زیک
مسافر
پاکستانی ٹیم کے کپتان شعییب ملک کے ٹونٹی ٹونٹی کے فائنل کے بعد بیان پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے:
پاکستان کے کپتان شعیب ملک نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں پاکستان اور پوری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں کہ ہم جیت نہیں سکے لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے سو فی صد کوشش کی‘۔
شعیب ملک کے اس بیان نے کئی سوالات کھڑے کر دیے۔ پہلا یہ کہ کیا یہ کھیل دو مذاہب کے عقیدت مندوں کے درمیان کھیلا گیا تھا اور دوسرا کہ کیا پوری دنیا کےمسلمان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی حمایت کرتے ہیں؟ یا یہ کہ پاکستان پورے دنیا کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی سید کرمانی کا کہنا ہے کہ شعیب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ کھیل میں مذہب کی دخل اندازی نہیں ہونی چاہیے’ میرے خیال میں اگر کوئی مذہب کا سہارا لے کر کھیل میں آگے جانے کی سوچ رہا ہے تو وہ جاہل ہے‘۔
کرکٹ کے تجزیہ کار پردیپ میگزین نے کہا کہ بہتر یہی ہوگا کہ ہم اس بیان کو بھول جائیں۔ لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ مین آف دا میچ کا اعزاز عرفان پٹھان کو ملا ہے جو کہ ایک مسلمان ہیں۔ انہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
مسٹر میگزین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں تبلیغی جماعت کا اثر زيادہ ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس وجہ سے یہ بات ان کے دماغ میں آئی ہو’ میرا نہیں خیال ہے کہ یہ بیان انہوں نے کسی سیاست کو ذہن میں رکھ کر دیا ہے‘۔
وہیں ہاکی کے سابق کپتان اسلم شیر خان کا کہنا ہے کہ کھیل میں اس قسم کی باتوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس وقت شاید انہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’وہ انٹرویو انگریزی میں تھا اور شاید وہ اس بات کو پوری طرح واضح نہیں کر سکے‘۔