شفیق خلش شفیق خلش ::::: جان ودِل ہجرمیں کُچھ کم نہیں بےجان رہے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزل

شفیق خلش

جان ودِل ہجرمیں کُچھ کم نہیں بےجان رہے
لڑ کر اِک دردِ مُسلسل سے پریشان رہے

سوچ کر اور طبیعت میں یہ ہیجان رہے !
کیوں یُوں درپیش طلاطُم رہے، طوُفان رہے

بُت کی چاہت میں اگر ہم نہ مُسلمان رہے
رب سے بخشش کی بھی کیا کُچھ نہیں امکان رہے

مگراب دل میں کہاں میرے وہ ارمان رہے
ضُعف سے لگتا ہے کُچھ روز کے مہمان رہے

زندگی کی مِری تخفِیف کا سامان رہے
لمحے یادوں کے تِری، باعثِ تاوان رہے

میں رہا، اور مِری زیست کی تنہائی کو
تیرے ایفا نہ کئے وعدہ و پیمان رہے

غم جسے اپنا سُنائیں کوئی ایسا بھی نہیں !
اُن کی چاہت میں خلش سب ہی سے انجان رہے

شفیق خلش
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زندگی کی مِری تخفِیف کا سامان رہے
لمحے یادوں کے تِری، باعثِ تاوان رہے

میں رہا، اور مِری زیست کی تنہائی کو
تیرے ایفا نہ کئے وعدہ و پیمان رہے

ایک سے بڑھ کر ایک غزل اور اشعار آپ کے توسط سے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ بہت ہی عمدہ کلام حسب روایت۔
 
Top