طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں
کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں
ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک
کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں
سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ
کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں
سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم
اب اور نہ مِلنے کے جو ہرجانے ہُوئے ہیں
اب خود ہی چَھلک جاتے ہیں آنکھوں سے مِری اشک
لبریز غمِ ہجر سے پیمانے ہُوئے ہیں
قسمت میں نہیں خاک خلش، آپ یہ سمجھیں
پتھر سے بنی شمع کے پروانے ہوئے ہیں
شفیق خلش
شفیق خلش
اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں
کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں
ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک
کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں
سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ
کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں
سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم
اب اور نہ مِلنے کے جو ہرجانے ہُوئے ہیں
اب خود ہی چَھلک جاتے ہیں آنکھوں سے مِری اشک
لبریز غمِ ہجر سے پیمانے ہُوئے ہیں
قسمت میں نہیں خاک خلش، آپ یہ سمجھیں
پتھر سے بنی شمع کے پروانے ہوئے ہیں
شفیق خلش