شعر

بندہ ناچیز ان اشعار کو مروڑنے کی جسارت کر رہا ہے، پیشگی معافی چاہتا ہوں

چاہا تھا تا حد انہیں
رہ گئیں چاہتیں، نہ رہے ہم

نظر لگ گئی زمانے کی
دیوانوں کے حصہ میں، نہ رہے غم
 

حمید

محفلین
"میرؔ و مومنؔ، غالبؔ و اقبالؔ و داغؔ و مصحفیؔ
انکے سب اسقام سے پاکیزہ اب بسملؔ بنے"

خوب بسمل صاحب-

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میر جیسے لوگ نقادوں کو اتنی عزت نہیں دیتے تھے، اپنے شعر پر اعتماد تھا-اگر کہیں کوئی لفظ گرا اور کسی نے اعتراض کیا تو کہتے"آپ پکڑ کر کھڑا کر لیں" یہاں تک کہ جگر نے بھی شعر میں مشدد لفظ کو غیر مشدد لکھا مگر کہا"اس کے لیے میں اپنا شعر ضائع نہیں کر سکتا"

جس دن کوئی شعر نقادوں کے لیے لکھنے لگا تو سمجھیں فرمائشی شاعر ہے ورنہ یہ کیا دھاندلی ہے کہ 'وگرنہ' کے اندر جو "نہ" ہے وہ تو ہجائے بلند شمار ہو سکتا ہے مگر "نہ" خود نہیں-

اگر کوئی لکیر کا فقیر ہو اور خود کو ثقہ سمجھے تو کیا کیا جا سکتا ہے-
 
"میرؔ و مومنؔ، غالبؔ و اقبالؔ و داغؔ و مصحفیؔ
انکے سب اسقام سے پاکیزہ اب بسملؔ بنے"

خوب بسمل صاحب-

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میر جیسے لوگ نقادوں کو اتنی عزت نہیں دیتے تھے، اپنے شعر پر اعتماد تھا-اگر کہیں کوئی لفظ گرا اور کسی نے اعتراض کیا تو کہتے"آپ پکڑ کر کھڑا کر لیں" یہاں تک کہ جگر نے بھی شعر میں مشدد لفظ کو غیر مشدد لکھا مگر کہا"اس کے لیے میں اپنا شعر ضائع نہیں کر سکتا"

جس دن کوئی شعر نقادوں کے لیے لکھنے لگا تو سمجھیں فرمائشی شاعر ہے ورنہ یہ کیا دھاندلی ہے کہ 'وگرنہ' کے اندر جو "نہ" ہے وہ تو ہجائے بلند شمار ہو سکتا ہے مگر "نہ" خود نہیں-

اگر کوئی لکیر کا فقیر ہو اور خود کو ثقہ سمجھے تو کیا کیا جا سکتا ہے-

حمید بھائی آپ کی بات درست ہے کسی حد تک مگر پوری طرح نہیں۔
پہلی بات:
آشفتہ، شوریدہ، پاکیزہ، وگرنہ، تشنہ، بچہ، زندہ، بندہ، نہ اور ایسے دیگر الفاظ۔
ان میں حرف ”ہ“ موجود نہیں ہے۔
صرف زبر ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ”نہ“ کو دو حرفی یا سبب خفیف نہ باندھو تو اس کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ عمل آپ کا اپنا ہے۔
بلکہ عمل تو یہ بھی آپ کا ہے کہ آپ بے وزن غزلیں لکھ ڈالیں۔ خارج از وزن مصرعے بھی ڈال دیجئے۔ دو بحروں کا خلط بھی جائز ہے۔ سب کچھ جائز ہے جناب۔ کیونکہ سب کی مثالیں استادوں کے کلام میں ملتی ہیں۔
بے شک اگر کوئی استاد اپنے اجتہادکو استعمال کرتے ہوئے کسی غلط طریقے کو اپنائے تو اس پر انگلی اٹھانا مقتدیوں کا کام نہیں ہوتا۔ مگر یہ بھی ہے کہ جب آپ کو پتا لگ جائے کے یہ غلطی ہے تو غلطی کو صحیح سمجھ لینا بھی عقلمندی نہیں۔
مگر سب اپنا محاسبہ خود کرسکتے ہیں۔ اور خاص طور پر ایک انسان جو نہ استاد ہو، نہ مجتہد، بلکہ مبتدی ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
اگر وگرنہ کو کوئی ”ہ“ کے ساتھ باندھے تو وہ اس کا عمل ہے۔ قانون نہیں ہے۔
اب ذرا لفظ وگرنہ کی مثالیں کلامِ غالب میں دیکھتے ہیں:

