شعر کا دوسرا مصرع درکار ہے.,

بلکل میں نے بھی اسی تشریح کے ساتھ یہ شعر سنا تھا باقی مجھے تو تشریح کرنے والی نے یہ بھی بتایا تھا علامہ اقبال کو اس شعر کی وجہ سے 2 دن جیل میں بھی گزارنے پڑئے اور علماء وقت نے ان پر کفر کا فتوی بھی جاری کر دیا تھا...
اور تقریباً میں نے بھی یقین کیا ہی ہوا تھا. آج اس لڑی میں آ کر پتا چلا کے یہ شعر تو ڈاکٹر صاحب کا ہے ہی نہیں
علامہ اقبال کو فتوے کا سامنا شکوہ لکھنے پر کرنا پڑا تھا۔
 

فاتح

لائبریرین
اقبال کے نام سے بھی ہر مشہور شاعر کی طرح غلط طور پر اشعار منسوب کرنے کا رواج رہا ہے۔ پہلے ہر نا معلوم شعر کو میر سے منسوب کیا جاتا تھا پھر غالب کے نام اور پھر اقبال کے ساتھ یہ ہوا اور فراز بے چارے پر تو وہ برا وقت آیا خدا دشمن کو بھی بچائے :laughing:
 
وہ اس کی قدر کیا جانے خدا حافظ میں ڈرتا ہوں
پڑا ہے ہاتھ میں لڑکے کے میرے دل کا سیپارہ
اس کی کوئی تشریح کرے پلیز
 

فاخر رضا

محفلین
وہ اس کی قدر کیا جانے خدا حافظ میں ڈرتا ہوں
پڑا ہے ہاتھ میں لڑکے کے میرے دل کا سیپارہ
اس کی کوئی تشریح کرے پلیز
اس شعر میں شاعر آپ کو محفل میں خوش آمدید کہتا ہے اور درخواست کررہا ہے کہ خدا حافظ کہنے سے پہلے ڈر جائیے کیونکہ ہوسکتا ہے لوگ کفر کا فتویٰ لگا دیں کہ اللہ حافظ کیوں نہیں کہا. جہاں تک دل کا تعلق ہے وہ تو ازل کا بگڑا ہوا بچہ ہے، جو چیز اس کے پاس پہنچی وہ ضرور برباد ہوئی
 
ہم توحید پرست ہیں سارا جہاں ہمارا
ہم کافروں کے کافر, کافر خدا ہمارا
۔
میرا خیال میں اس شعر میں شاعر نے خود کو توحید پرست کہا ہے اور دوسرے مصرعہ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کافر ہمیں اور ہمارے خدا کو کافر سمجھتے ہیں۔
ہم کافروں کے کافر۔۔۔یعنی کافر ہمیں کافر سمجھتے ہیں۔
 
ہم کافروں کے کافر, کافر خدا ہمارا.

اس کا جوڑی دار مصرع بتائیں اور ساتھ ہی شاعر کا نام بھی
فاتح
محمد بلال اعظم
محمد وارث

سوال میں مذکور شعر ڈاکٹر اقبال مرحوم کی طرف منسوب تو ہے اور ان کے نام سے مشہور بھی ہے، لیکن تحقیق کے مطابق یہ شعر اُن کا نہیں ہے، ڈاکٹر اقبال مرحوم کے اشعار کے مجموعوں ( کلیات اقبال وغیرہ) میں بھی موجود نہیں ہے، نیز بعض محققین نے ڈاکٹر اقبال مرحوم کی طرف اس کی نسبت کو رد کیا ہے۔ لہٰذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نہ تو ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اس کو اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے اور نہ ہی کسی حوالے یا اقتباس سے اس کا ڈاکٹر اقبال مرحوم سے منسوب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے کہنے والے کا کچھ پتا نہیں ہے کہ یہ شعر کس نے کہا ہے، بظاھر کسی نے ڈاکٹر اقبال مرحوم کے اس شعر

چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

کے ردیف پر یہ شعر کہہ کر اس کو ڈاکٹر اقبال مرحوم کی طرف منسوب کردیا ہے۔

بہرحال یہ شعر جس کا بھی ہو اس کا صحیح مطلب درج ذیل ہوسکتاہے:

پہلے مصرعے ( توحید ہستی ہیں ہم، واحد خدا ہمارا )کا مطلب یہ ہوسکتاہے کہ ہم (یعنی مسلمان) ایک قوم ہیں، جس کی بنیاد کلمہ پر ہے، اور اس رشتے نے رنگ ونسل کے امتیاز کو مٹاکر ہمیں ایک قوم بنادیا ہے، جس کا خدا ایک ہے، دوسری غیر مسلم اقوام کی طرح ہمارے کئی خدا نہیں ہیں۔

اور دوسرے مصرعہ ( ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا) کا صحیح مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ کافر بمعنی منکر ہو یعنی انکار کرنے والا، مطلب یہ ہوگا کہ ہم اصطلاحی کافروں (توحید کا انکار کرنے والوں) کے منکر (انکاری ) ہیں، یعنی ان کے افکار و نظریات کو نہیں مانتے ہیں، بلکہ اس کے مخالف ہیں اور ہمارا خدا (اللہ) بھی ان کافروں کا منکر ہے ، یعنی اللہ تعالی بھی کافروں کے افکار و نظریات کے درست ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

