طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
جب جب کِئے سِتم، تو رعایت کبھی نہ کی
کیسے کہیں کہ اُس نے نہایت کبھی نہ کی
کیا ہو گِلہ سِتم میں رعایت کبھی نہ کی
سچ پُوچھیےتو ہم نے شکایت کبھی نہ کی
چاہت ہمارے خُوں میں سدا موجْزن رہی
صد شُکر نفرتوں نے سرایت کبھی نہ کی
شاید ہمارے صبْر سے وہ ہار مان لیں
یہ سوچ کر ہی ہم نے شکایت کبھی نہ کی
اُس چشمِ مے نواز و فسُوں ساز نے ہمیں
کیسے کہیں کہ اُس نے نہایت کبھی نہ کی
کیا ہو گِلہ سِتم میں رعایت کبھی نہ کی
سچ پُوچھیےتو ہم نے شکایت کبھی نہ کی
چاہت ہمارے خُوں میں سدا موجْزن رہی
صد شُکر نفرتوں نے سرایت کبھی نہ کی
شاید ہمارے صبْر سے وہ ہار مان لیں
یہ سوچ کر ہی ہم نے شکایت کبھی نہ کی
اُس چشمِ مے نواز و فسُوں ساز نے ہمیں
اک دیدِ التفات عنایت کبھی نہ کی
ہوگا غلط ، اگر یہ کہیں کارِعشق میں
عقل و ہُنر نے دل کی حمایت کبھی نہ کی
بھرتا ہُوں دَم میں اب بھی اُسی دلنواز کا
ترسیلِ غم میں جس نے کفایت کبھی نہ کی
اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی
ہوگا غلط ، اگر یہ کہیں کارِعشق میں
عقل و ہُنر نے دل کی حمایت کبھی نہ کی
بھرتا ہُوں دَم میں اب بھی اُسی دلنواز کا
ترسیلِ غم میں جس نے کفایت کبھی نہ کی
اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی
شفیق خلش