مزمل شیخ بسمل
محفلین
ہم کافروں کے کافر, کافر خدا ہمارا.
اس کا جوڑی دار مصرع بتائیں اور ساتھ ہی شاعر کا نام بھی
فاتح
محمد بلال اعظم
محمد وارث
اس کا جوڑی دار مصرع بتائیں اور ساتھ ہی شاعر کا نام بھی
فاتح
محمد بلال اعظم
محمد وارث
ہم توحید پرست ہیں سارا جہاں ہمارا
ہم کافروں کے کافر, کافر خدا ہمارا
توبہ توبہ استغفراللہ
کسی مستند شاعر کا نہیں ہے، افواہ گردش میں ہے کہ اقبال کا ہے۔
بانگِ درا میں دو نظمیں ایسی ہیں ، جن پر گمان کزرتا ہے کہ ان میں سے کسی کا شعر ہے پر نہیں ہے۔
ترانہء ہنديسارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہماراہم بلبليں ہيں اس کي، يہ گلستاں ہماراغربت ميں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن ميںسمجھو وہيں ہميں بھي، دل ہو جہاں ہماراپربت وہ سب سے اونچا، ہمسايہ آسماں کاوہ سنتري ہمارا، وہ پاسباں ہماراگودي ميں کھيلتي ہيں اس کي ہزاروں ندياںگلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارااے آب رود گنگا، وہ دن ہيں ياد تجھ کو؟اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارامذہب نہيں سکھاتا آپس ميں بير رکھناہندي ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارايونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سےاب تک مگر ہے باقي نام و نشاں ہماراکچھ بات ہے کہ ہستي مٹتي نہيں ہماريصديوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارااقبال! کوئي محرم اپنا نہيں جہاں ميںمعلوم کيا کسي کو درد نہاں ہماراترانہ مليچين و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارامسلم ہيں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہماراتوحيد کي امانت سينوں ميں ہے ہمارےآساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارادنيا کے بت کدوں ميں پہلا وہ گھر خدا کاہم اس کے پاسباں ہيں، وہ پاسباں ہماراتيغوں کے سائے ميں ہم پل کر جواں ہوئے ہيںخنجر ہلال کا ہے قومي نشاں ہمارامغرب کي واديوں ميں گونجي اذاں ہماريتھمتا نہ تھا کسي سے سيل رواں ہماراباطل سے دنبے والے اے آسماں نہيں ہمسو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارااے گلستان اندلس! وہ دن ہيں ياد تجھ کوتھا تيري ڈاليوں پر جب آشياں ہمارااے موج دجلہ! تو بھي پہچانتي ہے ہم کواب تک ہے تيرا دريا افسانہ خواں ہمارااے ارض پاک! تيري حرمت پہ کٹ مرے ہمہے خوں تري رگوں ميں اب تک رواں ہماراسالار کارواں ہے مير حجاز اپنااس نام سے ہے باقي آرام جاں ہمارااقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گوياہوتا ہے جادہ پيما پھر کارواں ہمارا
ہم کافروں کے کافر, کافر خدا ہمارا.
اس کا جوڑی دار مصرع بتائیں اور ساتھ ہی شاعر کا نام بھی
فاتح
محمد بلال اعظم
محمد وارث
بہت شکریہ تمام حضرات کا.
میں صبح سے آٹھ الگ الگ مصاریع جمع کر چکا ہوں جو مجھے اس کی جوڑی کے طور پر ملے. لوگوں کا بہت مضبوط یقین ہے کہ یہ اقبال کا کلام ہے. باقاعدہ مثالیں دی جاتی ہیں اس مصرعے کو لیکر
تف ہے.
بری بات۔ ایسے نہیں بولتے۔ جس کا جو رزق ہوتا ہے، وہی تو اسے ملتا ہےاگر کلیاتِ اقبال میں نہیں ہے تو پھر آٹھ تو کیا ہزاروں مثالیں بھی ہو تو بے معنی۔
لوگوں کی عقل کیا گھاس چرنے گئی ہے، حد ہوتی ہے کسی بات کی۔
100٪ متفقیہ کسی نے ایسے ہی پیروڈی بنائی ہے۔۔۔ گمان غالب ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی(جنہیں پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے) کے کسی فرد نے طنز فرمایا ہے
yahi to Iqbal ka style tha keh koi bhi samajta he na tha asani se aor ulama karam us per ............ہم نے رب کے ہر نا فرمان کا کفر کیا۔ ہر کافر اور اس کے پیروکار کے کافر ہیں۔ شیطان کے کافر اور رب کے بندے ہیں۔۔۔ ۔۔
میرے خیال میں بھی آپ سے ملتا جُلتا مفہوم آ رہا ہے،،،،،،،،،
yahi to Iqbal ka style tha keh koi bhi samajta he na tha asani se aor ulama karam us per ............
بلکل میں نے بھی اسی تشریح کے ساتھ یہ شعر سنا تھا باقی مجھے تو تشریح کرنے والی نے یہ بھی بتایا تھا علامہ اقبال کو اس شعر کی وجہ سے 2 دن جیل میں بھی گزارنے پڑئے اور علماء وقت نے ان پر کفر کا فتوی بھی جاری کر دیا تھا...توحید ہستی ہم ہیں واحد خدا ہمارا
ہم کافروں کے کافر ،کافر خدا ہمارا
میں نے بھی یہی سنا ہے، اقبال کے اردو کے تقریبا تمام مجموعے اور کلیاتِ اقبال بھی چھان ماری لیکن تصدیق نہیں ہوئی۔
میرا ایک دوست (جس نے مجھے یہ شعر سُنایا) وہ اس کی تشریح کچھ یوں کرتا ہے کہ
کافر کا مطلب ہے انکار کرنے والا،،،اس لحاظ سے دوسرے مصرعے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ہم کافروں (جو توحید کا انکار کرتے ہیں) سے انکاری ہیں، اُن کے نظریات کو نہیں مانتے، اور ہمارا خدا بھی ان کا انکاری ہے۔
واللہ اعلم۔