شعر براے اصلاح

الف عین

لائبریرین
افاعیل؟
اج کل ہونے سے تو فاعلاتن مفاعلن فعلن ہو سکتا ہے۔ لیکن آج کل نہیں۔
 
کیا غیر مستعمل اوزان میں شعر نہیں کہے جاسکتے؟
اگر وہ اوزان بحورِ نوزدگانہ پر مناسب زحافات کے استعمال سے حاصل کیے جائیں تو کہے جا سکتے ہیں۔
بہرحال غیر مستعمل اوزان میں اشعار کہنا مستحسن نہیں۔
 
میں نہیں سمجھپایا ۔عروض کی بنیاد ہی ترنم پر ہے۔ پھر ان ساری بحروں کا کیا کیا جائے جو اردو میں مستعمل ہی نہیں۔پھر علم عروض کو بھی مفصل کیوں سکھا جائے۔بس چند مستعمل اوزان ازبر کر لیے جائیں۔
 
میں نہیں سمجھپایا ۔عروض کی بنیاد ہی ترنم پر ہے۔ پھر ان ساری بحروں کا کیا کیا جائے جو اردو میں مستعمل ہی نہیں۔پھر علم عروض کو بھی مفصل کیوں سکھا جائے۔بس چند مستعمل اوزان ازبر کر لیے جائیں۔
چند مستعمل اوزان ازبر کرنے سے بھی کام نہایت خوبی سے چل سکتا ہے.
 

فاتح

لائبریرین
نئی بحریں ایجاد بھی کی جا سکتی ہیں اور غیر مستعمل بحور میں اشعار کہے بھی جا سکتے ہیں اور یہ بہت "استادانہ" کام ہے لیکن اس "استادی" کے بعد شعر "اصلاحِ سخن" میں ارسال کرنے کی تک سمجھ میں نہیں آئی۔
ایک تو نئی بحور میں ترنم کی کمی ہوتی ہے اور آسانی سے پڑھے نہیں جاتے۔ دوسرا یہ کہ کسی مروجہ بحر کے آگے پیچھے ارکان بڑھاتے گھٹاتے جانے سے ہی اگر نئی بحور ایجاد ہوتیں تو بحور "لا تعداد" اور یہ سلسلہ "لا متناہی" ہو جاتا۔
آپ پہلے عروض کی مبادیات سیکھ لیں، اس کے بعد استاد بھی بن جائیں اور تجربات بھی کر لیں۔ :)
 
مثال کے طور پر عروض پر اصلاح کے لیے شعر ڈالتے ہیں وہاں بحر آتی ہے جو وزن میں ہوتی نہ اس کے ساتھ یہ لکھا ہوتا ہے کہ غیر مستعمل بس وزن برابر ہوتا ہے اور کلام کسی نے نہیں کہا ہوتا اس بحر میں اس کا کیا کرنا چاہیے
 

محمد وارث

لائبریرین
مثال کے طور پر عروض پر اصلاح کے لیے شعر ڈالتے ہیں وہاں بحر آتی ہے جو وزن میں ہوتی نہ اس کے ساتھ یہ لکھا ہوتا ہے کہ غیر مستعمل بس وزن برابر ہوتا ہے اور کلام کسی نے نہیں کہا ہوتا اس بحر میں اس کا کیا کرنا چاہیے
زیادہ سے زیادہ مطالعہ!
مثال کے طور پر، عروض انجن پر آپ جب اپنا کلام ڈال کر تقطیع دیکھ سکتے ہیں تو کسی استاد کا کلام ڈال کر بھی دیکھیے۔ مثال کے طور پر فیض کا ایک شعر پکڑیے، آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے، اس کو وہاں ڈالیے، اس کی بحر اور افاعیل دیکھیے۔غزل کے سارے اشعار کی تقطیع کر کے دیکھیے، اور ان معلومات کو سمجھ کر، جذب کر کے، چاہےجتنا وقت لگے، نکل کھڑے ہوں اپنی تلاش پر۔ اس بحر کی غزلیات اساتدہ کے کلام سے خود ڈھونڈیں، آپ کو ناصر کاظمی کی غزل ملے گی، دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی، اگلے ہی صفحے پر نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں۔آپ کو جون ایلیا کی غزل ملے گی، عمر گزرے گی امتحان میں کیا،آپ کو فراز کی غزل ملے گی، زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے۔ آپ جس اچھے شاعر کا دیوان کھولیں گے یہ بحر آپ کو اپنی طرف متوجہ کر لے گی، آپ کا دل لبھائے گی۔ اگر آپ نے دیوان غالب میں، درد ہو دل میں تو دوا کیجے، درد منت کش دوا نہ ہوا، ابن مریم ہوا کرے کوئی، دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے اور ایسی ہی کئی شاہکار غزلیں پہچان لیں تو آپ اس بحر کے حافظ ہو جائیں گے۔میر کے ضخیم دواوین میں بے شمار ، سو سے زائد غزلیں تو پہلے ہی دیوان میں سے مل جائیں گی۔

ایک بحر ختم دوسری چالو، دوسری ختم تو تیسری چوتھی پانچویں اکھٹی چالو، یہی کوئی آٹھ دس بارہ چودہ بحریں ہی زیادہ ملیں گے، اللہ اللہ کام ختم! ساتھ میں آپ کو یہ بھی پتا لگ جائے گا کہ مستعمل کونسی ہے اور کونسی نہیں، بلکہ لگ پتا جائے گا۔ :)

یہ بظاہر مشکل کام نظر آتا ہے لیکن شاعری کے بنیادی علم اور ورکنگ نالج حاصل کرنے کے شوق کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ واللہ!
 

