طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفق خلش
نظر سے میری جو پردے ہٹا دِئے رب نے
تماشے سب کے ہوں جیسے لگا دِئے رب نے
دِکھا کے آج سرِ راہ اُن کو پھر سے ہمیں
تمام لوگ نظر سے ہٹا دِئے رب نے
خیالِ یار سے راحت ہے زندگی میں مُدام
نشاط و کیف سب اِس میں بسا دِئے رب نے
حَسِین ایک نظارہ نہیں جُدا اُن سے
سب اُن کی دِید میں جلوے سجا دِئے رب نے
ذرا سی مجھ کو مُصیبت میں ڈال کر یوں خلِش
ہٹا کے چہروں سے چہرے دِکھا دِئے رب نے
شفیق خلش
شفق خلش
نظر سے میری جو پردے ہٹا دِئے رب نے
تماشے سب کے ہوں جیسے لگا دِئے رب نے
دِکھا کے آج سرِ راہ اُن کو پھر سے ہمیں
تمام لوگ نظر سے ہٹا دِئے رب نے
خیالِ یار سے راحت ہے زندگی میں مُدام
نشاط و کیف سب اِس میں بسا دِئے رب نے
حَسِین ایک نظارہ نہیں جُدا اُن سے
سب اُن کی دِید میں جلوے سجا دِئے رب نے
ذرا سی مجھ کو مُصیبت میں ڈال کر یوں خلِش
ہٹا کے چہروں سے چہرے دِکھا دِئے رب نے
شفیق خلش