طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
خُلوصِ دِل سے جو الُفت کِسی سے کرتے ہیں
کہاں وفا کی وہ دُشوارِیوں سے ڈرتے ہیں
ہر اِک سے، سر نہیں ہوتی ہے منزلِ مقصُود
بہت سے، راہِ طلب میں تڑپ کے مرتے ہیں
ڈریں ہم آگ کے دریا کے کیوں تلاطُم سے
نہیں وہ ہم ، جو نہیں ڈوب کر اُبھرتے ہیں
جنہیں نہ عشق میں حاصل ہو وصل کی راحت
وہ داستانوں کے عنوان بن نکھرتے ہیں
تمھارے ہجرکے لائے ہوئے یہ روزوشب
بجز تمھارے ہی آئے کہاں سُدھرتے ہیں
صُعُوبَتوں کے نِشاں تک تو سب مِٹا ڈالے
مُفارقت کے لگے داغ کب اُترتے ہیں
خلش جو ساتھ ہوں راتوں کو چاندنی کی طرح
وہی تو صبح کو سُورج بنے اُبھرتے ہیں
شفیق خلش
شفیق خلش
خُلوصِ دِل سے جو الُفت کِسی سے کرتے ہیں
کہاں وفا کی وہ دُشوارِیوں سے ڈرتے ہیں
ہر اِک سے، سر نہیں ہوتی ہے منزلِ مقصُود
بہت سے، راہِ طلب میں تڑپ کے مرتے ہیں
ڈریں ہم آگ کے دریا کے کیوں تلاطُم سے
نہیں وہ ہم ، جو نہیں ڈوب کر اُبھرتے ہیں
جنہیں نہ عشق میں حاصل ہو وصل کی راحت
وہ داستانوں کے عنوان بن نکھرتے ہیں
تمھارے ہجرکے لائے ہوئے یہ روزوشب
بجز تمھارے ہی آئے کہاں سُدھرتے ہیں
صُعُوبَتوں کے نِشاں تک تو سب مِٹا ڈالے
مُفارقت کے لگے داغ کب اُترتے ہیں
خلش جو ساتھ ہوں راتوں کو چاندنی کی طرح
وہی تو صبح کو سُورج بنے اُبھرتے ہیں
شفیق خلش
مدیر کی آخری تدوین: