"میرؔ و مومنؔ، غالبؔ و اقبالؔ و داغؔ و مصحفیؔ
انکے سب اسقام سے پاکیزہ اب بسملؔ بنے"
خوب بسمل صاحب-
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میر جیسے لوگ نقادوں کو اتنی عزت نہیں دیتے تھے، اپنے شعر پر اعتماد تھا-اگر کہیں کوئی لفظ گرا اور کسی نے اعتراض کیا تو کہتے"آپ پکڑ کر کھڑا کر لیں" یہاں تک کہ جگر نے بھی شعر میں مشدد لفظ کو غیر مشدد لکھا مگر کہا"اس کے لیے میں اپنا شعر ضائع نہیں کر سکتا"
جس دن کوئی شعر نقادوں کے لیے لکھنے لگا تو سمجھیں فرمائشی شاعر ہے ورنہ یہ کیا دھاندلی ہے کہ 'وگرنہ' کے اندر جو "نہ" ہے وہ تو ہجائے بلند شمار ہو سکتا ہے مگر "نہ" خود نہیں-
اگر کوئی لکیر کا فقیر ہو اور خود کو ثقہ سمجھے تو کیا کیا جا سکتا ہے-
حمید بھائی آپ کی بات درست ہے کسی حد تک مگر پوری طرح نہیں۔
پہلی بات:
آشفتہ، شوریدہ، پاکیزہ، وگرنہ، تشنہ، بچہ، زندہ، بندہ، نہ اور ایسے دیگر الفاظ۔
ان میں حرف ”ہ“ موجود نہیں ہے۔
صرف زبر ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ”نہ“ کو دو حرفی یا سبب خفیف نہ باندھو تو اس کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ عمل آپ کا اپنا ہے۔
بلکہ عمل تو یہ بھی آپ کا ہے کہ آپ بے وزن غزلیں لکھ ڈالیں۔ خارج از وزن مصرعے بھی ڈال دیجئے۔ دو بحروں کا خلط بھی جائز ہے۔ سب کچھ جائز ہے جناب۔ کیونکہ سب کی مثالیں استادوں کے کلام میں ملتی ہیں۔
بے شک اگر کوئی استاد اپنے اجتہادکو استعمال کرتے ہوئے کسی غلط طریقے کو اپنائے تو اس پر انگلی اٹھانا مقتدیوں کا کام نہیں ہوتا۔ مگر یہ بھی ہے کہ جب آپ کو پتا لگ جائے کے یہ غلطی ہے تو غلطی کو صحیح سمجھ لینا بھی عقلمندی نہیں۔
مگر سب اپنا محاسبہ خود کرسکتے ہیں۔ اور خاص طور پر ایک انسان جو نہ استاد ہو، نہ مجتہد، بلکہ مبتدی ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
اگر وگرنہ کو کوئی ”ہ“ کے ساتھ باندھے تو وہ اس کا عمل ہے۔ قانون نہیں ہے۔
اب ذرا لفظ وگرنہ کی مثالیں کلامِ غالب میں دیکھتے ہیں:
1۔ صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
طُعمہ ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا
2۔ جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر
3۔ ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
4۔ پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں
5۔ زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں
6۔ مگر غبار ہُوئے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
7۔ غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے
8۔ یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے
9۔ ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
10۔ وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے
یہ دس مثالیں پورے کلام غالب کا نچوڑ ہیں اور سب جگہ وگرنہ میں ”نہ“ کو ہجائے بلند نہیں بلکہ یک حرفی باندھا ہے۔
مگر کوئی غلط کرے تو اس غلطی کو ٹھیک کہنا اور قانون مان لینا کونسا صحیح ہے؟
میرؔ اپنے کلام میں جگہ جگہ ”پیار“ کو ”پ یار“ باندھا کرتے تھے تو کیا آنے والے شاعروں نے استعمال کیا ؟ نہیں۔ سب کے سب ”پار“ کے وزن پر استعمال کرتے۔
دوسرے استاد نے ”دھیان“ کو ”دھ یان“ باندھا تو کیا جائز ہوگیا؟ نہیں بعد میں بھی پوری پابندی کے ساتھ ”دھان“ کے وزن پر باندھا گیا۔
غالب نے رباعی کے وزن میں ایک مصرع خارج از بحر لگایا تو کیا اجازت مل گئی کے رباعی کے چوبیس اوزان میں ایک اور غالب والا وزن ملا کر پچیس کردیں؟ ہرگز نہیں۔۔۔
انشا کی غزل کا مطلع:
آدمی چیز ہے کیا اس نے نہ چھوڑے پتھر
پھونکے جس جلوے نے سب طور کے روڑے پتھر
اسی غزل کا ایک شعر:
لکھ غزل اور بہ تبدیل قوافی انشا
تو نے آخر تو ہیں اس بحر کے چھیڑے پتھر
اب آپ کے نزدیک شاید قافیہ کا یہ تغیر بھی جائز ہو مگر غلطی غلطی ہی رہتی ہے۔ اور چھوڑے کا قافیہ چھیڑے جائز نہیں۔ مگر انشا استاد شاعر ہیں تو ہم یہ کہینگے کہ وہ دانستہ طور پر یہ تغیر لائے۔ مگر اس سے ہمیں اجازت نہیں ملی کہ ایسا کیا جائے۔ اور شعرا کا تو کام ہی نقاد کو کوسنا ہوتا ہے سو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
الغرض غلطی غلطی ہی رہتی ہے۔ چاہے استاد کریں یا کوئی اور۔
جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ مجتہدین کی ہیں۔ اور انکے اختیارات کو آپ اپنا اختیار نہیں سمجھ سکتے۔
اور آپ کا وگرنہ کے نہ کو بھی واضح کر دیا ہے غالب سے۔
اس کے باوجود اگر کہیں ایسے الفاظ میں ”ہ“ شمار کی جاتی ہے تو وہ قانون نہیں اور غیر فصیح۔ وزن پورا کرنے کی مجبوری کہا جاسکتا ہے۔ قادر الکلامی نہیں۔
معاف کیجئے میں بھی استاد
الف عین کی طرح ثقہ ثابت ہوا ہوں۔