فاخر رضا

محفلین
زیادہ سے زیادہ مطالعہ!
مثال کے طور پر، عروض انجن پر آپ جب اپنا کلام ڈال کر تقطیع دیکھ سکتے ہیں تو کسی استاد کا کلام ڈال کر بھی دیکھیے۔ مثال کے طور پر فیض کا ایک شعر پکڑیے، آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے، اس کو وہاں ڈالیے، اس کی بحر اور افاعیل دیکھیے۔غزل کے سارے اشعار کی تقطیع کر کے دیکھیے، اور ان معلومات کو سمجھ کر، جذب کر کے، چاہےجتنا وقت لگے، نکل کھڑے ہوں اپنی تلاش پر۔ اس بحر کی غزلیات اساتدہ کے کلام سے خود ڈھونڈیں، آپ کو ناصر کاظمی کی غزل ملے گی، دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی، اگلے ہی صفحے پر نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں۔آپ کو جون ایلیا کی غزل ملے گی، عمر گزرے گی امتحان میں کیا،آپ کو فراز کی غزل ملے گی، زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے۔ آپ جس اچھے شاعر کا دیوان کھولیں گے یہ بحر آپ کو اپنی طرف متوجہ کر لے گی، آپ کا دل لبھائے گی۔ اگر آپ نے دیوان غالب میں، درد ہو دل میں تو دوا کیجے، درد منت کش دوا نہ ہوا، ابن مریم ہوا کرے کوئی، دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے اور ایسی ہی کئی شاہکار غزلیں پہچان لیں تو آپ اس بحر کے حافظ ہو جائیں گے۔میر کے ضخیم دواوین میں بے شمار ، سو سے زائد غزلیں تو پہلے ہی دیوان میں سے مل جائیں گی۔

ایک بحر ختم دوسری چالو، دوسری ختم تو تیسری چوتھی پانچویں اکھٹی چالو، یہی کوئی آٹھ دس بارہ چودہ بحریں ہی زیادہ ملیں گے، اللہ اللہ کام ختم! ساتھ میں آپ کو یہ بھی پتا لگ جائے گا کہ مستعمل کونسی ہے اور کونسی نہیں، بلکہ لگ پتا جائے گا۔ :)

یہ بظاہر مشکل کام نظر آتا ہے لیکن شاعری کے بنیادی علم اور ورکنگ نالج حاصل کرنے کے شوق کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ واللہ!
بھائی آپ یہ سیٹھ کی نوکری چھوڑیں اور اردو ادب پر کتابیں لکھیں. قسم سے جس طرح آپ اردو مسائل پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے ہیں آپ کو مکمل توجہ کے ساتھ اس لائن کو اختیار کرنا چاہیے.
 
یہ بظاہر مشکل کام نظر آتا ہے لیکن شاعری کے بنیادی علم اور ورکنگ نالج حاصل کرنے کے شوق کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ واللہ!
آہ کیا خوب کہا وارث بھائی۔ ہم بھی اسی گلی سے گذر رہے ہیں۔ مگر رفتار کچھوے سے بھی کچھ کم!
 

محمد وارث

لائبریرین
بھائی آپ یہ سیٹھ کی نوکری چھوڑیں اور اردو ادب پر کتابیں لکھیں. قسم سے جس طرح آپ اردو مسائل پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے ہیں آپ کو مکمل توجہ کے ساتھ اس لائن کو اختیار کرنا چاہیے.
اجی کہاں ڈاکٹر صاحب۔ یہاں مزاج و شوق و ذوق اور پیشے میں عام طور ویسا ہی فرق ہوتا ہے جیسا کسی بچھڑی ہوئی اولین محبوبہ اور سر منڈھی ہوئی بیوی میں ہوتا ہے۔ معدودے چند خوش قسمت ہوتے ہونگے جن کو اس مثال میں موجود دونوں باتوں میں وصل نصیب ہوتا ہے، میں کم از کم ان میں سے نہیں ہوں! :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جو بحور عام اور مستعمل ہوئیں ان میں موزوں ترین اور اعلی ترین اذہان کے ذوق کے طویل تجربات کا اثرایک قوی عامل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ صدیوں کے تجربات میں یہ بحور اردو زبان میں مقبول ترین مقام پر فائز ہو پائیں اور یہ اس کے اشعار ،لہجات ،مضامین اور روایتی معنوی ساخت سے بھی خوب موافقت رکھتی ہیں ۔ ان میں مقبول بحور میں سے بھی چند بحور ایسی ہیں جن میں بہت سے شعرا ء طبع آزمائی ہی نہیں ۔رباعی کے اوزان (میں سے چندخاص اوزان ) اس کی مثال ہیں ۔
یہ میری رائے ہے ۔
 
Top