البتہ مذکورہ شعر کے ظاہری الفاظ سے اس معنی کا سمجھ میں آنا عام آدمی کے لیے مشکل ہے اور اس سے غلط معنی کا وہم پیدا ہوتا ہے؛ اس لیے عوام کے سامنے اس شعر کو پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
 

سیما کرن

محفلین
بلکل میں نے بھی اسی تشریح کے ساتھ یہ شعر سنا تھا باقی مجھے تو تشریح کرنے والی نے یہ بھی بتایا تھا علامہ اقبال کو اس شعر کی وجہ سے 2 دن جیل میں بھی گزارنے پڑئے اور علماء وقت نے ان پر کفر کا فتوی بھی جاری کر دیا تھا...
اور تقریباً میں نے بھی یقین کیا ہی ہوا تھا. آج اس لڑی میں آ کر پتا چلا کے یہ شعر تو ڈاکٹر صاحب کا ہے ہی نہیں
آپ نے بالکل درست سُنا تھا یہ شعر محترم علامہ اقبال کا ہی ہے اور انھیں اس شعر کے کہنے پر جیل بھی ہوئی مزید یہ کہ وقت کے علماء کرام نے کفر کا فتوہ بھی دیا بلکہ ایک کثیر مجمعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے جواب طلب تھا۔
یہ شعر یوں ہے:
ہم ہیں وحدت پرست، واحد خدا ہمارا
ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا

کافر کا لفظی معانی "انکار کرنے والا یا منکر ہے۔" اس لحاظ سے اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی تشریح خود کی کہ ہم اللہ کے وجود سے انکار کرنے والوں کا کے سچے ہونے سے انکار کرتے ہیں اور اللہ ان کی بات کا سب سے بڑا انکار کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:
"لا الہ" یعنی کوئی معبود نہیں۔ اور پھر یہ کہ "الا اللہ" مگر اللہ۔
کوئی معبود نہیں مگر اللہ۔ سب سے پہلے اللہ نے باطل کے سارے خداؤں سے انکار کیا ہے۔
باقی بہتر اللہ پاک جانتے ہیں غلطی کوتاہی معاف کریں۔ کیونکہ کم علم خطرہ ہے، زیادہ جہالت خطرہ
 
یہ شعر علامہ اقبالؒ کی شاعری میں یعنی کلیات اقبال میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو پھر ان کا کیسے ہو گیا۔
یہ شعر وزن اور ردھم کے حساب سے ان کی مشہور نظم سے میل کھاتا ہے تو کسی نے مشہور کر دیا کہ یہ اقبالؒ کا شعر ہے۔
سوشل میڈیا نے شاعری سے شاعروں کے نام بدل دیے ہیں۔جدید دور کے شاعروں کی شاعری کے ساتھ کچھ لوگ اپنا نام لگا کر پوسٹ کر رہے ہیں جو کہ اخلاقی طور پر بہت گری ہوئی حرکت ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ شعر ہی نہیں ہے سرے سے تو کس طرح اقبال یا غالب کا ہو سکتا ہے؟ صرف ایک مصرع بحر میں ہے
 
آپ نے بالکل درست سُنا تھا یہ شعر محترم علامہ اقبال کا ہی ہے اور انھیں اس شعر کے کہنے پر جیل بھی ہوئی مزید یہ کہ وقت کے علماء کرام نے کفر کا فتوہ بھی دیا بلکہ ایک کثیر مجمعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے جواب طلب تھا۔
یہ شعر یوں ہے:
ہم ہیں وحدت پرست، واحد خدا ہمارا
ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا

کافر کا لفظی معانی "انکار کرنے والا یا منکر ہے۔" اس لحاظ سے اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی تشریح خود کی کہ ہم اللہ کے وجود سے انکار کرنے والوں کا کے سچے ہونے سے انکار کرتے ہیں اور اللہ ان کی بات کا سب سے بڑا انکار کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:
"لا الہ" یعنی کوئی معبود نہیں۔ اور پھر یہ کہ "الا اللہ" مگر اللہ۔
کوئی معبود نہیں مگر اللہ۔ سب سے پہلے اللہ نے باطل کے سارے خداؤں سے انکار کیا ہے۔
باقی بہتر اللہ پاک جانتے ہیں غلطی کوتاہی معاف کریں۔ کیونکہ کم علم خطرہ ہے، زیادہ جہالت خطرہ
جی بھائی، یہ اقبالؒ کا شعر نہیں ہے، مذکورہ قصہ من گھڑت ہے۔
 
یہ شعر چاہے اقبال کا ہو یا نہ ہو۔ بہت زبردست ہے۔ جو کفر کا معنیٰ جانتا ہے وہ ہی محظوظ ہو سکتا ہے۔
اقبال کا تو دور کی بات ... یہ سرے سے شعر ہی نہیں ہے ...
ہر قسم کے رطب و یابس سے زبردستی کے معنی کشید کرنا بھی کچھ اچھی روش نہیں
 
Top