شعور، پیاسا سمندر ہے، کیا کیا جائے ٭ غالب عرفان

شعور، پیاسا سمندر ہے، کیا کیا جائے
یہ کائنات کا منظر ہے، کیا کیا جائے

نفس نفس میں مقّید ہوا کا رخ بن کر
حیات، میرا مقدر ہے، کیا کیا جائے

نگاہ دیکھ نہ پائی ہے، آج تک جس کو
وہ میری روح کے اندر ہے، کیا کیا جائے

بلا رہا ہے، جو آئینے میں نیا چہرہ
مری پہنچ سے بھی باہر ہے، کیا کیا جائے

دراڑ پڑ گئی مٹی میں ہونٹ خشک ہوئے
زمین ویسی ہی بنجر ہے، کیا کِیا جائے

ادا نہ ہو سکا، عرفانِ فکر کا جو قرض
مرے شعور کا محور ہے، کیا کِیا جائے

غالب عرفان
 
Top