شفیق خلش -- آنکھوں کی پُوری ہو یہ عبادت رہی سہی

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش

آنکھوں کی پُوری ہو یہ عبادت رہی سہی
پڑھ لیں رُخوں پہ لِکھّی عبارت رہی سہی

کب تک ہو چِلمَنوں سے عَطَا حُسنِ خِیرہ کُن
مِل جائے اب نظَر کو اجازت رہی سہی

بے پردَگِی کی آس لگائے ہُوئے ہے دِل!
ہو دُور درمیاں سے قباحت رہی سہی

اب تاب ہی کہاں، کہ سَہے بندِشیں کوئی
حاصِل ہو دِل کو دِل سے اجازت رہی سہی

غم اِنتہا کا، مُجھ کو نہ لے جائے اُس جگہ
بُھولوں میں، اُس کی یاد کی راحت رہی سہی

مولا کرے ، ہو موت تصوّر لِئے تِرا
پوری ہو دل کی آخری حاجت رہی سہی

خَلوَت میں مُنتَظِر ہے تِری دِید کا خلش
چاہے پھر آئے اُس پہ قیامت رہی سہی

شفیق خلش
 
غم اِنتہا کا، مُجھ کو نہ لے جائے اُس جگہ
بُھولوں میں، اُس کی یاد کی راحت رہی سہی۔
واہ واہ ۔۔۔ایک اور بہت خوب غزل شفیق خلش کی ۔
 

طارق شاہ

محفلین
غم اِنتہا کا، مُجھ کو نہ لے جائے اُس جگہ
بُھولوں میں، اُس کی یاد کی راحت رہی سہی۔
واہ واہ ۔۔۔ ایک اور بہت خوب غزل شفیق خلش کی ۔

گیلانی صاحبہ!
ممنون و متشکّر ہوں انتخاب غزل پرآپ کی اس داد اور اظہار خیال کیلئے
بہت خوشی ہوئی جو میری پیش کردہ یہ غزل آپ کو پسند آئی
بہت شاداں رہیں
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب
اب تاب ہی کہاں، کہ سَہے بندِشیں کوئی
حاصِل ہو دِل کو دِل سے اجازت رہی سہی
بہت عمدہ کلام شریک محفل کیا ہے
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب
اب تاب ہی کہاں، کہ سَہے بندِشیں کوئی
حاصِل ہو دِل کو دِل سے اجازت رہی سہی
بہت عمدہ کلام شریک محفل کیا ہے
سید صاحب!
خوشی ہوئی جو انتخاب پسند آیا
محنت وصول ہوئی
تشکّر اظہارِ خیال و پسندیدگی پر
بہت شاد و آباد رہیں
 
Top