1۔ صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
طُعمہ ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا

2۔ جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر

3۔ ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

4۔ پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں

5۔ زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں

6۔ مگر غبار ہُوئے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

7۔ غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے

8۔ یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے

9۔ ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

10۔ وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے

یہ دس مثالیں پورے کلام غالب کا نچوڑ ہیں اور سب جگہ وگرنہ میں ”نہ“ کو ہجائے بلند نہیں بلکہ یک حرفی باندھا ہے۔
مگر کوئی غلط کرے تو اس غلطی کو ٹھیک کہنا اور قانون مان لینا کونسا صحیح ہے؟
میرؔ اپنے کلام میں جگہ جگہ ”پیار“ کو ”پ یار“ باندھا کرتے تھے تو کیا آنے والے شاعروں نے استعمال کیا ؟ نہیں۔ سب کے سب ”پار“ کے وزن پر استعمال کرتے۔
دوسرے استاد نے ”دھیان“ کو ”دھ یان“ باندھا تو کیا جائز ہوگیا؟ نہیں بعد میں بھی پوری پابندی کے ساتھ ”دھان“ کے وزن پر باندھا گیا۔
غالب نے رباعی کے وزن میں ایک مصرع خارج از بحر لگایا تو کیا اجازت مل گئی کے رباعی کے چوبیس اوزان میں ایک اور غالب والا وزن ملا کر پچیس کردیں؟ ہرگز نہیں۔۔۔
انشا کی غزل کا مطلع:
آدمی چیز ہے کیا اس نے نہ چھوڑے پتھر
پھونکے جس جلوے نے سب طور کے روڑے پتھر
اسی غزل کا ایک شعر:
لکھ غزل اور بہ تبدیل قوافی انشا
تو نے آخر تو ہیں اس بحر کے چھیڑے پتھر

اب آپ کے نزدیک شاید قافیہ کا یہ تغیر بھی جائز ہو مگر غلطی غلطی ہی رہتی ہے۔ اور چھوڑے کا قافیہ چھیڑے جائز نہیں۔ مگر انشا استاد شاعر ہیں تو ہم یہ کہینگے کہ وہ دانستہ طور پر یہ تغیر لائے۔ مگر اس سے ہمیں اجازت نہیں ملی کہ ایسا کیا جائے۔ اور شعرا کا تو کام ہی نقاد کو کوسنا ہوتا ہے سو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
الغرض غلطی غلطی ہی رہتی ہے۔ چاہے استاد کریں یا کوئی اور۔
جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ مجتہدین کی ہیں۔ اور انکے اختیارات کو آپ اپنا اختیار نہیں سمجھ سکتے۔​
اور آپ کا وگرنہ کے نہ کو بھی واضح کر دیا ہے غالب سے۔​
اس کے باوجود اگر کہیں ایسے الفاظ میں ”ہ“ شمار کی جاتی ہے تو وہ قانون نہیں اور غیر فصیح۔ وزن پورا کرنے کی مجبوری کہا جاسکتا ہے۔ قادر الکلامی نہیں۔​
معاف کیجئے میں بھی استاد الف عین کی طرح ثقہ ثابت ہوا ہوں۔ ;)
 

حمید

محفلین
"جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ مجتہدین کی ہیں۔ اور انکے اختیارات کو آپ اپنا اختیار نہیں سمجھ سکتے۔"

