طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے
ملوُل میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے
ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن
غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے
تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے
کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے
لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے
کوئی خیال اِسے پَل کو بھی جُدا نہ کرے
خلش بنے ہیں سبھی زخم لاعلاج ایسے !
کہ جس پہ کچھ بھی اثر اب دوا، دُعا نہ کرے
شفیق خلش
شفیق خلش
جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے
ملوُل میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے
ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن
غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے
تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے
کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے
لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے
کوئی خیال اِسے پَل کو بھی جُدا نہ کرے
خلش بنے ہیں سبھی زخم لاعلاج ایسے !
کہ جس پہ کچھ بھی اثر اب دوا، دُعا نہ کرے
شفیق خلش