طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
بدلے بہت ہیں ہم نے اطوار زندگی کے
کُھلتے نہیں ہیں پھر بھی اسرار زندگی کے
کوئی تو ایسا ہوتا، ہم یاد کرکے روتے
گزرے ہیں سارے دن ہی بیکار زندگی کے
اپنوں کے ہاتھوں مرتے دیکھے ہیں روز اپنے
کیسے ہیں یہ تماشے خونخوار زندگی کے
آمر نہیں ہے فوجی، پھر بھی وہی چلن ہے
کالک مَلی ہے کس نے اِس بار زندگی کے
مانگیں عذاب سے ہیں، سب لوگ ہی رہائی
طالب نہیں وطن میں، دو چار زندگی کے
سب ہی تڑپ رہے ہیں تیرے دئے وطن میں
ہلکے ہوں اب تو مالک، کچھ بار زندگی کے
ہر روز کی قیامت نازل نہ کر خدایا
نام ونشاں مِٹا دے اک بار زندگی کے
بھولے ہیں کب خلش ہم، اپنی وطن کی یادیں
خوش رنگ تِتلِیاں وہ، وہ پیار زندگی کے
شفیق خلش