آپ کی تحقیق کا معترف ہوں، مجھے اس کا بھی کوئی حوالہ بتا دیں کہ کچھ شعری رعایتیں صرف بڑے شاعروں کے لیے ہوتی ہیں- یہ کلیہ کس کتاب میں ہے- اجتہاد سے بھی تو نیا اصول قائم ہوتا ہے کم از کم اس کے اسلامی اصطلاحی معنوں میں-
 
شعر اور عروض:
شعراء نے فطرتی انداز میں شعر کہے بعدمیں ماہرین جن میں سر فہرست نام خلیل بن احمد الفراھیدی کا ہے (پیدائش ٧١٨ وفاۃ ٧٨٩) نے عروض جیسے علم/فن کی بنیاد رکھی ، جو اشعار انکی وضع کردہ کسوٹی کے معیار پر پورے نہ اترے انکو مختلف اصطلاحات دے دی گئی جنہیں زحافات اور عیوب یا نقص وغیرہ سے جانا جاتا ہے ۔
شعر اصل ہے عروض اسکی نقل ہے (یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں نقل اصل سے بہتر بنادی جاتی ہے)
شعر ایک ریاست ہے عروض قانون ہے (قانون میں استثناء یا گنجائش ہوتی ہے)
شعرزبان ہے عروض قواعد ہے ( قواعد میں شائع شدہ اخطاء / کامن ایررزبھی ہوتے ہیں جن کو درست لکھا جائے تو جمہور غلطی سمجھيں گے)
عروض کی اہمیت:
جیسا کہ ایک زبان کو سالم رکھنے کیلئے قواعد وضع کیئے جاتے ہیں تاکہ زبان اپنی اصل ساخت پر قائم رہے کچھ اسی طرح علم عروض شعر کی اصل کو محفوظ رکھنے کیلئے وضع کیا گیا ہے عروض میں ایسے اوزان شامل ہیں جن پر ماہرین اور عوام مشترکہ طور پر متفق ہیں، ان اوزان کو صوتی لحاظ سے تمام کانوں نے قبول کیا ہے ۔ پہلے پہل صرف شعر ہوتا تھا جواکیلا اورمسکین تھا کسی ہمسفر کا متلاشی تھا جو خود اسمیں ہی موجود تھی عروض نے آکر شعر کا مزہ دوبالہ کردیا ۔عروض شاعر كو خود مختار بناتا هے۔
خلاصہ:
شعر حاکم هے عروض محکوم ہے ۔شعر تخليق هے عروض تنقيد هے۔شعر جيت جاتا هے عروض هار جاتا هے۔ شعر لا محدود هے عروض محدود هے۔عاجز كو كچھ عروض سمجھ آيا تب كچھ شعر كا پته چلا كم قسمتي كه شعر پهلے سمجھ نهيں آيا يا لا شعور ميں شعر كي حقيقت كا كچھ ادراك تھا، تو اس اعتبار سے ميري پهلي سيڑھي عروض هے دوسري شعر هے، عروض زنده باد۔ بهت بول ديا الله مجھے معاف كرے۔آمين۔
 
شعر کیا ہے؟
میرے مطابق شعر ایسے جذبات ہیں جو کسی اوزان کے مرہون منت نہیں ہوتے، مظلوم کا صبر شعر ہے، ظالم کا ظلم شعر ہے، ماضی کی غطی شعر ہے، حال کی سرگرمی شعر ہے، مستقبل کا خوف شعر ہے، لوگوں کا آنا شعر ہے لوگوں کاجانا شعر ہے،کسی کی زلفیں ہیں تو کسی کی آنکھیں شعر ہیں اور ہمارا دل بھی شعر ہے دل کی دھڑکن بھی شعر ہے ، کسی کا وصل شعر ہے کسی کا انتظار شعر ہے کسی کی اناشعر ہے کسی کی عاجزی شعر ہے ۔
 
Top