شفیق خلش -- جب جب کِئے سِتم، تو رعایت کبھی نہ کی

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش
جب جب کِئے سِتم، تو رعایت کبھی نہ کی
کیسے کہیں کہ اُس نے نہایت کبھی نہ کی

کیا ہو گِلہ سِتم میں رعایت کبھی نہ کی
سچ پُوچھیےتو ہم نے شکایت کبھی نہ کی

چاہت ہمارے خُوں میں سدا موجْزن رہی
صد شُکر نفرتوں نے سرایت کبھی نہ کی

شاید ہمارے صبْر سے وہ ہار مان لیں
یہ سوچ کر ہی ہم نے شکایت کبھی نہ کی

اُس چشمِ مے نواز و فسُوں ساز نے ہمیں
اک دیدِ التفات عنایت کبھی نہ کی

ہوگا غلط ، اگر یہ کہیں کارِعشق میں
عقل و ہُنر نے دل کی حمایت کبھی نہ کی


بھرتا ہُوں دَم میں اب بھی اُسی دلنواز کا
ترسیلِ غم میں جس نے کفایت کبھی نہ کی

اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی

شفیق خلش
 

فرخ منظور

لائبریرین
اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی
واہ کیا خوبصورت انتخاب ہے۔ شکریہ طارق شاہ صاحب!
 

طارق شاہ

محفلین
اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی
واہ کیا خوبصورت انتخاب ہے۔ شکریہ طارق شاہ صاحب!
انتخاب کی پذیرائی اور اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں فرخ صاحب
خوشی ہوئی جو متخبہ غزل آپ کو پسند آئی
تشکّر
بہت خوش رہیں
 

باباجی

محفلین
واہ کیا خوب غزل ہے

اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی
 

طارق شاہ

محفلین
واہ کیا خوب غزل ہے

اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی

بہت ممنون ہوں بابا جی، آپ کے اظہارِ خیال اور انتخاب پر داد کے لئے
بہت خوشی ہوئی جو پیش کردہ غزل آپ کو پسند آئی
تشکّر
بہت شاد رہئے
 
Top