اس موضوع پر ایک سحر انگیز کتاب مانی جاتی ہے۔ وہ فارسی کے ایک عظیم عالم تھے۔ لیکن شبلی نعمانی کی شعر العجم براؤن کی کتاب سے مختلف ہے۔ براؤن نے سیاسی واقعات اور فارسی شاعری پر ان کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ لیکن انہوں نے فارسی شاعری کے ادبی پہلوؤں پر براہ راست اظہار خیال سے گریز کیا ہے اور ضرورت پڑنے پر بہت کم ایرانی علما کے اقتباسات پیش کر دیے ہیں۔ لیکن شبلی، جو خود بھی فارسی کے شاعر اور فارسی شاعری کے گرویدہ تھے، شعر العجم میں فارسی شعرا پر اظہارِ خیال سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔

انگریزی مضمون: ڈاکٹر رؤف پاریکھ
اردو قالب: عبد الرحمٰن

بہت ہی عمدہ عبدالرحمٰن بھائی!

بہت ہی عمدہ لکھا۔ کسی قدر خشک مضمون کا ترجمہ آپ نے بڑے رسان سے اور چابک دستی سے کیا ہے۔ انگریزی تحریر تو نہیں پڑھی لیکن لگتا یہی ہے کہ آپ نے ترجمہ کا حق ادا کر دیا ہے۔

ماشاء اللہ! ایسے ہی لکھتے رہیے اور محفل پر سجاتے رہیے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس بات پر الگ سے شکریہ قبول کریں کہ سال گزرنے سے پہلے ہی آپ نے محفل پر دوسری تحریر لگا دی۔ :) :) :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شعر العجم واقعی علامہ شبلی نعمانی کا شاہکار ہے۔ ایک بات یہ بھی کہ اس اردو کتاب کا ترجمہ ایرانیوں نے فارسی میں کیا ہے جو وہاں کافی مقبول ہے!
 
Top